Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Khauf Kyun Phelaya Ja Raha Hai

Khauf Kyun Phelaya Ja Raha Hai

امریکا کی ایک جیل میں سزائے موت کے ایک قیدی پر انوکھا تجربہ کیا گیا۔ اسے بتایا گیا کہ اُسے سانپ سے ڈسوا کر مارا جائے گا۔ اس قیدی کے حواس پر سانپ چھا گیا۔ ایک دن اس کے سامنے سانپ لایا گیا تو وہ سہم گیا۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک پیپر پِن اس کی ٹانگ میں چبھویا گیا، قیدی کو یقین ہو گیا کہ اسے زہریلے سانپ نے کاٹا ہے، تھوڑی دیر میں اس کی موت واقع ہو گئی حالانکہ اسے سانپ نے چھوا تک نہ تھا۔ خوف اس طرح انسان کو مار دیتا ہے۔

ہمارے ہر طرف بھی خوف کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں لیکن اتنا خوف کیوں پھیلایا جا رہا ہے۔ کیا پہلے کبھی کوئی وباء نہیں پھیلی۔ کیا موت کی واحد وجہ کورونا وائرس ہے یا پھر کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے خوف کی یہ فضا پھیلائی جا رہی ہے۔

اسلامی تاریخ کے بہت ابتدائی زمانے میں اسلامی سلطنت کے کئی حصوں میں وبا پھیلی۔ ابوالحسن المداینی لکھتے ہیں کہ89ہجری میں حجاز پر عبداﷲ ابنِ زبیرؓ کی حکومت تھی۔ اُس دوران ایسی وبا پھیلی کہ ایک ایک گھر سے کئی کئی میتیں نکلیں۔ اسی وبا نے نہ صرف سیدنا انس بن مالکؓ کی جان لے لی بلکہ ان کے خاندان کے بیسیوں افراد بھی شکار ہو گئے۔ یہ 1665کی بات ہے۔ لندن میں پلیگ نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھے۔ لندن میں اس موذی وبا سے آس پاس کی بستیاں بھی متاثر ہونا شروع ہو گئیں۔

خطرے کو بھانپتے ہوئے لندن سے 55میل دور کیمرج یونیورسٹی کو بند کر دیا گیا۔ اِزاک نیوٹن کیمرج میں زیرِ تعلیم تھا۔ کیمرج یونیورسٹی کو وبا کے پیشِ نظر اسی طرح بند کر دیا گیا جیسے اب کورونا کی وجہ سے تمام ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔ نیوٹن کی عمر اس وقت 22برس کی تھی۔ یونیورسٹی بند ہونے سے مستقبل کے سائنس دان کے لیے وہاں رہنا نا ممکن ہو گیا اوپر سے پلیگ کا خوف۔ یہی وہ وقت ہے جب اس نے نہ صرف کششِ ثقل کا عالمی قانون دریافت کیا بلکہ رہتی دنیا تک سائنس کی دنیا کا چہرہ بدل کے رکھ دیا۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ وبا کے اس زمانے میں نیوٹن گھر سے اسی طرح کام کر رہا تھا جیسے اب بہت سے لوگ دفاتر گئے بغیر اپنے اپنے گھروں سے کام کر رہے ہیں۔ ابھی پچھلی صدی میں 1918 کا سال تھا، اسپینش فلو نے تباہی پھیلا دی۔ ایک اندازے کے مطابق کم و بیش 5لاکھ افراد لقمہء اجل بن گئے۔ کورونا وائرس نومبر 2019 میں وبا کی صورت میں پھوٹ پڑا اسی لیے اسے COVIT-19 کا نام دیا گیا۔ چار مہینے سے اوپر ہوگئے ہیں اور ابھی تک کل کتنی اموات ہوئی ہیں۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسپرین استعمال سے ہر مہینے 250 افراد جان سے جاتے ہیں، سرجری، غلط ادویات اور میڈیکل کے شعبہ سے منسلک افراد کی غلطی سے ہر مہینے 20ہزار لوگ مرتے ہیں، فلو سے ہر مہینے39ہزار لوگ، HIV سے ہر مہینے 49ہزار، روڈ ایکسیڈنٹ سے 90ہزار اور دل کے دورے سمیت دل کی بیماریوں سے ہر مہینے دو ملین لوگ موت کی ابدی نیند سو جاتے ہیں۔ کورونا وائرس کا خوف یقینی طور پر ذہنی دبائو کو جنم دے گا اور ذہنی دبائو سے روڈ ایکسیڈنٹ بڑھ جائیں گے۔ ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی منفی خبریں خوف پھیلا کر کیا رنگ لائیں گی۔

وبائی وائرل امراض کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کورونا وائرس لیبارٹری میں انسان کا پیدا کردہ وائرس ہے، یہ قدرتی ہرگز نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ لیبارٹری میں پیدا کردہ ہے اور جیسا کہ ہے تو اس کے تیار کرنے کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں۔ ہمیں جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کون سی ایسی اہم ضرورت آپڑی تھی کہ حیاتیاتی سائنس کے ماہرین کو یہ وائرس تیار کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔

کچھ ماہرین جن پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے وہ پچھلے کئی سالوں سے مسلسل یہ بتا رہے تھے کہ کورونا وائرس لو گوں کو مارنے کے لیے بنائی گئی ہے لیکن مارنا اور خوف کے سائے گہرے کرنا صرف ایک مقصد اور سکے کا صرف ایک رُخ ہے۔ دوسرا رُخ یہ ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین کی عالمگیر ڈیمانڈ پیدا کی جائے۔ ویکسین تیار کر لی گئی ہے اور اسے Patentبھی کر دیا گیا ہے۔

اس ویکسین کا ایک کام تو کورونا وائرس کے خلاف تحفظ فراہم کرنااور بے حد و حساب پیسہ بنانا ہے لیکن اصل مقصد انسانی سیل Cellکے ڈی این اے کے اندر تبدیلی لا کر نئی ہدایات داخل کرنا ہے۔ شاید یہ زیادہ ٹیکنیکل ہو کر غیر دلچسپ ہو جائے لیکن ہماری دنیا بالکل تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ جمہوریت کے علمبردار ملکوں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ یہ ویکسین لگوانے کے لیے لوگوں کو مجبور کریں۔ اس لیے موت اور خوف کے سائے گہرے کر کے اس ویکسین کے لیے شدید ڈیمانڈ پیدا کرنا ہے تاکہ لوگ سمجھیں کہ اگر وائرس سے بچنا ہے تو اس ویکسین کا شاٹ لگوانا اشد ضروری ہے۔

ویکسین کے ذریعے ڈی این اے کو تبدیل کر دیا جائے گا اور ویکسین لینے والے فرد کے اندر سوچنے، سمجھنے، تجزیہ کرنے اور آزادانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جائے گی، اس طرح وہ صرف ایک خدمت گار ہو کر رہ جائے گا، وہ کبھی سوال نہیں کرے گا کہ میں ایسا کیوں کروں۔ اس کے اندر نہ کرنے کی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔ اگر عوام کی اکثریت ضرورت جان کر کروڑوں، اربوں کی تعداد میں ویکسین مانگیں گے اور اپنی مرضی سے لے لیں گے تو بے پناہ دولت کے ساتھ ایسے عوام تیار ہو جائیں گے جن کو جو کہا جائے گا وہی کریں گے۔

راک فیلر فائونڈیشن کی ایک دستاویز میں کورونا وائرس سے بچائو کے سلسلے میں لاک ڈائون، کرفیو اور دوسرے اقدامات کا چند سال پہلے بالکل اسی طرح ذکر موجود ہے جیسا اب ہو رہا ہے۔ دستاویز میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ دنیا کی بڑھتی آبادی تشویش ناک ہے اور کس طرح آبادی کو کم کرنے کے لیے وائرس کو استعمال میں لایا جائے گا۔ خوف کے ذریعے ہر چیز بند کر کے چھوٹی اور درمیانے سائز کی صنعتوں اور کاروبار کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے تا کہ گلوبل معیشت صرف اور صرف چند بڑی کمپنیوں کے ہاتھ میں آ جائے یا صرف وہ کاروبار کریں جو ان بڑی کمپنیوں میں ضم mergeہو کر ان کا حصہ بن جائیں۔

ایسا نظر آتا ہے کہ کارپردازوں کا پہلا ہدف امریکی اور یورپین عوام ہیں۔ ووہان چین میں کورونا وائرس کاآغاز ہوا۔ امریکیوں اور یورپی اقوام کو پتہ تھا کہ یہ کتنی آسانی سے پھیلنے والا مہلک وائرس ہے لیکن وہ سب سے پہلے اپنے لوگوں کو نکال کر واپس لے گئے اور اپنے ممالک میں وائرس پھیلایا۔ بظاہر یہ ایک اچھا قدم تھا لیکن اصل میں موت کے سوداگروں کا پھیلایا ہوا جال تھا۔