وہ نوجوان کئی روز سے کال کر رہا تھا۔ میں نے عید کی چھٹیوں میں بلا لیا۔ اس کے ہاتھ ایک خط تھا، چاہتا تھا کہ اسے کالم میں شائع کروں۔ سو یہ خط پیش ہے: سلام و رحمت جنابِ وزیر اعظم! رحمتوں کی دعا کے ساتھ آپ سے چند گزارشات کروں گا، یہ گزارشات صرف میری نہیں بلکہ ان لاکھوں نوجوانوں کی ہیں جن کے ہاتھوں میں ڈگریاں بھی ہیں اور ٹیلنٹ بھی۔
جنابِ عالی! یہ نوجوان جنھوں نے پاکستان کے لیے ہمیشہ کچھ بڑا کرنے کاسوچا، جنھوں نے اس دھرتی پر خواب دیکھے اور اس دھرتی کے لیے خواب دیکھے، جن کے ٹیلنٹ کا محور یہ وطنِ عزیز تھا، آج وہ سب اس سسٹم اور یہاں کے اداروں سے مایوس ہو چکے ہیں۔
جناب وزیر اعظم صاحب آپ نے ایک مرتبہ بھی سوچا کہ گزشتہ دو سالوں میں ساٹھ لاکھ سے زائد پڑھے لکھے نوجوان ملک سے کیوں چلے گئے، وہ نوجوان جو ڈاکٹرز بھی تھے اور انجینئرز بھی، وہ نوجوان جو پاکستان کے سسٹم میں تبدیلی کا خواب دیکھتے رہے، آج دساور جا پہنچے، کیوں؟ کیا میرے سسٹم، میرے حکمرانوں اور وطن عزیز کے سارے وسائل پر قابض اشرافیہ نے ایک مرتبہ بھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوا؟
جناب عالی! میں بہت مجبور ہوکر یہ خط لکھ رہا ہوں، میں جب لاکھوں نوجوانوں کو پاسپورٹ آفس اور ویزہ ایمبیسیوں کے باہر قطار میں کھڑا دیکھتا ہوں تو یقین کریں اندر سے ٹوٹ جاتا ہوں۔ جناب آپ تو خود کو نوجوانوں کا ہیرو کہتے ہیں، آپ تو خود کو نوجوانوں کا مسیحا اور خادم کہتے ہیں، جناب آپ اور آپ کی بھتیجی مریم نواز نے ہمیشہ اس سسٹم اور یہاں رہنے والے نوجوانوں کے حقوق کا نعرہ لگایا مگر آج یہ نعرہ کہاں ہے؟
جناب ضروری نہیں کہ اس ملک کے ہر نوجوان کا مسئلہ اچھا لیپ ٹاپ ہو یا بلا سود قرضے ہوں، جناب یہ لاکھوں نوجوان قرضوں اور لیپ ٹاپ کی بجائے اپنے محفوظ مستقبل کا سوال پوچھتے ہیں، جناب جب پاکستان کے ہر ادارے میں طاقتور ریٹائرڈ افراد اور بیوروکریٹ بٹھا دیا جاتا ہے تو مجھے یہ سوال کرنا پڑتا ہے کہ حضور یہ ملک کس کا ہے اور میں اور میرے جیسے لاکھوں نوجوان یہاں کیوں ہوں؟
ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق لاکھوں ڈاکٹرز اور انجینئرز امیگریشن کے ذریعے یورپ، امریکہ اور کینیڈا جاچکے، جو باقی رہ گئے وہ صبح شام یہاں سے نکلنے کی کوششوں میں ہیں۔ جناب وزیر اعظم ہر نوجوان بزنس کے لیے سرمایہ نہیں رکھتا، یہ پڑھتے ہیں نوکریوں کے لیے، اچھے اداروں میں اہم سیٹوں پر پہنچنے کے لیے مگر حیف یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ ایک حکومت اشتہار دیتی ہے تو اگلی اس لیے سارا پراسس کینسل کر دیتی ہے کہ ان بھرتیوں پر تو گزشتہ حکومت کی تعریفیں ہوں گی، جناب یہ ظلم کئی سالوں سے جاری ہے مگر آپ اور آپ کی کابینہ خاموش ہے۔
جناب جس ملک میں 154جامعات میں سے 51 میں وائس چانسلر ہی نہ ہوں، وہاں کے تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان نہیں ہوگا؟ جناب آج کا نوجوان اس لیے مایوس ہے کہ وہ جانتا ہے کہ یہاں کی اشرافیہ نے وسائل کا رخ اپنی نسلوں اور مسائل کا رخ ہماری نسلوں کی طرف کر رکھا ہے، یہاں کا نوجوان لاکھوں خواب دیکھے، ہزاروں جگہ اپلائی کرے، بہتر سے بہترین یونیورسٹی سے ڈگری لے، مگر یہاں ہوگا وہی جو سرکار چاہے گی، جناب کیا یہ سوال آپ اپنے وزرائے اعلیٰ اور اپنی ٹیم سے کریں گے کہ اس ملک سے جانے والے لاکھوں نوجوانوں کا کیا قصور تھا، انھیں کس جرم کی سزا دی گئی کہ انھوں نے لاکھوں کروڑوں لگا کر ڈگریاں پائیں، گولڈ میڈل لیے مگر سرکاری اعزاز پانے والوں میں کسی نوجوان کا نام نہیں۔ جناب یہ کیسا ظلم ہے جہاں نوجوانوں کے نام پر فنڈز تو نکلتے ہیں مگر وہ قوم کے بیٹے بیٹیوں کی بجائے اشرافیہ کی اولادوں اور من پسند لوگوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔
جناب عالی! میں دکھی ہوں کہ میرے اس ملک، سسٹم اور ان اداروں سے ہمارا ساٹھ فیصد نوجوا ن مایوس ہو چکا ہے، یہ صبح شام ایک ہی کوشش میں مصروف ہیں کہ ملک چھوڑ دیا جائے کیوں کہ پاکستان ہمارا نہیں، طاقتور اشرافیہ کی اولادوں کا ملک ہے۔
جناب وزیر اعظم آپ خود سوچیں جس ملک میں تین تین سال نوکریاں ہی نہ آتی ہوں، اندرون و بیرون ملک سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے ہزاروں نوجوان نوکری کی امید پر بیٹھے ہوں اور جب نوکری آئے تو ساتھ ہی کمیشن کے پیپر زفروخت ہونا شروع ہو جائیں، سیٹوں کی بولیاں لگنے لگیں، یونیورسٹی میں نوکریاں آئیں تو تین تین سال تک پراسس نہ ہواور اگر اللہ اللہ کرکے پراسس ہو بھی جائے تو جناب وزیر اعلیٰ پنجاب اس لیے اس پراسس کو ختم کروا دے کہ یہ عمران خان کے دور میں ہوا تھا، آپ اس عمل کو بدنیتی نہیں کہیں گے؟
جناب یونیورسٹی میں اپلائی کرنے کی کم سے کم فیس دو ہزار روپے ہے، کیا یہ بے روزگار نوجوان ہر مرتبہ یہ فیس افورڈ کر سکتے ہیں؟ جناب ذرا آپ بتائیں جن نوجوانوں نے ان سیٹوں پر اپلائی کیا، ٹیسٹ دیے، سلیکشن بورڈز سے گزرے، ان کو دوبارہ یہ سب کرنے کا کہا جائے تو وہ کیا کریں گے، کیا عمران خان یا پی ڈی ایم کی حکومت پارلیمانی نہیں تھی؟ اگر تھی تو پھر یہ پراسس غلط کیسے ہوا؟ جناب جس ملک میں لاقانونیت انتہا پر ہو، جہاں عدالتیں اور ججز تک اپنے کام سے مطمئن نہ ہوں، یہاں کا بیوروکریٹ خود بتائے کہ اس نے کرپشن کی ہے، جہاں کا سیاست دان اسمبلی میں کھڑا ہو کر اعلان کرے کہ یہ ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا، بتائیں اس ملک کا نوجوان کہاں جائے؟
جناب آپ لیپ ٹاپ، اسکالر شپ، قرضے یا موٹر بائیک دیں، جب تک ان لاکھوں نوجوانوں کو نوکریاں نہیں دیں گے، انھیں انصاف، امن اور قانون کی بالادستی نہیں دیں گے یہ یہاں نہیں رہیں گے، یہ ملک چھوڑنے کے ترجیح دیں گے لہٰذا خدارا اصل مسائل کو جانیں، اپنے مشیروں میں نوجوانوں کو لائیں، اسمبلیوں میں نوجوانوں اور ایکسپرٹ کو لائیں، ان پر بھروسہ کریں، یقین کریں یہ آپ کے بھروسے سے کہیں زیادہ لائق اور کامیاب نکلیں گے، جناب وزیر اعظم! آپ ریٹائرڈ افسران کی بجائے صرف ایک مرتبہ نوجوانوں پر بھروسہ کریں، یہ آپ کو توقع سے زیادہ اچھا رزلٹ دیں گے۔
والسلام: ایک محب وطن نوجوان