Wednesday, 26 March 2025
    1.  Home
    2. 92 News
    3. Aaghar Nadeem Sahar
    4. Sab Rang Digeston Ka Athwa Volume

    Sab Rang Digeston Ka Athwa Volume

    سب رنگ ڈائجسٹ کہانیوں نے 1970ء سے 1990ء تک اردو دنیا میں دھوم مچائے رکھی، عالمی ادب سے شاہکار کہانیوں کا یہ کڑا انتخاب محترم شکیل عادل زادہ کی نگہبانی میں ترتیب پاتا تھا، اردو کا ایک بڑا طبقہ ان کہانیوں سے مستفید ہوتا رہا مگر حیف کہ یہ سلسلہ دو عشروں کے بعد بند ہوگیا۔ اس بندش کی وجوہات جو بھی ہوں مگر یہ خبر ان قارئین کے لیے تکلیف دہ تھی جن کے رات اور دن ان کہانیوں کے ساتھ بسر ہوتے تھے۔

    2020ء میں جب حسن رضا گوندل نے ان کہانیوں کی ترتیبِ نو کا اعلان کیا تو دنیائے ادب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، ہمارے وہ سینئرقلم کار جنھوں نے اس نگار خانے کا ذائقہ چکھ رکھا تھا، ان کے لیے سب رنگ ڈائجسٹ کی اشاعتِ نو خوش گوار حیرت کا باعث بنی، یہ کام کبھی بھی تکمیل کو نہ پہنچتا اگر اسے میرے بھائی حسن رضا گوندل جیسا جنونی شخص میسر نہ آتا۔

    یہ ایک محنت طلب کام تھا، پہلے گزشتہ شمارے اکٹھے کرنا، پھر ان کی حالتِ زار کو بہتر کرنا اور پھر اشاعت کے تمام مراحل جو واقعی دشت پیمائی اور آبلہ پائی کے مترادف تھے، خوش اسلوبی سے طے کرنا۔ حسن رضا گوندل سے محبت کی ایک وجہ تو "سب رنگ ڈائجسٹ "ہے، انھوں نے جس محنتِ شاقہ سے ان سحر انگیز کہانیوں کو قارئین تک پہنچایا، وہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔

    اس جنونی دوست سے محبت کی دوسری وجہ منڈی بہاء الدین بھی ہے، یہ میرے شہر سے ہیں، میری اپنی مٹی سے، وہ مٹی جس نے مجھے اور حسن کو کہانیاں سننا، پڑھنا اور پھر لکھنا سکھایا، مجھے لگتا ہے میری اور حسن کی شناسائی بہت پرانی ہے، شاید کسی پچھلے جنم کی، جب ہم دونوں اپنے بزرگوں سے کہانیاں سنتے تھے، پڑھتے تھے اور اب لکھتے ہیں۔ میں سب رنگ کی کہانیاں پڑھتے ہوئے واقعی حیرت میں تھا، میں جب جیکر یلدز کی کہانی "معذرت خواہ"پڑھ رہا تھا، یقین کریں میری آنکھیں نم تھیں، یہ کہانی ایک ایسے بیٹے کا واقعہ ہے جو اپنی ماں اور بیوی کی محبت کے درمیان لٹک رہا ہے، وہ اپنی ماں سے ایک آخری ایثار کا طلب گار ہے، وہ ماں کے سرہانے جو مکالمہ کرتا ہے، وہ دہلا دینے والا ہے، ماں سے شدید محبت کرنے والا بیٹا ماں کے سرہانے بیٹھ کر کہتا ہے کہ"پیاری اماں! اگر تو واقعی مجھ سے پیار کرتی ہے اور تجھے میری مجبوریوں کا احساس ہے تو اب تو اللہ کو پیاری ہو جا"۔

    اس جملے کے بعد میں بہت دیر خاموش رہا، بار بار یہ جملہ دہراتا رہا اور ہر اس فرد کا دکھ جھیلتا رہا جو اس دوہرے عذاب سے گزر رہا ہے۔ موپساں کی کہانی "چور" بھی ایک شاندار کہانی ہے، ایڈوب جیمس کی کہانی "نقش فریادی"ہو یا پھر ٹام برنیم کی"بہ دستِ امکاں"۔ یہ سب کہانیاں ہر لھاض سے منفرد ہیں، اسلوب سے لے کر پلاٹ اور کرداروں کی تخلیق تک، ہر جملہ، ہر مکالمہ شاندار ہے۔

    سب رنگ ڈائجسٹ کا آغاز یکم جنوری 2024ء کو ہوا اور دیکھتے دیکھتے ہی اس ڈائجسٹ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے، اس کی سرکولیشن ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی اور ہر خاص و عام کا پسندیدہ رسالہ بن گیا۔ اس کا پہلا ایڈیشن گیارہ سو کی تعداد میں چھپا تھا جو چار ہفتوں میں ختم ہوگیا، پبلشر کو دوسرا ایڈیشن چھاپنا پڑا۔ لوگ اس کے تازہ شمارے کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔

    شکیل عادل زادہ صاحب نے جس عرق ریزی سے اس ڈائجسٹ پر کام کیا اور کہانیوں کے انتخاب سے لے کر اشاعت تک، جس جاں فشانی سے دن رات ایک کیے، اس کا صلہ یہ ملا کہ اس دور کے تمام رسالوں میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا سب رنگ ڈائجسٹ تھا۔ اس عہد ساز رسالے نے قارئین ادب کی زندگیوں کو یکسر بدل دیا، انھیں منفرد، تیکھی، چلبلی اورشاندار کہانیاں پڑھنے کا عادی بنادیا۔ شکیل صاحب اس وقت تک شمارہ نہیں چھاپتے تھے جب تک انھیں سب رنگ کے معیار کی کہانیاں نہیں مل جاتی تھیں، اچھی کہانی کے لیے وہ ہمہ تن مصروف رہتے، ایسی کہانی جو قاری کو اپنے سحر میں مبتلا کر لے، ویسی کہانی ڈھونڈتے۔

    عالمی کہانیوں کے انتخاب کے لیے انھوں نے بہت محنت کی۔ پھر ایک وقت آیا کہ سب رنگ بند ہوگیا، اڑھائی تین عشروں تک قارئین ادب کی تربیت کرنے والا یہ ادارہ بند ہوگیا، اب اللہ بھلا کرے حسن رضاگوندل صاحب کا، انھوں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور ان شماروں کو تلاش کرکے از سر نو مرتب کرنا شروع کر دیا، گگن شاہد اور امر شاہد(بک کارنر والے) جیسے شاندار پبلشر میسر آ گئے اور یوں مجھے بھی شکیل عادل زادہ صاحب کے اس نگار خانے کی سیر کا موقع میسر آ گیا۔

    اب مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ گوندل صاحب کے پاس سب رنگ کا کتنا خزینہ محفوظ ہے مگر میری یہ خواہش ضرورہے کہ یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے، سب رنگ کے گزشتہ شماروں کے بعد اس سلسلے کا دوبارہ آغاز ہونا چاہیے، شکیل عادل زادہ صاحب کے مشورے کے ساتھ، اس اہم ترین رسالے کی اشاعت جاری رہنی چاہیے تاکہ عہد حاضر میں، جب ڈائجسٹوں کی بھرمار ہے، قارئین ادب کو اچھی اور معیاری کہانیوں کا انتخاب میسر آ تا رہے، ہماری نئی نسل جس سے ہم نالاں رہتے ہیں کہ اسے ڈیجیٹل دنیا نے کتاب کلچر سے دور کر دیا ہے، اس کو ہم سب رنگ سے متعارف کروا سکیں۔

    میں نے کچھ روز قبل اپنی کلاس میں بچوں کو باقاعدہ سب رنگ ڈائجسٹ سے متعارف کروایا، کچھ عالمی کہانیوں کے ملخص بھی ڈسکس کیے اور یوں میرے کچھ طالب علموں نے کتاب میلے سے سب رنگ کے کچھ والیم خریدے بھی، یہ ایک کوشش تھی کہ ہم اپنی نئی نسل کو بھی اس نگار خانے کی سیر کروائیں، وہ نگار خانہ جس نے ہمارے بڑوں کو اور ہمیں، ایک عرصے سے اپنے سحر میں کیے رکھا ہے۔