اپوزیشن لاؤ لشکر کے ساتھ میدان میں نکل آئی ہے۔ پنجاب کی حد تک نواز لیگ کی سر پرستی میں حکومت کے خلاف احتجاج کا آغاز ہو گیا ہے۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کو قطعاً تیار نہیں ہیں اور اپوزیشن کو کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی بلکہ احتساب کا عمل جاری رکھا جائے گا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت اپوزیشن احتجاج کا واحد مقصد قومی سیاست کے سرکردہ لیڈروں کی احتساب سے گلو خاصی کرانا ہے۔
اسی ایجنڈے کو پس منظر میں رکھتے ہوئے اپوزیشن اپنے احتجاجی پروگرام کا آغاز کر چکی ہے لیکن عوام کے لیے اپوزیشن کے پیش منظر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا عفریت ہے اور وہ عوام کو مہنگائی کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے نکلی ہے۔
کسی بھی حکومت کے خلاف احتجاج کا آسان ترین نسخہ یہی ہے کہ عوام کو مہنگائی کا مژدہ سنا کر اپنے راستے ہموار کیے جائیں۔ کون نہیں جانتا اور کسے یاد نہیں کہ ضروریات زندگی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کوئی آج کی بات نہیں بلکہ یہ اضافہ مسلسل ہو رہا ہے اور آیندہ بھی ہوتا رہے گا تا کہ ماضی کی طرح اپوزیشن کا دال دلیہ چلتا رہے جیسا کہ آج بھی چل رہا ہے اور آیندہ بھی چلتا رہے گا۔
بہر کیف سوائے بد امنی، اور گرانی کے اس حکومت کی کوئی اپوزیشن نہیں ہے۔ اب یہ حکومت کی ہمت اور حکمت عملی ہے کہ وہ اپنی بد انتظامی کی وجہ سے اپوزیشن پیدا نہ ہونے دے لیکن حکومت نے ابھی تک اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی اور اس کی توجہ صرف اور صرف احتساب کے عمل پر مرکوز ہے اور اس عمل کا ابھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اپوزیشن کے متعدد رہنماء جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں لیکن حکومت کے دعوؤں کے برعکس ابھی تک قوم کی لوٹی گئی دولت کی وصولی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
حکومتی بد انتظامی کا یہ عالم ہے کہ صوبہ پنجاب میں دو سالہ اقتدار کے دوران پولیس کے سربراہ مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں جس کی وجہ سے صوبہ میں پولیس مشینری کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ ایک مسلمان خاتون کی عصمت سر راہ لوٹ لی جاتی ہے یعنی اسے زندہ درگور کر دیا جاتا ہے اور جب اس کے قاتل، گرفتار ہو جاتے ہیں تو گرفتار کرنے والے کے لیے پچاس لاکھ روپوں کے انعام کا اعلان وزیر اعلیٰ بنفس نفیس کرتے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب کا جنھوں نے وزیر اعلیٰ کی اس فیاضی کا نوٹس لیا ہے۔
اس ملک میں ہر روز اس طرح کے کئی کیس رجسٹر ہوتے ہیں اور ان کیسوں کا کوئی شمار نہیں جو عزت دار لوگ اپنی عزت بچانے کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں۔ پولیس کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے ملزموں کو پکڑ کر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ شاباش ان کا حق ہے لیکن کسی ایک کیس میں لاکھوں کا انعام ان کا حق نہیں کہ اس کام کی انھیں تنخواہ ملتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ کیس میڈیا کی زینت بن گیا اس لیے وزیر اعلیٰ نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ماتحت پولیس کو انعام کے ذریعے خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہمارے حکمران نہ تو حالات سے بے خبر ہیں اور نہ ہی ان کو اکسانے کی ضرورت ہے ان کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے اور وہ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کو پروٹوکول اور سیکیورٹی کے جھرمٹوں سے باہر نکل کر عوام میں آنا ہو گا جیسا کہ تحریک انصاف کا الیکشن سے پہلے عوام سے وعدہ تھا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنے تمام وعدوں کو بھول گئے اور روائتی حکمرانی شروع کر دی۔
اپوزیشن کے جلسوں کو روکنے کے لیے راستے بند کیے جا رہے ہیں، کارکنوں کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں یعنی وہ سب حربے استعمال کیے جا رہے ہیں جو ماضی کی حکومتیں اپوزیشن کو دبانے کے لیے استعمال کرتی آئی ہیں۔ اپوزیشن کے خلاف حکومتی اقدامات اپوزیشن کے جلسوں کو مزید جلا بخشیں گے یعنی جو کام اپوزیشن نے مشکل سے کرنا تھا وہ حکومت اپنے اقدامات سے کرکے اپوزیشن کے لیے آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔
حکومت مخالف جلسوں تک بات پہنچ چکی ہے دیکھتے ہیں کہ اس سے آگے کیا ہوتا ہے۔ عرض یہ کرنی ہے کہ اپوزیشن تو شکوہ کناں اور انصاف کے طلب گار عوام ہیں، مہنگائی ہے، عصمت دری کا شکار عورتیں ہیں، بھوک سے مرنے والے مسکین اور یتیم اور پاکستانی ہیں۔ یہ حکمرانوں کی اصل اپوزیشن ہے اور خود ان کی پیدا کردہ ہے۔