صنعتی ترقی نے ایک طرف معاشی انقلاب کی راہ ہموار کی تو دوسری طرف ماحول پربدترین اثرات مرتب کیے۔ زرعی شعبے میں سبز انقلاب کے نعرے اور نئی اختراعات نے زرعی پیدوار کو تو کئی گنا بڑھا دیا ہے مگر کیمیائی کھادوں اور جراثیم کش ادویات کے استعمال نے نہ صرف زمین بلکہ زیرِ زمین آبی ذخائر کو بھی آلودہ کر دیا ہے۔
کرۂ ارض بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی استعداد کے مطابق خزانے اگلتا رہااور ماحول اپنی گنجائش کے لحاظ سے صنعتی اور زرعی ترقی کے منفی اثرات جذب کرتا رہااور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ آج انسان کی اپنی بقا خطرے میں ہے اور اس کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ اس تمام تر بگاڑ اور انحطاط کے تدارک کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، کسی بھاری بھرکم ایجنڈے یا لائحہ عمل کی محتاجی کے بغیر بھی مسئلہ حل ہو سکتا ہے، ہمیں صرف اور صرف فطرت کے طے کردہ راستے اختیار کرنے ہیں، صرف توازن ہی اس بگاڑ کو سدھار سکتا ہے۔
خدائے لم یزل نے قرآنِ مقدس میں بارہا اس توازن کی جانب اشارہ کیا کہ ہر چیز ایک تناسب سے اگائی گئی ہے، اس زمین میں ہماری معیشت کا سامان موجود ہے مگر ایک توازن اور تناسب سے۔ حضور خاتم النبیین ﷺ کا بھی ارشاد گرامی ہے کہ: میں مدینے کو حرم ٹھہراتا ہوں مکہ کی طرح، اس کے دونوں پہاڑوں کے درمیانی علاقے بھی محفوظ ہوں گے، اس کے درخت نہ کاٹے جائیں مگر جتنا اونٹ کو ہانکنے کے لیے مطلوب ہوں"۔ آپﷺ جب کبھی مسلمانوں کا لشکر جنگ کے لیے روانہ فرماتے تو بہت واضح حکم دیا کرتے تھے کہ"کسی بچے، بوڑھے اور عورت کو قتل نہ کرو، نہ کوئی آنکھ پھوڑو اور نہ ہی کوئی درخت کاٹومگر وہ درخت جو تمہاری لڑائی میں مانع ہو"۔
ماحولیاتی آلودگی یا گلوبل وارمنگ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس تاحال کوئی واضح پالیسی نہیں ہے، ایسا لائحہ عمل جس کے اثرات زمین کے مستقبل کو محفوظ بنا سکیں۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق موسموں کے بگاڑ کی اہم وجہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہے، موسم کی اس تبدیلی کی وجہ خود انسان ہے۔ اندھا دھند سائنسی ترقی نے سب کچھ دھندلا دیا ہے، صنعتوں کے غیر محتاط پھیلائو، آبادی میں اضافے، شہروں کی جانب نقل مکانی، ٹرانسپورٹ میں اضافہ، بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کے لیے جنگلات کی کٹائی اور جنگلات کی زمینوں کو زرعی مقاصد اور ہائوسنگ سوسائیٹیوں کے لیے استعمال کرنا، یہ سب اس سلسلے کی کڑیا ں ہیں۔
انسان نے فطرت کے پیدا کردہ توازن کو برقرار رکھنے کی بجائے محض ذاتی تسکین کے لیے ماحول کو تباہ و بربادکیا، اس فطری عدم توازن میں بہتری تو جانے کب آئے لیکن فی الحال زمین پر زندگی شدید خطرے میں ہے، ہم قحط سالی یا کم بارشو ں کا گلہ تو تب کریں جب ہمارے اپنے اعمال اچھے ہوں۔ لاہور، ملتان، کراچی اور دیگر شہروں میں سموگ کی موجودہ صورت حال کوئی ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی، درجہ حرارت میں یہ اضافہ دہائیوں میں رونما ہوا ہے۔ انسانی وجود اس وقت ہی خطرے میں پڑ گیا تھا جب پچیس تیس سال پہلے جب اشرافیہ نے زرعی زمینوں اور جنگلات کو ہائوسنگ سوسائیٹیز میں تبدیل کرنا شروع کیا تھا۔
درجہ حرارت کا اضافہ بہت معمولی سے بات نظر آتی ہے، یہ شدید اضافہ کرۂ ارض پر حیات کے خاتمے کا اعلان ہے۔ 2018ء میں کہا گیا تھا کہ" زمین پر گزشتہ صدی کے دوران 0.3 اور0.6 درجہ کیلسیس تک گرم ہو چکی ہے، تب یہ تخمینہ لگا گیا تھا کہ 2024ء تک دنیا آج کے مقابلے میں اوسطاً 1.3درجہ کیلسیس تک گرم ہو جائے گی اور یہ اضافہ تباہ کن صورت حال پیدا کرے گا"۔ آج(2024ء میں )درجہ حرات میں یہ اضافہ جسے ماہرین گلوبل وارمنگ کا نام دیتے ہیں، زمین کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔
پاکستان میں گلوبل وارمنگ کی تازہ صورت حال نہ صرف بارشوں کو متاثر کر رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر خوراک کی فراہمی کے نظام کو بھی بہت حد تک تباہ کر رہی ہے اور مستقبل قریب میں یہ صورت حال مزید خطرناک ہو جائے گی۔ خوراک کے ساتھ ساتھ پانی ایک اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے، دنیا میں صرف تین فیصد پانی پینے کے قابل ہے، باقی ستانوے فیصد سمندروں کا نمکین پانی ہے جو انسانوں کے لیے بیکار ہے۔ پانی صرف انسانوں ہی نہیں، پودوں، پرندوں اور جانوروں کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ کیڑے مار ادویات اور جراثیم کش سپرے سے نہ صرف فضاآلودہ ہو رہی ہے بلکہ زیر زمین پانی بھی ناقابل استعمال بنتا جا رہا ہے، یہی پانی جب آب پاشی کے لیے استعمال ہوگا تو آپ خود سوچیں ہماری فصلوں کی کیا حالت ہوگی۔
جب ہم گھروں کو کوڑا کرکٹ ندی نالوں میں بہائیں گے، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا دھواں فضا میں چھوڑیں گے تو سوچیں بدلے میں یہ آلودہ فضا اور آلودہ پانی ہمارے ساتھ کیسا سلوک کرے گی؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ فضائی آلودگی پنجاب میں ہی زیادہ کیوں ہے؟ ایک رپورٹ کے مطابق اس تقریباً چھیالیس ہزار کے قریب چھوٹے بڑے صنعتی یونٹ صرف پنجاب میں کام کر رہے ہیں، ان میں سے پانچ ہزار یونٹ ایسے ہیں جن کے بارے ماہرین کئی بار متنبہ کر چکے کہ یہ یونٹس حیاتِ انسانی کے لیے انتہائی خطرناک ہیں، اس کے باوجود نہ تووہ یونٹس بند ہوئے اور نہ ہی ان میں کمی کی گئی بلکہ ان گزشتہ ایک دہائی میں ان یونٹس میں اضافہ دیکھا گیا، یہ پانچ ہزار یونٹس جن میں کھاد، چینی، چمڑا، کاغذ، کیڑے مار ادویات میں ہر روز 212ملین گیلن گندہ مادہ دریائوں میں ڈالا جاتا ہے۔
اسی طرح صوبہ پنجاب میں 48 ہزار ٹن کوڑا روزانہ اکٹھا ہوتا ہے جب کہ صرف لاہور میں تین سے پانچ ہزار ٹین کوڑا اکٹھا ہوتا ہے جو شہر کے قریب ہی پھینکا جاتا ہے۔ اس تباہ کن گندگی اور آلودگی کے بعد میں پنجاب اور خصوصا لاہور میں سموگ نہ ہو، تو کیا ہے؟