اب میری عمر اکیس برس ہو گئی تھی۔ یہ امیر المومنین ہارون الرشید کا زمانہ تھا۔ جب بغداد آیا تو دروازے پر قدم رکھا ہی تھا کہ ایک شخص نے روکا اوربڑی نرمی سے نام پوچھا، میں نے کہا محمد بن ادریس شافعی۔ اس نے جیب سے ایک نوٹ بک نکالی اور میرا بیان قلمبند کر کے مجھے جانے دیا۔ میں ایک مسجد میں جا کر قیام پذیر ہوا۔ آدھی رات کے بعد پولیس نے مسجد پر چھاپہ مارا اور ہر شخص کو روشنی میں دیکھنا شروع کر دیا۔ آخر میں میری باری آئی۔ پولیس نے پکار کر کہا ڈرنے کی بات نہیں، جس کی تلاش تھی وہ مل گیا۔ پھر مجھے شاہی محل پہنچا دیا گیا۔
جب امیر المومنین پر میری نظر پڑی تو میں نے صاف مضبوط آواز میں انھیں سلام کیا۔ امیر کو میرا انداز پسند آیا۔ سلام کا جواب دیااور پوچھا تم کہتے ہو کہ ہاشمی ہو، پھر نسب نامہ دریافت کیا۔ میں نے بتا دیا بلکہ آدم علیہ السلام تک پہنچا دیا۔ اس پر امیر المومنین کہنے لگے، بے شک یہ فصاحت و بلا غت اولاد مطلب ہی کا حصہ ہے۔ پھرکہا، تم کتاب و سنت کے مطابق اپنا اور میرا حکم چلانے کے لیے مسلمانوں کے قاضی بن جاؤ، کیا تم یہ پسند کرو گے؟ میں نے جواب دیا، سلطنت میں شرکت تو مجھے ایک دن کے لیے بھی منظور نہیں۔ یہ سن کر امیر المومنین رو پڑے۔
اب مجھے تین برس اورہو چکے تھے۔ اسی اثناء میں حاجی حجاز سے لوٹے تو مجھے ایک نوجوان ملا۔ میں اس سے امام مالک ؒ اور حجاز کے بارے میں پوچھنے لگا۔ اس نے بتایا کہ امام مالک بہت دولت مند ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر مجھے شوق ہوا کہ امام صاحب کی غربت کو میں دیکھ چکا ہوں، اب دولت مندی کو بھی دیکھنا چاہیے۔ چنانچہ میں نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔
ایک دولت مند آدمی نے مجھے با اصرار چالیس ہزار دینار کی نقدی پیش کی۔ میں نے اسے خداحافظ کہا اور سفر پر روانہ ہو گیا۔ راستے میں اصحاب حدیث ملے۔ ان میں امام احمد بن حنبل، سفیان بن عینیہ اور اوزاعی وغیرہ شامل تھے (یہ تینوں فقہ میں بلند ترین مقام کے مالک علماء ہیں اور امام احمد تو فقہ حنبلی کے امام ہیں ) میں نے ان تمام اصحاب کو اپنے پاس سے اتنا کچھ دیا جتنا ان کا مقدر تھا۔ اگلے پڑاؤ تک میرے پاس صرف دس دینار رہ گئے تھے۔ میں نے کرائے پر سواری لی اور اور ستائیسویں دن مدینہ منورہ پہنچا۔
مسجد نبویﷺ میں نماز پڑھی۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ لوہے کی ایک کرسی مسجد میں رکھی ہے۔ کرسی پر قباطی مصر کا تکیہ رکھا ہوا ہے اور کرسی کے اوپر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے۔ میں ابھی حیرت کے ساتھ دیکھ ہی رہا تھا کہ امام مالک آئے اور پوری مسجد عطر کی خوشبو سے مہک اٹھی۔ ان کے جلو میں چار سو یا اس سے زائد کا مجمع تھا۔ مجلس میں پہنچے تو سب لوگ احتراماً کھڑے ہو گئے۔ امام صاحب کرسی پر بیٹھ گئے۔ آپ نے اپنے شاگردوں کے سامنے عمداً زخم لگانے کا مسئلہ پیش کیا۔ میں نے اپنے بغل میں بیٹھے ہوئے ایک جاہل آدمی کو اس کا جواب لکھا دیا۔
اس نے بلند آواز میں جواب بتا دیا۔ دوسرے شاگردوں کے جواب غلط تھے۔ دوتین بار ایساہی ہوا تو امام صاحب اس جاہل کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا یہاں آؤ، وہ جگہ تمہاری نہیں ہے۔ اس شخص نے صاف بتا دیا کہ میری بغل میں ایک نوجوان بیٹھا ہے جو مجھے یہ جواب لکھا رہا ہے۔ اب تو امام صاحب نے میری طرف گردن گھمائی اور قریب بلایا۔ غور سے دیکھ کر پوچھا شافعی ہو۔ میں نے عرض کیا جی ہاں ! آپ نے مجھے گھسیٹ کر سینے سے لگا لیا۔ پھر کرسی سے اتر پڑے اور مجھ سے کہا علم کا جو باب ہم شروع کر چکے ہیں، تم اس کو پورا کرو۔ میں نے تعمیل کی لیکن میرے چار سوالوں کا کوئی بھی جواب نہ دے سکا۔
امام صاحب نے میری پیٹھ تھپکی۔ میری تعریف کی اور نماز کے بعد مجھے اپنے گھر لے گئے۔ پرانی عمارت کی جگہ اب نئی عمارت کھڑی تھی۔ میں یہ دیکھ کر بے اختیار رونے لگا۔ یہ دیکھ کر امام نے کہا، تم روتے کیوں ہو، شاید یہ سمجھ رہے ہو کہ میں نے دنیا کے لیے آخرت تج کر دی ہے۔
عرض کیا یہی اندیشہ میرے دل میں پیدا ہوا تھا۔ کہنے لگے تمہارا دل مطمئن رہے، تمہاری آنکھیں ٹھنڈی رہیں جو کچھ دیکھ رہے ہو، یہ سب ہدیہ اور تحفہ ہے۔ خراسان سے، مصر سے، دنیا کے دور دراز گوشوں سے ہدیئے چلے آرہے ہیں۔ نبیﷺ ہدیہ قبول فرما لیا کرتے تھے اور صدقہ رد فرما دیتے تھے۔ میرے پاس اس وقت خراسان اور مصر کے اعلیٰ ترین کپڑوں کے تین سو خلعت موجود ہیں۔ اب یہ سب تمہارے لیے ہدیہ ہیں۔ صندوقوں میں پانچ ہزار دینار ہیں۔ ان کی زکوۃ نکلی ہوئی ہے، اس کی آدھی رقم تمہاری ہے۔
صبح نماز فجر ادا کر کے نکلے تو ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ دروازے پر خراسانی گھوڑے اور مصری خچر کھڑے تھے۔ میرے منہ سے نکل گیا ایسے خوبصورت گھوڑے تو میں نے آج تک نہیں دیکھے۔ اما م صاحب نے فرمایا کہ یہ تمام سواریاں تمہارے لیے ہدیہ ہیں۔ میں نے عرض کیا کم از کم ایک جانور تو اپنے لیے رکھ لیجیے۔ امام نے جواب دیا مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ اس زمین کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندوں جس کے نیچے رسول پاکﷺ آرام فرما رہے ہیں۔
تین دن بعد میں مکہ روانہ ہو گیامگر اس حال میں کہ خدا کی بخشی ہوئی خیرو برکت اور مال و متاع میرے آگے آگے جارہے تھے۔ حدود حرم کے قریب والدہ مکرمہ چند عورتوں کے ساتھ ملیں۔ انھوں نے مجھے گلے سے لگایا۔ میں نے آگے بڑھنا چاہا تو والدہ کہنے لگیں کہاں جا رہے ہو۔
میں عرض کیا گھر چلیں۔ فرمانے لگیں افسوس! کل تو مکہ سے فقیر کی صورت میں گیا تھا اور آج امیر بن کر لوٹا ہے تا کہ اپنے چچیرے بھائی بندوں پر گھمنڈ کرے۔ میں نے عرض کیا پھر کیا کروں، کہنے لگیں منادی کرادو، بھوکے آئیں اور کھائیں، پیدل آئیں اور سواری لے جائیں، ننگے آئیں اور کپڑے پہن لیں۔ اس دنیا میں تیری آبرو بڑھے گی اور آخرت میں اجر بھی محفوظ رہے گا۔ میں نے والدہ کے حکم کی تعمیل کی۔ یہ خبر امام مالکؒ نے بھی سنی اور کہلابھیجا جتنا دے چکا ہوں، اتنا ہر سال بھیجتا رہوں گا۔ چنانچہ گیارہ سال تک انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔