ہم زندگی کی دوڑ میں منہمک ہو کر اس بات کا احساس کھو دیتے ہیں کہ ہماری اس زندگی نے ایک دن ختم ہو جانا ہے۔ اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ ایک دن یہ زندگی ختم ہو جاتی ہے۔
اقوامِ عالم کی تاریخ میں کیسے کیسے جری اور نامور لوگوں نے اس دھرتی کو روندا لیکن پھر وہی ہوا کہ کوئی بھی چیز اُس لمحے کو نہ روک سکی جس کا آنا اٹل ہے۔ اس پر مزید یہ بھی نہیں پتا کہ کس موڑ پر اس سے ملاقات ہو جائے۔ میں چند دن پہلے یو ٹیوب پر چند ایسے میڈیکل کی فیلڈ کے ماہر ڈاکٹروں کے تاثرات دیکھ رہا تھا جنھوں نے ایک ایسی ریسرچ میں حصہ لیاجس میں ڈیتھ بیڈ Death Bed پر موت سے ہمکنار مریضوں کی نگہداشت بھی ہوئی اور ان مریضوں کے محسوسات بھی ریکارڈ میں لائے گئے۔
ان ڈاکٹروں کی بیان کی گئی باتوں میں جو بات سب میں مشترک تھی وہ یہ کہ موت سے ایک دو دن پہلے قریبی ر شتے داروں مثلاً ماں باپ، بہن بھائی یا بچوں میں سے اگر کسی کی موت پہلے ہی واقع ہو چکی ہے تو ایسے قریبی رشتے آپ کو وزٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ اعزا واقربا کا نظر آنا ایسے مریضوں کے لیے بالعموم باعثِ طمانیت ہوتا ہے۔ ان ڈاکٹروں نے یہ بھی محسوس کیا کہ آخری لمحات میں جانے والے کی پوری زندگی ایک فلیش بیک کی شکل میں اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔
اس سلسلے میں آسٹریلیا کے ایک اسپتال میں برسوں کام کرنے والی ایک نرس نے ایک لمبا عرصہ ایسے مریضوں کی دیکھ بھال میں گزارا جو موت کی آغوش میں جا رہے تھے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ آخری لمحات میں مریضوں پر کیا بیتتی ہے۔ ان کی اگر کوئی خواہشات ہوتی ہیں تو وہ کیا ہوتی ہیں۔ اپنے آپ کو اس ریسرچ سے وابستہ کرنے والی نرس کا نام براؤنی ویئر ہے۔
براؤنی نے اپنے مشاہدات پر مبنی ایک کتاب تصنیف کی ہے جس کا عنوان اس نے TOP FIVE REGRETS (پانچ سب سے بڑے پچھتاؤے) رکھا ہے۔ آپ اندازہ کریں ایک ایسے آدمی کا جس کی سانسیں اُکھڑ رہی ہیں، اس لمحے اس کی پوری زندگی ایک فلیش بیک کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہی ہے جس کو دیکھ کر آدمی پر پچھتاؤے اُمڈ آئے ہیں۔ یقیناً یہ صورتحال بہت ہی اذیت ناک ہو گی اگر زندگی اپنے آخری لمحات میں پچھتاؤوں سے بھری ہو، لمحات آخری ہوں اور آدمی ان Regrets کاکوئی مداوا بھی نہ کر سکتا ہو۔
براؤنی ویئر کی یہ کتاب بہت عمدہ اور مفید ثابت ہو سکتی ہے اگر اس کی تحقیق کو نظر میں رکھ کر آدمی اپنی زندگی سے ایسی تمام نہیں تو کچھ باتوں سے چھٹکارا حاصل کر سکے جو آگے چل کر پچھتاؤے بن جائیں۔ براؤنی کا کہنا ہے کہ اس کے زیرِ مطالعہ مریض ہر عمر، طبقے اور پیشے وغیرہ سے تھے جن کے درمیان بظاہر کوئی مماثلت نہیں تھی لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ ان کے Regretsمیں ایک مثالی مماثلت پائی گئی۔
براؤنی کے مطابق موت سے دوچار مریضوں کو پہلا پچھتاوا یہ تھا کہ وہ ساری عمر کیوں دوسرے لوگوں کی پرواہ کرتے رہے۔ یہی سوچتے رہے کہ لوگ کیا سوچیں گے، لوگ کس نظر سے دیکھیں گے، لوگ کیا کہیں گے۔ کاش میں نے اپنی زندگی خالص اپنی مرضی سے جی ہوتی۔ کاش میں نے اس کی پرواہ نہ کی ہوتی کہ لوگ کیا کہیں گے۔
آپ شدت سے محسوس کریں گے کہ وہ جن کی وجہ سے آپ نے مرضی کی زندگی تج دی تھی وہ آپ کی پرواہ نہیں کرتے، آپ کو پوچھتے ہی نہیں۔ آپ اپنی پسند نا پسند سے زیادہ لوگوں کیapprovalکا دھیان کرتے رہے۔ اسی طرح زندگی کی دوڑ میں کسی فرد کی شدید چاہت محسوس ہوئی۔ آپ اسے اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتے ہیں لیکن یہ سوچ کر کہ برادری کیا کہے گی، لوگ کیا کہیں گے.
آپ اپنا من پسند رشتہ چھوڑ دیتے ہیں جو ساری زندگی کا روگ بن جاتا ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ سب لوگ یہاں کھڑے ہیں، میں اگر یہاں نہ کھڑا ہوا تو لوگ کیا کہیں گے۔ یہ اور اس طرح کی بے شمار باتیں ہیں جو قدم قدم پر آپ کو آپکی مرضی کی زندگی نہیں جینے دیتیں۔ حالانکہ یہ آپ کی زندگی ہے اور یہ صرف ایک بار ملی ہے۔ آپ کیوں اپنی زندگی کو اپنے ڈھب سے نہیں جیتے۔ اگر آپ نے اپنے Passionکو فالو نہیں کیا تو زندگی کس کام کی، پھر Regretتو ہو گا۔
ایسے مریضوں کی اکثریت اور خاص کر مرد حضرات کو جو دوسرا regretگھیر لیتا ہے وہ یہ ہے کہ کاش میں نے اتنا کام نہ کیا ہوتا، کاش میں نے وقت نکالا ہوتا اور اپنے یا اپنی جیون ساتھی کے ساتھ ذرا زیادہ وقت گزارا ہوتا۔ کاش میں نے اپنے پسندیدہ کھیل کو جی بھر کے کھیلا ہوتا۔ کاش میں نے اپنے والدین کو زیادہ وقت دیا ہوتا اور اُن کی جی بھر کر خدمت کی ہوتی۔
کاش میں نے اپنے جیون ساتھی کی خوشیوں کا خیال رکھا ہوتا۔ کاش میں نے وقت نکال کر بچوں کو پل پل بڑے ہوتے دیکھا ہوتا۔ کاش میں نے اپنی پیاری بیٹی کی ننھی ننھی خواہشات کا خیال رکھا ہوتا۔ کاش میں نے اپنے فلاں دوست کا مشکل وقت میں ساتھ دیا ہوتا۔ یاد رکھیے زندگی کے پرائم دن بہت قیمتی ہوتے ہیں۔
آپ عزم و قوت کے عروج پر ہوتے ہیں۔ ان کا خوب فائدہ اُٹھائیے۔ آسٹریلوی نرس کی کتاب میں تیسرا پچھتاوا یہ ملتا ہے کہ کاش میں نے اپنیFeelingsنہ دبائی ہوتیں۔ کاش میں نے اپنے محسوسات کا کھل کر اظہار کیا ہوتا۔ کاش میں نے اپنی والدہ کو بتا دیا ہوتا کہ میرے دل میں ان کے لیے کتنی محبت ہے۔ کاش میں نے اپنے والد محترم کے پاؤں میں بیٹھ کر ان کے چہرے کو محبت اور شکر گزاری سے دیکھا ہوتا۔ کاش میں نے اپنے بیٹے کو گلے سے لگا کر اس کے ماتھے کو چوم لیا ہوتا۔ کاش میں نے اپنی بیٹی کی پسند کو نہ روندا ہوتا اور اپنے بھائی کی بہتر مستقبل بنانے میں مدد کی ہوتی۔
چوتھا regret جس کا اس کتاب میں تذکرہ کیا گیاہے وہ دوستوں سے متعلق ہے۔ غریب وہ نہیں جس کے پاس دولت کی فراوانی نہیں بلکہ غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔ دوستی قیمتی شے ہے۔ اپنے دوستوں کی قدر کیجیے۔ انھیں منا لیجیے۔ اگر رابطہ نہیں رہا تو رابطے کو بحال کریں۔ دوستوں کو کھو دینا بہت بڑی غلطی ہے، یہ غلطی مت کریں۔ دوست بنائیں، کھوئیں ہرگز نہیں۔
مرتے لوگوں کا عام طور پر پانچواں پچھتاوا اس بات پر ہوتا ہے کہ کاش ہم نے اپنے آپ کو خوش رکھا ہوتا۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ اسے کس چیز سے خوشی ملتی ہے۔ یاد رکھیے آپ کی خوشی کی چابی آپ کے اپنے پاس ہے اور آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ آپ کس چیز سے نہال ہوتے ہیں لیکن جاننے کے باوجود اپنی خوشیوں کو ترجیح نہیں دیتے۔ ساری زندگی دوسروں کو خوش کرتے رہتے ہیں، اپنی خوشیوں کا گلا دباتے رہتے ہیں اس طرح اپنی صحت برباد کر بیٹھتے ہیں۔ آپ کے اوپر سب سے زیادہ آپ کا اپنا حق ہے اس لیے خوش رہنے کی کوشش کریں۔
مرتے وقت کوئی اس بات پر نہیں پچھتاتا کہ اس نے زیادہ گھر کیوں نہیں بنائے، کوئی اس بات پر رنجیدہ نہیں ہوتا کہ اس کا بینک بیلنس کیوں زیادہ نہیں۔ کوئی اس بات پر نہیں پچھتاتا کہ اس نے فلاں فلاں برانڈ کے جوتے اور سوٹ کیوں نہیں پہنے یا فلاں برانڈ کی خوشبو کیوں نہیں لگائی یا یہ کہ فلاں جزیرے پر سمندر کو دیکھتا، وہاں گھر کیوں نہیں خریدا۔ براؤنی نے موت کے منہ میں جاتے مریضوں کو اعتماد میں لیا ان میں سے کسی نے بھی ان دنیاوی آسائشوں اور لذتوں کا ذکر تک نہیں کیا۔ Regretان چیزوں کا ہوتا ہے جو آس پاس ہوتی ہیں، آپ کی Reachمیں ہوتی ہیں اور پھر بھی انھیں ضایع کر دیا جاتا ہے۔
ہم براؤنی کی کتاب کے مندرجات سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ اپنے آپ کو پچھتاوؤں کی دلدل سے بچا لیں اور جو چیزیں آپ کی زندگی بہتر اور خوبصورت بنا سکتی ہیں لوگوں کی پرواہ کیے بغیر، ان کی طرف توجہ کریں البتہ اس کا خیال رکھیں کہ آپ کی مرضی، آپ کی خوشی کسی دوسرے کی زندگی نہ برباد کر دے۔ پچھتاوؤں سے بچنے کا عمدہ ترین گُراطاعت اور اتباعِ خاتم النبیینﷺ میں ہے۔ اس سے کبھی کوئی پچھتاؤے کا اندیشہ نہیں۔ آخر میں التجا ہے کہ کچھ بھی کمائیں، Regretsمت کمائیں۔