پنجاب کونسل آف آرٹس ساہیوال ڈویژن کی دعوت پر پانچویں مرتبہ ساہیوال ادبی و ثقافتی کانفرنس میں حاضر ہوا، اس مرتبہ کانفرنس کا موضوع بھی نیا اور اور ذیلی عنوانات بھی، کانفرنس "مصنوعی ذہانت، ادب اور ثقافت"پر تھی، اس کانفرنس کا مقصد مصنوعی ذہانت کے اردو ادب کے لیے خطرات، مسائل اور امکانات پر مکالمہ تھا، ڈاکٹر ریاض ہمدانی(ڈائریکٹر ساہیوال آرٹس کونسل) اور ان کی ٹیم نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی حیران کر دیا، کانفرنس کے انتظامات سے لے کر موضوعات کا چناؤ اور مہمانوں کے انتخاب تک، سب انتہائی کمال تھا، کمشنر ساہیوال ڈویژن شعیب اقبال سید نے جس فراخ دلی کے ساتھ مندوبین کو خوش آمدید کہا اور ان کے ساتھ بہت سا وقت گزارا، وہ یقیناََ قابل داد ہے۔
ملک بھر سے تشریف لانے والے مندوبین، اسکالرز اور دانش وروں نے اردو ادب پر اس مشین کے اثرات پر گفتگو کی کیوں کہ مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفشل انٹیلی جنس AI نے ہمارے سماج کو شدید خدشات و خطرات سے دوچار کر دیا ہے، اس مشین سے نہ صرف مضامین و مقالات لکھوائے جا سکتے ہیں بلکہ تراجم کا کام بھی انتہائی عمدگی سے ممکن ہو رہا ہے۔ یہ تشویش ناک صورت حال آج نہیں تو کل، ہماری تہذیبی و ثقافتی زندگی کے ساتھ ساتھ تمدنی زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گی۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشین کا لکھا قابلِ قبول ہوگا یا نہیں، یا یہ بھی کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے لکھی جانے والی تحریریں (شعر و نثر)ہمارے ادیبوں اور قلم کاروں پر کیا اثرات مرتب کریں گی۔ ایک شاعر جو ایک طویل ریاضت کے بعد ایک سماجی تغیر کو احاطہ قلم میں لاتا ہے، وہی تجربہ یا تبدیلی اگر ایک مشینی تحریر بھی محسوس کر رہی ہے تو ایک قلم کار کو کیا کرنا ہوگا، اگر آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے ذریعے اداسی کے وہی محسوسات لکھے جا سکتے ہیں جو میرتقی میر یا ناصر کاظمی کے ہاں موجود ہیں تو پھر کیا ہمیں مصنف یا شاعر کی موت کو تسلیم کر لینا چاہیے؟
مصنوعی ذہانت کے علم برداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں انسانی دماغ بہت پیچھے رہ جائے گا اور یہ میشن آگے نکل جائے گی، اس میں یقیناََ کوئی شک نہیں مگر میرا خیال ہے کہ انسانی دماغ کی تہوں میں چھپے خیالات و احساسات کو مشین اس طرح دریافت نہیں کر سکے گی جیسے ایک تخلیق کار کر سکتا ہے، یہ انقلاب کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے مگر اس سے جڑے بہت سارے نقائص کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔
انسان اگر مشینوں پر حکومت کو اپنی کامیابی سمجھنے لگے گا تو انسان کی داخلی و خارجی کیفیات کو کیسے محسوس کیا جا سکے گا یا کیسے لکھا جا سکے گا، مصنوعی ذہانت یا آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو قابل اعتماد سمجھنے والے یا اسے انسانی دماغ کا نعم البدل تصور کرنے والے یقیناََ یہ تجربہ کر چکے ہوں گے کہ اس مشین یا ایپ کے ذریعہ لکھا جانے والا ادب یا شاعری، انسانی تخیل کا نعم البدل نہیں ہو سکتی، ممکن ہے ایک وقت میں ایسا ہو جائے مگر اس صورت میں بھی انسانی دماغ کی اہمیت اپنی جگہ موجود رہے گی۔
اردو ادب میں تحقیقی مواد کی فراہمی میں یہ مشین مددگار ثابت ہو سکتی ہے، بالکل ایسے جیسے گوگل اور دیگر ڈیجیٹل سرچ انجن، مگر بطور ایک قلم کار مجھے لگتا ہے کہ تخلیقی معاملے میں اس میشن کے پاس اتنا وسیع مواد موجود نہیں، جتنا ایک جینوئن اور صاحب مطالعہ تخلیق کار کے پاس ہو سکتا ہے۔ آج سے دس بارہ سال پہلے بھی ایک ایسا تجربہ ہوا تھا جب انٹرنیٹ پرایک سافٹ ایجادا ہوا جس کا نام تھا الیزا، اس سافٹ ویئر کا پورا نام"ٹاک ود ایلیزا"تھا یعنی الیزا سے گفتگو۔
اس سافٹ ویئر سے بات کرنے کا تجربہ جو ایک سائنسی حقیقت تھا، کسی رومان سے کم نہ تھا۔ ہماری پہنچ سے دور انگریز خاتون الیزا کی صورت کمپیوٹر اسکرین پر موجود تھی جس سے انگریزی میں من چاہی باتیں کی جا سکتی تھیں، الیزا مشورہ بھی دیتی تھی اور آپ کی باتوں میں دل چسپی بھی لیتی تھی لیکن آپ اس سے جب مسلسل بات کرتے تو چند سوالات کے بعد وہ اپنے جوابات دوہرانے لگتی تھی اور آپ اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے تھے۔
پہلی مرتبہ 5591ء میں اس اصطلاح کو جان مکار نے استعمال کیا اور ایک کانفرنس میں بہت سے سائنس دانوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کیوں نہ انسان کا ایک نعم البدل تیار کیا جائے، ممکن ہے ایک وقت ایسا بھی آئے جب دنیا میں قابل انسانوں کی تعداد اس قدر نہ رہے جتنی درکار ہو، ایسی صورت سے نمٹنے کے لیے مشینوں پر بھروسہ کرنا ہوگا۔
ایسا ہی تجربہ سپائک جونز نے اپنی فلم "ہر"(HER)میں بھی کیا تھا جو 3102ء میں ریلیز ہوئی تھی، اس فلم میں ایک کردار سمنتھا(Samantha) کا تھا جو انسانی جذبات سے لبریز خاتون تھی، وہ لکھاری تھیوڈور کی تنہائی کی ساتھی تھی اور موبائل ایپلی کیشنز کے ذریعے تحریر و تقریر میں رومانوی، مدبرانہ اور فلسفیانہ گفتگو کے ذریعے تھیوڈرو کا دل بہلاتی تھی، اسے لطائف بھی سناتی تھی اور اس کے ساتھ ڈھیروں قہقہے لگاتی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ آج جب ہم مصنوعی ذہانت کی وجہ سے خدشات کا شکار ہیں تو ہمیں اپنے ماضی میں بھی جھانکنا ہوگا، اس طرح کے تجربات نصف صدی سے ہو رہے ہیں، کبھی روبوٹ کی شکل میں اورکبھی سافٹ ویئرز کی طرز پر، مگر اس ساری ترقی کے باوجود انسانی دماغ کا مقابلہ ممکن نہیں ہو سکا۔ ہم اردو ادب یا تخلیقی عمل کے بارے پریشان ہیں کہ جلد "مصنف کی موت"ہو جائے گا اور مشینی دماغ وہ سب لکھ سکے گا جو انسان لکھ رہا ہے، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہم مصنوعی ذہانت سے پہلے ہی مستفید ہو رہے ہیں، چیٹ گی پی ٹی تھری ٹوفائیو، گوگل بارڈر، پرپلیکسٹی اور بنگ جیسے آن لائن ایپلی کیشنز یا سافٹ ویئر مصنوعی ذہانت ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ہم نے مشینوں سے مواد حاصل کر سکتے ہیں، بات بھی کر سکتے ہیں اور شاید اپنی تنہائی بھی دور کر سکیں مگر اسے لسانی مسائل کی باریکیوں کو سمجھنے میں وقت لگے گا۔
آج جب دھیرے دھیرے مصنوعی ذہانت یا مشینی دماغ کا دائرہ کار وسیع ہو رہا ہے تو ممکن ہے کہ عروض و قوافی کے استعمال کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی سطح بھی بلند ہو لیکن تخلیقی عمل کی جس پیچیدگی سے تخلیق کار گزرتا ہے، اس کا ادراک مشین کیا، کسی دوسرے انسان کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ در اصل تخلیقی عمل کے تجربے کو بیان کرنا، ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنے مرنے کا تجربہ بیان کرے۔
اگر چہ مصنوعی ذہانت بہت سے شعبوں میں کار آمد ثابت ہو رہی ہے لیکن اسے تخلیقی ادب کے میدان میں کارآمد ہونے میں کافی وقت لگے گا اور اگر مستقبل میں یہ کارگر ہو بھی جاتا ہے تب بھی اس کا انسان کے ذریعے تخلیق کردہ ادب کے معیار تک پہنچنا مشکل ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی تمام تر کاکردگی مشین لرننگ الگورتھم یعنی پہلے سے موجود ڈیٹا سے حاصل کی جاتی ہے، بھلے ہی الگورتھم یعنی موجود ڈیٹا تجزیے سے مصنوعی ذہانت کسی حد تک شعور مند ہو جائے لیکن الگورتھم میں لاشعور جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔