اب سورج ڈوب چکا تھا۔ امام مالک ؒنے نماز پڑھی پھر میری طرف اشارہ کیا اور خادم سے کہا اپنے آقا کا ہاتھ تھام اور مجھ سے فرمایا کہ اٹھو اور خادم کے ساتھ میرے گھر جائو۔ میں اٹھ کھڑا ہوا جب گھر پہنچا تو خادم ایک کوٹھڑی میں لے گیا اور کہنے لگا گھر میں قبلہ اس طرف ہے اور پانی کا لوٹا یہ ہے اور بیت الخلاء ادھر ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد امام بھی آ گئے۔
خادم کے ہاتھ میں ایک خوان تھا۔ امام مالکؒ نے خوان لے کر فرش پر رکھا۔ پھر مجھے سلام کیا اور خادم سے کہا ہاتھ دھلائو۔ خادم برتن لے کر میری طرف بڑھا مگر امام نے ٹوک دیا۔ جانتا نہیں کھانے سے پہلے میزبان کو ہاتھ دھونے چاہئیں اور کھانے کے بعد مہمان کو۔ میں نے اس کی حکمت پوچھی تو فرمایا کہ میزبان کھانے پر مہمان کو بلاتا ہے اس لیے اسے خود کھانے کے لیے تیار ہونا چاہیے اور کھانے کے بعد آخر میں اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ اس دوران کوئی مہمان آ جائے اور اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہونا پڑے اس لیے میزبان کو ہاتھ پہلے نہیں دھونے چاہئیں۔
کھانے سے فارغ ہوئے تو امام نے مکہ والوں کے حالات دریافت کیے۔ جب رات زیادہ ہوگئی تو فرمایا اب تم آرام کرو۔ پچھلے پہر کوٹھڑی پر دستک ہوئی۔ خدا کی تم پر رحمت ہو نماز! میں اٹھ بیٹھا کیا دیکھتا ہوں کہ امام خود ہاتھ میں لوٹا لیے کھڑے ہیں۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوئی۔ تو وہ کہنے لگے۔ کچھ خیال نہ کرو مہمان کی خدمت تو فرض ہے۔ امام کے ساتھ نماز فجر مسجد نبویﷺ میں ادا کی۔ اندھیرا بہت تھا۔ جب دھوپ نمودار ہوئی تو امام مالک ؒ جس جگہ کل بیٹھے تھے آج بھی اسی جگہ جا بیٹھے اور اپنی کتاب موطا میرے ہاتھ میں دے دی۔ میں نے کتاب سنانی شروع کر دی اور لوگ لکھنے لگے۔
میں امام مالک ؒ کے ہاں آٹھ مہینے رہا۔ پوری موطا مجھے حفظ ہو گئی۔ مجھ میں اور امام مالک میں اس قدر محبت اور بے تکلفی پیدا ہو گئی کہ ناواقف ہمیں دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ مہمان کون ہے اور میزبان کون۔
صبح کے بعد مدینہ کی زیارت کے لیے اور موطا امام مالک سننے کے لیے لوگ مصر سے آئے۔ میں نے مصریوں کو موطا زبانی سنا دی۔ اس کے بعد اہل عراق آئے۔ مجھے ایک صاف ستھرا مہذب نوجوان دکھائی دیا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا وہ کوفہ کا باشندہ ہے۔ میں نے وہاں کے علماء کے بارے میں پوچھا تو اس نوجوان نے بتایا کہ ابو یوسف اور محمد بن حسن جو امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد ہیں۔ یہ سن کر میرے دل میں عراق جانے کا شوق پیدا ہوا۔ میں امام مالک ؒ کے پاس گیا کہ ان کا عندیہ معلوم کروں۔ انھوں نے حصول علم کے لیے میری حوصلہ افزائی کی اور میرے زاد سفر کا انتظام کر کے مجھے رخصت کرنے کے لیے صبح صبح بقیع تک آئے اور اونچی آواز میں پکارنے لگے۔
کوفہ کے لیے کون اپنا اونٹ کرائے پر دے گا۔ میں نے سن کر عرض کیا آپ یہ کیا کر رہے ہیں نہ میرے پاس کوئی رقم ہے اور نہ خود آپ کی حالت اس قابل ہے۔ پھر کرائے کا اونٹ کیا؟ امام مسکرائے اور فرمانے لگے کل نماز عشاء کے بعد دروازے پر دستک ہوئی باہر نکلا تو عبدالرحمٰن بن قاسم ( امام کے ایک معروف شاگرد) کھڑے تھے۔ ہدیہ لائے تھے۔ منت کر نے لگے کہ قبول کر لوں اور ہاتھ میں ایک تھیلی تھما دی۔ تھیلی سے سو دینار نکلے۔ پچاس میں نے اپنے اہل و عیال کے لیے رکھ لیے اور پچاس تمہارے لیے۔ پھر امام نے چار دینار میں اونٹ طے کر لیا اور باقی رقم میر ے حوالے کر کے مجھے خدا حافظ کہا۔
حاجیوں کے اس قافلے کے ساتھ ہم بیسویں دن کوفہ پہنچے۔ وہاں کی مسجد میں عصر کے وقت محمد بن حسن اور ابو یوسف سے ملاقت ہوئی۔ میری باتوں سے ان دونوں کو گمان ہوا کہ میں کوئی صاحب علم ہوں چنانچہ مجھ سے پوچھا کہ امام مالک کو تم نے دیکھا ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں، امام مالک کے پاس سے آرہا ہوں۔ (امام حسن ابوحنیفہؒ کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں اور امام یوسف خلافت عباسیہ کے چیف جسٹس رہے ہیں اور مشہور عالم کتاب "کتاب الاموال" کے مصنف ہیں جو دنیا میں معاشیات پر پہلی کتاب تصور کی جاتی ہے)۔ یہ سن کر پوچھا کہ تم نے موطا بھی دیکھی ہے، میں نے کہا پوری حفظ بھی کر چکا ہوں۔ محمد بن حسن اس پر متعجب ہوئے، اسی وقت لکھنے کا سامان منگوایا اور ابواب فقہ کا ایک مسئلہ لکھا۔
ہر دو مسئلوں کے درمیان کافی جگہ خالی چھوڑ دی اور کاغذ میری طرف بڑھا دیا اور کہا، ان دو سوالوں کا جواب موطا سے لکھ دو۔ میں نے جوابات لکھ دیے۔ اس کے بعد امام محمد نے مجھے خادم کے ہمراہ اپنے گھر بھجوا دیا۔ خادم نے کہا آقا کا حکم ہے کہ آپ سواری پر ان کے گھر جائیں۔ ایک سجا سجایا خچر پیش کیا گیا۔ (علماء گھوڑے کی جگہ عموماً خچر کی سواری کیا کرتے تھے) جب میں سوار ہوا تو مجھے اپنے پرانے بوسیدہ کپڑے کھٹکنے لگے اور اپنی حالت پر افسوس ہوا۔ کچھ دیر بعد امام محمد بھی گھر آگئے۔ انھوں نے ایک ہزار دینار کا قیمتی جوڑا مجھے پہنایا اور اپنے کتب خانے سے امام ابو حنیفہؒ کی کتاب "الاوسط" نکال کر دی۔
میں نے کتاب الٹ پلٹ کر دیکھی اور اور رات کو اسے حفظ کرنا شروع کر دیا۔ صبح تک مجھے پوری کتاب حفظ ہو گئی۔ کچھ دن بعد میں نے امام محمد سے سفر کی اجازت چاہی۔ فرمایا میں اپنے کسی مہمان کو جانے کی اجاز ت نہیں دیتا۔ میرے پاس جو مال و دولت موجود ہے اس میں سے آدھا تم لے لو۔ انھوں نے ساری نقدی منگوائی، تین ہزار درہم نکلے۔ آدھے میرے حوالے کیے اور میں بلاد فارس اور عراق کی سیاحت کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ (جاری)