اخبار نویس اور آزاد منش ہونے کے باوجود آج تک کبھی بھنگ اور چرس وغیرہ کو استعمال تو نہیں کیا لیکن بھنگی چرسی دیکھے بہت ہیں اور ایسے لوگوں سے بھنگ کے بارے میں باتیں بھی سنی ہیں جنہوں نے اسے کبھی شوقیہ استعمال کیا ہے۔
اگرچہ ان شوقیہ بھنگ نوشوں کی باتیں دوسروں نے بتائی ہیں کیونکہ بھنگ نوش تو اپنے حال احوال سے بے خبر ہوتا ہے لیکن اتنا پتہ چلا کہ بھنگ کسی قسم کے نقص امن کا باعث نہیں بنتی اور نہ ہی بھنگی دوسروں کو تنگ کرتا ہے بلکہ وہ اگر بھنگ نوشی سے پہلے خوشی کے موڈ میں تھا تو مسلسل ہنسنے لگتا ہے اور اگر افسردہ ہوتا تو پھر رونے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ بھنگ ملنگ لوگوں کا مشروب ہے وہ اسے اپنے کسی تکیہ پر نہایت اہتمام کے ساتھ تیار کرتے ہیں اور نہایت عقیدت اور شوق کے ساتھ اسے نوش جاں کرتے ہیں اس کے بعد دوسرے لوگ ان کا منظر دیکھتے ہیں۔
یہ ایک سستا ترین اور بے ضرر سا نشہ ہے جو زبردست بھوک بھی پیدا کرتا ہے اور چند گھڑیاں سر مستی کی بھی عطا کرتا ہے۔ کسی شاعر نے بھی بھنگ سے لطف اٹھایا تھا لیکن اسے کچھ نہ کچھ ہوش رہا کیونکہ اپنی اس کیفیت پر ایک شعر میں اس نے جس حیرت کا اظہار کیا ہے وہ ضرب المثل بن گیا ہے۔
شاعر جس کی زبان فارسی تھی کسی ملنگ کے ہتھے چڑھ گیا جس نے شاعر کو ایک پیالہ بھنگ پلا دیا اس کے بعد شاعر پر ایسے طبق روشن ہوئے کہ بے ساختہ اس کی زبان سے یہ شعر نکلا۔
بنگے زدیم و غلغلہ بر آسمان زنیم
مارا ازیں گیاہ ضعیف ایں گماں نہ بود
بھنگ چڑھائی اور پھر ایسا غلغلہ بلند کیا کہ آسمان تک کو ہلا دیا۔ مجھے گھاس کے ان کمزور پتوں سے یہ امید ہرگزنہ تھی۔ یہ شعر ہم تک مولانا ابوالکلام آزاد کے ذریعے پہنچا ہے۔ نفیس طبع مولانا اس شعر کا دوسرا مصرعہ ہی نقل کیا کرتے تھے کسی ایسے موقعے پر جب انھیں کسی کمزور اور معمولی آدمی سے کسی بڑے کام کا بیان مقصود ہوتا تھا۔
ہمارے ہاں محکمہ صحت میں اگر کوئی ایسا صاحب ذوق موجود ہے تو وہ اپنے جواب دعویٰ کے ثبوت اور تاثیر میں فارسی کے اس شاعر کا یہ مشہور شعر بیان کر سکتا ہے لیکن ہماری حکومت میں ایسے عالی دماغ ضرور موجود ہیں جو اپنی زبان میں ان کمزور پتوں کی افادیت بیان کر رہے ہیں۔ یہ آج کی ایک سچی اور مکمل غیر جانبدار گواہی ہے۔ شاعر کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا اس گیاہ ضعیف کو اتنی افادیت حاصل ہے جس سے حکومت کو لامتناہی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ شاعر نے جو کچھ کہا وہ اس کی ذاتی واردات تھی جو اس پر وارد ہوئی تھی ایسی صاف ستھری گواہیاں کم ہی ملتی ہیں۔
ہمارے ہاں افراط و تفریط بہت زیادہ ہے اور میانہ روی بہت کم ہے۔ ہم شراب خانوں کی اجازت دے دیتے ہیں اور بھنگ جیسی دیسی چیز سے زرمبادلہ کمانے کے منصوبے بنانے لگ جاتے ہیں۔ کسی ایک نشے پر پابندی لگاتے ہیں تو اس کی جگہ کوئی دوسرا نشہ لے لیتا ہے۔ نشی اپنے سرورو مستی کا کوئی نہ کوئی اہتمام کر لیتے ہیں۔
کبھی ہیروئن ان نشیؤں میں مقبول تھی جو زہر قاتل ہے دوسرا کوئی نشہ اتنا خطرناک اور زہر قاتل نہیں ہے۔ کثرت تو کسی حلا ل شے کی بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن انسان جو فطرتاً کمزور ہے اور آسانی سے شیطان کے نرغے میں آجاتا ہے زندگی کی کسی نہ کسی کیفیت میں نشے کی طلب کر بیٹھتا ہے اور جب بے ضرر قسم کا نشہ دستیاب نہ ہو تو وہ دشمن جاں نقص کی طرف لے جاتا ہے جو دستیاب ہوتا ہے۔ یہ ایک ناپسندیدہ حقیقت ہے لیکن موجود ہے۔ ہمارے سیاسی مفکرین نے ایسے ہی بے ضرر قسم کے نشے کی قومی سطح کی افادیت بیان کی ہے جو ملک کی معیشت کو سہارا دے سکتا ہے۔
اپنے گاؤں میں ڈیرے کے برآمدے میں بیٹھتا ہوں تو سامنے کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر بھنگ کی بے ضرر بوٹی کی بہتات نظر آتی ہے۔ مزارعہ سے جب بھی اس کی صفائی کے لیے کہا تو وہ کہتا ہے کہ یہ بے ضرر قسم کی بوٹی ہے جو ہماری فصلوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی اور ضرورت مند اسے توڑ کر لے جاتے ہیں۔
جب میں نے پڑھا کہ حکومت نے اس بے ضرر بوٹی کو استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا ہے تو فوری طور پر گاؤں فون پر ہدایت کی ہے کہ اس بے ضرر بوٹی پر خاص توجہ دی جائے اور اسے کسی کو توڑنے کی اجازت نہ دی جائے بلکہ اس کے اردگرد صفائی کر کے اس کی نشوونما کے لیے فی الفور اقدامات کیے جائیں۔ وفاقی وزیر اور میرے بھتیجے فواد چوہدری نے پوٹھو ہار کے علاقہ کو بھنگ کی کاشت کا بہترین علاقہ بھی قرار دیا ہے، ہم وادیٔ سون والے پوٹھوہار کے ہمسائے ہیں اوربھنگ کی کاشت کے لیے ہماری زمینیں زرخیز ہیں۔
اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ بھنگ کی کاشت کااجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے درخواست دوں گا۔ حکومت کی جانب سے بھنگ کے بیان کردہ فوائد سے پہلے تو اس عام اور ملوک سی جڑی بوٹی کو لوگ ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گردن توڑ بخار کے لیے بھی یہ مفید ثابت ہوتی ہے۔ حکومتی اعلان کے بعد اب بھنگ قومی موضوع بن گئی ہے اور بھنگی پریشان ہیں کہ وہ بہت جلد سستے نشے سے محروم ہونے والے ہیں۔