یہ الگ بحث ہے کہ عمران خان کس حد تک خوشامدیوں سے بچے ہوئے ہیں اور کتنے گھر چکے ہیں، ان ہنر مند لوگوں کو بالآخر کامیاب توہونا ہی ہے کہ یہی کچھ ہوتا آیا ہے اس لیے اس سے پہلے کہ یہ لوگ مکمل طور پر حاوی ہو جائیں بہتر اور مفید کاموں کی نشاندہی کر دینی چاہیے، آگے ان پر عملدرآمد کرنا نہ کرنا حکمرانوں کا کام ہے۔
قدرے اطمینان کی بات یہ ہے کہ حکومت نے اپنی مقدرو بھر کوشش سے چند اچھے کام پہلے ہی شروع کر رکھے ہیں گو کہ ان کی رفتار انتہائی سست ہے لیکن ان کی افادیت میں شک نہیں ہے، ان میں احتساب سر فہرست ہے۔ یہ کام صرف وہی حکومت کر سکتی ہے جس کو سیاستدانوں اور بااثر لوگوں کی خوشنودی اور خوشامد درکار نہ ہو، اگر ہو بھی تو اتنی زیادہ نہ ہو کہ وہ انتہائی بنیادی نوعیت کے اچھے کام بھی نہ کرسکے، کچھ ایسا ہی حال ہماری حکومت کا بھی ہے جس کے برے کاموں کاڈھنڈورا تو بہت پیٹا جاتا ہے مگر اچھے کاموں کی راہ پر اس کی رفتار بڑی سست ہے جس کی ایک ہی وجہ ہے کہ سیاسی مصلحتیں اور مجبوریاں اتنی زیادہ ہیں کہ حکومت کچھ کرنے کے ارادے کے باجود کچھ کر نہیں کر پا رہی۔
احتساب کاسلسلہ کئی حکومتوں سے جاری ہے۔ ماضی میں انسداد رشوت ستانی، وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے معائنہ کمیشن یہی کام کرتے رہے لیکن ان کی کاردگی انتہائی افسوس ناک رہی، اسی لیے اب ان کا نام سننے میں بھی نہیں آتا۔ میاں نوازشریف نے اپنے ایک گزشتہ دور حکومت میں احتساب کا ایک باقاعدہ محکمہ قائم کر دیا تھا اور سیف الرحمن کو اس کا سربراہ بنا دیا تھا۔ انھوں نے اپنی سربراہی کے دوران کئی کارنامے سر انجام دیے۔
بیرون ملک پاکستانیوں کی دولت کے سراغ لگائے گئے۔ سیاستدانوں اور بڑے بڑے افسروں کی بیرون ملک جائیدادوں کا کھوج لگایا گیا، اس زمانے میں یہ تعجب ہوتا تھا کہ انھوں نے یہ کام کیسے کر لیا لیکن جن لوگوں کو انھوں نے نشانہ بنایا وہ میاں نواز شریف کی اپوزیشن کے لوگ تھے۔
میاں صاحب کے ساتھیوں کی فائلیں بھی تیار کی گئیں اور مجھے ایک بار وہ الماری بھی دکھائی گئی جس میں یہ فائلیں بند تھیں۔ متعلقہ لوگوں کی یہ شدید خواہش تھی کہ انھیں یہ الماری کھولنے کی اجازت دی جائے تا کہ احتساب متوازن اور برابر کا ہو لیکن سیاسی وزیراعظم اپنے ساتھیوں کی ناراضگی مول نہ لے سکے اور یہ فائلیں الماری میں بند ہی رہ گئیں اور اس الماری کی چابی کہیں گم کر دی گئی تھی۔ یہ فائلیں بند الماری کے اندر موجود رہیں، معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ الماری اب کھولی گئی ہے اور فائلوں سے گرد جھاڑ پونچھ کر ان کو از سر نو ترتیب دیا جارہا ہے اور محکمہ وہی ہے جس کا آغاز محترم میاں نواز شریف نے کیا تھا لیکن یہ محکمہ اس وقت حکومت کے کنٹرول میں تھا اور اب بتایا یہ جاتا ہے کہ یہ محکمہ حکومت کے کنٹرول میں نہیں بلکہ آزاد ہے اور آزادی سے اپنا کام کر رہا ہے۔
معاشی مسائل نے عوام کے ہوش گم کر رکھے ہیں ورنہ موجودہ حکومت میں احتساب کا محکمہ جن بڑے اور بہت بڑے بااثر لوگوں اور خاص طور پر حکومت میں شامل لوگوں پر ہاتھ ڈال رہا ہے ماضی میں ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کا تصور بھی مشکل تھا، اس ادارے کے موجود سربراہ ایک ریٹائرڈ جج ہیں وہ بڑے اونچے ارادوں کو لے کر اس ادارے میں شامل ہوئے ہیں اور گزشتہ حکومت نے اس وقت کی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ مشاورت سے انکو اس اہم عہدے کی ذمے داریاں تفویض کی تھیں اور وہی جماعتیں یعنی نواز لیگ اور پیپلز پارٹی چیئر مین نیب پراب جانبداری کا الزام لگاتی ہیں اور اپنے خلاف الزامات کے ثبوت مانگتی ہیں لیکن جن کی کل اور آج کی زندگی سامنے ہو اور دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہو تو اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔
آج کروڑوں میں کھیلنے والا بتائیں کہ یہ دولت کہاں سے آئی لیکن جن کی خواہش ہے کہ ثبوت فراہم کیے جائیں ان کے لیے ثبوت بھی بہت ہیں لیکن جب ثبوت سامنے آتے ہیں تو وہ ڈیل کر لیتے ہیں۔ جس سیاسی اور سماجی مرتبے کے لوگوں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے اور جن مقدس لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا ہے اس سے نادار لوگوں کے دلوں کو بڑا سکون ملا ہے جن کی غربت ان لوگوں کی امارت کی اصل وجہ ہے، وہ اپنے بہت خوش ہوتے ہیں اوران کی قید اور سزاؤں سے بہت خوش ہیں اور اہل دل افسوس کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں نے کس غیر انسانی جذبے سے کرپشن کی ہے اور اپنے جیسے انسانوں کا حق مارا ہے۔
ماضی میں ہمارے مرحوم و مغفور صدرجناب فاروق لغاری اور وزیر اعظم بھائی ملک معراج خالد کی نگران حکومت میں بھی احتساب کا چرچا کیا گیا لیکن وہ نوے دنوں والے حکمران تھے، اس لیے کیا کر سکتے تھے۔ بعد میں میاں نواز شریف نے اس پرعمل کا آغاز کیا، ان کے بعد فوجی حکمران پرویز مشرف نے اس عمل کو مزید آگے بڑھایا لیکن مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آگئی جس نے احتساب تو کیا کرنا تھابلکہ انھوں نے احتساب کے لیے ملزم تیار کیے لیکن میاں نواز شریف تیسری مرتبہ حکمران بن کر بھی سیاسی مصلحتوں کا شکار رہے اور مل جل بلکہ بانٹ کر حکومت چلا تے رہے۔
اب عمران خان کی حکومت میں نیب نے اپنی کاروائیاں تیز کر لی ہیں۔ عمران خان کے ساتھیوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا گیاہے جس میں سے کچھ تو اپنا دامن صاف کرا کے باہر آچکے ہیں اور باقی جن پر الزامات ہیں ان کے لیے نظریہ ضرورت کام کر رہا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس نئے پاکستان کے خواب دکھائے گئے تھے اس نئے پاکستان میں احتساب کی مضبوط روایت ڈالنے کے لیے اتنا کچھ تو لازماً کیا جانا چاہیے کہ بعد میں آنے والے اس کی تقلید پر مجبور ہوں۔
ہر آنے والا حکمران جانے والوں کا حتساب کرتا ہے، آج اگر ماضی کے حکمرانوں کا احتساب ہو رہا ہے تو کل اسی طرح موجودہ حکمران احتساب کے کٹہرے میں کھڑے نظر آئیں گے اور اسی طرح اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو بدعنوان لوگوں کو کان ہو جائیں گے کہ ہاتھ روک لو احتساب بھی ہوا کرتا ہے۔ نامو ر لوگوں کی پکڑ دھکڑ اور جیل جانا معمولی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ہے کہ حکومت کے اپنے ہی ساتھی احتساب کے شکنجے میں آجائیں، یہ انہونی موجودہ حکومت میں ہو رہی ہے۔ پاکستان میں کم از کم ایسا اس پیمانے پر پہلے کبھی نہیں ہوا۔