جو لوگ چلے جاتے ہیں ان کے لیے ہمارے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں رہ جاتا کہ ہم بچشم نم ان کے لیے دعائے مغفرت کریں انھیں اچھے الفاظ میں یاد کریں اور ان سے وابستہ یادوں کو تازہ کریں۔
گزشتہ دنوں میرے چند ایسے کرم فرما ہمیں بھٹکتا چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ پہلے میرے مہربان اردوڈائجسٹ کے بانی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی چلے گئے ان کے پیچھے پیچھے ہمارے اسلام آبادی شاہ جی سید سعودساحر روانہ ہوئے، ان دونوں کا غم ابھی تازہ تھا کہ چوہدری انورعزیز بھی چلے گئے۔ صحافت کی زندگی میں ان اصحاب سے میرا خاص تعلق رہا۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اردو ڈائجسٹ کے بانی ایڈیٹر بھی تھے اور ان کی رہنمائی میں اخبار نویسوں کی جو کھیپ تیار ہوئی وہ آج تک صحافت پر حکمرانی کر رہی ہے۔
اردو ڈائجسٹ انگریزی زبان کے رسالے ریڈرز دائجسٹ کی طرز پر شایع ہونے والا ایسا ماہنامہ ہے جو آج کے جدید اور تیز رفتاردور میں بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھے ہوئے ہے اور اس کا سہرا اعجاز قریشی مرحوم کے سر تھا ان کے بھائی الطاف حسن قریشی اپنی جاندار اور قوم کو بیدار کرنے والی تحریروں سے اس ماہنامے میں اپنا رنگ جماتے ہیں۔ اردو زبان کے فروغ اور ترویج میں ان دونوں بھائیوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ جو کہ اردو زبان میں تھا اعجاز قریشی صاحب کو بجھوایا تو انھوں نے ٹیلی فون کر کے مجھے اس بات کی مبارکباد دی کہ شکر ہے کہ آپ کا دعوت نامہ قومی زبان میں ہے اور آج کے کل زمانے میں جب اردو زبان کا استعمال دقیانوسی تصور کیا جاتا ہے آپ کی اردو زبان میں دعوت سے مجھے دلی خوشی ہوئی ہے اور بعد میں وہ تقریب میں بھی شریک ہوئے۔
سید سعود ساحرراولپنڈی کی صحافت جو بعد میں اسلام آباد منتقل ہو گئی کا ایک بہت بڑا نام تھا۔ لاہور میں صحافیوں کے شاہ جی مرحوم عباس اطہرتھے تو پنڈی میں سیدسعود ساحر شاہ جی تھے۔ جب بھی اسلام آباد جانا ہوتا تھا تو ان سے ملاقات سفر کا لازمی حصہ ہوتی تھی۔ جب سے اسلام آباد جانا موقوف ہوا تو خیریت معلوم کرنے کے لیے ان کا فون ضرور آتا تھا۔
سعود ساحر اخبار نویسوں کی اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے جب سینئر کسی جونیئر کی تربیت کیا کرتے تھے۔ ان کا زمانہ اخبارات میں کمانے کا نہیں کام کرنے کا تھا۔ ان لوگوں نے نہ خود کبھی کمایا نہ وہ دوسروں کو کمانے کا کوئی گر سکھا سکتے تھے۔ انھوں نے صرف صحافت کی تھی وہ یہی کام جانتے اور یہی کام سکھاتے تھے ان کے نزدیک صحافت ہمیشہ ایک نظریاتی پیشہ رہا جس میں وہ دل کا سکون اور طمانیت تلاش کرتے رہے اور وہ اسی سکون سے حوصلہ حاصل کرتے رہے اور فاقہ کشی برداشت کرنے کی ہمت پیدا کرتے رہے۔
ان کا تعلق ان حوصلہ مند اور جرات مند لوگوں سے تھا جنھوں نے جونیئر صحافیوں کی اخلاقی تربیت کی تھی۔ انھوں نے نوجوان صحافیوں کے دل و دماغ پر ایسے نقش بٹھا دیے کہ ان کو کھرچنے میں ایک عمر بیت جائے مگر پھر بھی وہ پتھر پر لکیر ثابت ہوں گے۔
جب کبھی ایمان ڈولنے لگتا ہے تو یہ لکیریں دیوار بن کرسامنے آجاتی ہیں ان لوگوں کے مقابلے میں ہم آج کے صحافی رئیس ہیں اور اپنی حیثیت میں زندہ رہ سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایمان سلامت نہیں رہے۔ ہماری خوشحالی ہمارے ایمان کو کھا گئی ہم حرص و ہوس کی غلاظتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری تحریروں میں برکت نہیں رہی۔ حرف مطبوعہ کی عزت باقی نہیں رہی اور اس کے ساتھ ہماری عزت بھی۔
مجھے تعزیتیں لکھنا نہیں آتیں شاید اس سے کہ زندوں کی تعزیت اور عزاداری سے فرصت ملے تو کوئی اس دنیا سے اٹھ جانے والوں کو یاد کرے اور آنسو بہائے مگر بعض ایسے لوگ بھی ہم سے رخصت ہو جاتے ہیں کہ جن کے جانے کے بعد ہم اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ وہ اپنے پیچھے محاورتاً اور رسماً نہیں واقعتاً خلا چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک ہولناک خلا جس میں ڈر لگتا ہے تنہائی اور بڑھ جاتی ہے۔
انسان اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کرنے لگتا ہے۔ کسی ایسے آدمی کے چلے جانے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں قحط الرجال کس قدر خوفناک ہوتا جارہا ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے آپ کو نعم البدل سے محروم محسوس کرتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے جیسے ہمیں کچھ اچھے لوگ کوٹے میں ملے تھے اور اب ہمارا کوٹہ ختم ہو گیا ہے۔
کوئی سوسائٹی روپے پیسے کی کمی سے دیوالیہ یا فقیر نہیں ہوتی بلکہ اس سے تو بگڑتی ہے وہ ایسے لوگوں سے محروم ہو کر ادھوری اور فاقہ زدہ ہو جاتی ہے جو اس میں آب حیات بن کر زندہ رہتے ہیں اور اعلیٰ روایات کے خزانے لٹاتے رہے اور یہ آب حیات اور یہ خزانے ان کی آنکھیں بند کرتے ہی خشک اور خالی ہو گئے۔ چوہدری انور عزیز جو اب مرحوم ہو گئے ہیں اپنی ذات میں ایک ایسی ہی شخصیت تھے وہ انجمن بھی تھے اور انجمن ساز بھی۔ زبردست انفرادیت پسند تھے۔
عمر بھر کا تعلق تھا جس کا آغازبطور ایک رپورٹر اور سیاستدان کے ہوا لیکن چوہدری کی شخصیت ایسی تھی کی جس نے اپنے سحر میں جکڑ لیا اور پھر یہ سحر عمر بھر طاری رہا۔ چند برس پہلے شعیب بن عزیز کے ساتھ گھر تشریف لائے گھنٹوں باتیں اور شعرو شاعری ہوتی رہی۔ پرانے دوستوں کا ایک مدت بعد ملاپ مسکراہٹوں کے تبادلے کے ساتھ جاری رہا۔ چوہدری انور عزیز کے چہرے کا تبسم آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے انھوں نے جس نرمی سے میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامے رکھا اور جدائی کے وقت ان کے بوسے کا لمس آج بھی اس آخری ملاقات کی لطیف یاد دلا رہا ہے۔
چوہدری انور عزیز کوئی عام شخصیت تو تھے نہیں کہ ان پر ایک ہی کالم لکھا جا ئے ان کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے کئی کالم درکار ہیں۔ وضع دار سیاست اور سیاسی بزم آرائی کی آخری شمع بھی گل ہو چکی ہے ہم اس کے نیاز مند ان کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو تا زندگی محسوس کرتے رہیں گے۔ ان کے ساتھ ایک پورا عہد ختم ہو گیا ہے معلوم نہیں ہم کیوں باقی ہیں۔
شعلہء عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد