حکومت کی آئینی مدت کے دوسال مکمل ہو چکے ہیں اور دوسال ہی باقی رہ گئے ہیں۔ دوسال اس لیے کہ حکومت کا پانچواں سال الیکشن کا ہوتا ہے اور اپنے گزشتہ چار برس میں اس نے کوئی کمائی کی ہوتو اس کو کیش کرانے کی کوشش کرتی ہے، الیکشن کی تیاری کے لیے عوام کو بتایاجاتا ہے کہ حکومت نے گزشتہ چار سال میں ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کے لیے کیا اقدامات کیے۔
کسی حکومت پر وہ وقت بڑا ہی نازک ہوتا ہے جب دانشور یہ اندازے لگانے لگ جائیں کہ اس کی کتنی عمر باقی رہ گئی ہے یعنی اسے جانا تو ہے ہی سوال صرف یہ ہے کہ کب جانا ہے اور کیسے جانا ہے۔ لیکن جمہوری حکومتیں اگر اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد ہی الیکشن میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کو فیصلہ کرنے دیں تو ملک میں جمہوریت کے تسلسل کے لیے یہ طریقہ آزمودہ کار تصور کیا جاتا ہے کیونکہ الیکشن میں فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ کس کو اپنا حکمران دیکھنا چاہتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاستدان چور دروازوں سے اقتدار حاصل کرنے کے لیے سازشیں کرتے رہے ہیں جو کامیاب بھی ہو جاتی تھیں۔ مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں کہ ان سے گزشتہ مارچ میں حکومت ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ اس قسم کا وعدہ کس سے کیا گیا۔ یہ سوال کوئی نہیں پوچھ رہا اور مولانایہ گلہ کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ وعدہ کر کے اسے نبھایا نہیں گیا۔ یعنی ان کو اس قدر یقین تھا کہ حکومت ختم ہو جائے۔
ہمارے سیاسی دانشور اب صرف ٹیلی ویژن کی اسکرینوں تک محدود ہو گئے ہیں، ان نام نہاد دانشوروں نے جانبداری میں اپنی ساکھ ختم کر لی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام ان کی بات پر کان نہیں دھرتے یعنی عوام کا ان کی رائے پر اعتماد متزلزل ہو گیا ہے۔
جو بھی اقتدار میں آیا، اسے ایک نہ ایک دن جانا توہوتاہی ہے لیکن اگر اپوزیشن کوعمران خان کو گھر بھیجنے کی عجلت ہے تو یہ کام جلد بازی کا نہیں ہے، اس کے لیے پہلی اور بنیادی شرط اپوزیشن کا باہمی اتحاد و اتفاق ہے جو ابھی تک ناپید نظر آتا ہے۔ اسمبلی کے اندر اور باہر اپوزشن جماعتیں واضح طور پرمنقسم نظر آتی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس کرنے کی بھی رودار نہیں ہیں تو ان حالات میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت گرانے کی باتیں دیوانے کا خواب کہی جا سکتی ہیں۔
کچھ عرصے سے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کی بات ہو رہی ہے لیکن ابھی تک یہ معاملہ بھی حل نہیں کیا جا سکا کیونکہ اپوزیشن رہنمائوں کے درمیان اعتماد کی فضا نہیں بن سکی اور نہ ہی ملک میں کوئی ایسی سیاسی شخصیت موجود ہے جس پر سب متفق ہوں کیونکہ یہ سب ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے پہچانتے ہی اور ان سب کو معلوم ہے کہ کس کے کہاں رابطے ہیں اورکیا مفادات ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ جماعتوں کے اندر بھی حکومت مخالف تحریک پر اختلاف پایا جاتا ہے اور اہم رہنماء اپنا اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
ایسے ہی موقعوں پر نوابزادہ نصر اللہ خان کی بڑی شدت کے ساتھ یاد آتی ہے جو بیٹھے بٹھائے حکومت کے خلاف اپوزیشن کا اتحاد قائم کر دیتے ہیں اور تمام جماعتیں ان کی سربراہی پر متفق ہوجاتی تھیں لیکن اب نواب صاحب جیسے لوگ ہم میں نہیں رہے جو بغیر کسی لالچ اور مفاد کے اپوزیشن کی خدمت کرتے تھے، انھوں نے اپنی سیاسی ساکھ نبھانے کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دیا۔ سیاست ان کی موروثی زمینیں اور آم کے باغات کھا گئی لیکن نواب صاحب کا حقہ آخری دم تک گڑگڑاتا رہا۔
حکومتی محاذ پر سب مزے میں ہیں کیونکہ انھیں اپوزیشن کی کمزوریوں اور نفاق کا بھی علم ہے اوراس صورتحال میں اپوزیشن کی کار کردگی ان کے لیے باعث اطمینان ہے۔ سیاسی اپوزیشن اس وقت قطعی طور پر متحد نہیں ہے نہ معلوم کیوں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ فضل الرحمن اے پی سی کے انعقاد کے لیے سر توڑ کوشش کے باجود ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے، ان کے راستے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور موجود ہے جس کی وجہ سے سیاسی پارٹیاں ان کی میز پر بیٹھنے سے ہچکچا رہی ہیں۔
اس کی ایک وجہ غالباً یہ ہو سکتی ہے کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی حکومت مخالف تحریک کی تیاری کے لیے کسی اور موقع دینے کو تیار نہیں ہیں اور اپنے زور بازو سے یہ کام کرنا چاہتی ہیں حالانکہ حکومت کے ساتھ ان کی مفاہمت کی تمام راہیں مسددو ہو چکی ہیں۔ حکمران اپنی اپوزیشن میاں نواز شریف کو سمجھتے ہیں لیکن میاں صاحب اپنی وطن واپسی تک کوئی حتمی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور ان کی پارٹی کے جو رہنماملک میں موجود ہیں اول تو ان میں اتفاق نہیں ہے اور اگر وہ احتجاج قسم کی کوئی چیز کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو نیب ان کوراستے میں کھڑی نظر آتی ہے۔
پیپلز پارٹی فی الحال قومی محاذ پر کسی اپوزیشن کے لیے نہ تو تیار ہے اور نہ اس کی کوئی پوزیشن ہے کہ بلکہ پیپلز پارٹی کے کارکن بھی گھروں سے باہر نکلنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ مولانا فضل الرحمن اپنی شدید خواہش کے باوجود ابھی تک کوئی واضح حکمت عملی اور فیصلہ نہیں کر سکے جب کہ محترم سراج الحق نے حکومت مخالف بیان بازی سے نکلتے ہوئے حکومت کے خلاف عملی جد وجہد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اپوزیشن کسی حکومت مخالف تحریک کے لیے ابھی تیار نہیں ہے اور نہ ہی ایڑی چوٹی کا زور لگانے کی پوزیشن میں ہے، حکومت مخالفت کے لیے اس کو اپنی صفوں سے باہر کیسی غیبی امداد کی ضرورت ہے۔ ایسی اپوزیشن کے ہوتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ حکمران چین کی نیند سوئیں ان کے اقتدار کے ابھی تین سال باقی ہیں اور وہ آسانی کے ساتھ اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوں گے لیکن میڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کریں جس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔