حج مسلمانوں کی ایک عالمی تقریب ہے جو اس بات کا موقع فراہم کرتی ہے کہ مسلمانوں کے عالمی مسائل اور امور پر غور کرنے کے لیے عالم اسلام کے رہنماؤں کا اجتماع بھی ہونا چاہیے لیکن ہم مسلمانوں نے اس کی عالمی اسلامی برکات سے محرومی اختیار کر رکھی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر سال حج کے موقع پر دنیا بھر کے مسلمان حکمرانوں کو لازماً جمع ہونا چاہیے اور اسے ایک طرح سے مسلمانوں کی اقوام متحدہ کا درجہ دینا چاہیے لیکن ہم نے اس مقدس مقام پر مقدس فریضہ کی ادائیگی کو صرف ایک مقدس عبادت کے لیے ہی مخصوص کر دیا ہے حالانکہ مسلمانوں کا حج ایک ایسی تقریب ہوتی تھی جس میں دنیا بھر کے مسلمان سربراہ جمع ہوتے تھے، وہ مل بیٹھتے تھے او اپنے اپنے مسائل کے متعلق ایک دوسرے کو آگاہ بھی کرتے تھے اور ان کے حل کے متعلق رہنمائی بھی حاصل کرتے تھے۔ حج کے موقع پر ہی ایک عام آدمی اپنے حاکم کی جانب سے رعایا کے خلاف روا رکھے جانے والے ظلم کے متعلق امیر المومنین کو شکایات بھی درج کراتے تھے جن کا موقع پر ہی فیصلہ ہوجاتا تھا۔
حضرت عمر ؓ کے زمانے میں حج کے موقع پر ایک آدمی نے اپنے حاکم کے خلاف شکایت کی کہ اس حاکم کے بیٹے نے مجھے زدوکوب کیا ہے لیکن میں اس بڑے آدمی کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکا اور اب امیر المومنین کی خدمت میں شکایت درج کرا رہا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے اس شکایت پر فوری طور پر متعلقہ حاکم کو اس کے بیٹے سمیت طلب کر لیا اور شکایت کنندہ کو ان کے سامنے کھڑا کردیا۔ حاکم نے اپنے بیٹے کی غلطی کا اعتراف کیا۔
خلیفہ وقت نے شکایت کرنے والے کو کہا کہ تم اس بڑے آدمی کے بیٹے کو اسی طرح مارو جیسے اس نے تمہیں مارا تھا۔ یعنی حج کا ایک ایسا موقع ہے جس میں دنیا بھر سے مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ اور ہمارے پیارے نبیﷺ کے فرمان کے مطابق کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت نہیں۔ سب برابر ہیں اوردو سفید چادروں کے لباس میں اپنے رب کے سامنے سر بسجود ہوتے ہیں۔ ہمارے مسلمان حکمرانوں نے اپنے مسائل اور امور کو اسلام دشمنوں کے سپرد کر رکھا ہے اور ہمارے اندر وہ تمام خرابیاں موجود ہیں جن کی وجہ سے مسلمان زوال کا شکار ہیں۔
سعودی عرب میں امام کعبہ شیخ عبداللہ بن سلیمان نے خطبہ حج کے دوران مسلم امہ کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا اس وقت کورونا وباء کی لپیٹ میں ہے اور یہ آزمائش دنیا بھر کے لیے ہے ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہمیں اس آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کا علاج نہ ہو۔ مشکلات ہمیشہ رہنے والی نہیں ہیں، مسلمانوں کو خرافات سے دور رہنے کا کہا گیا ہے۔
کورونا کی آزمائش بہت بڑی آزمائش ہے لیکن اﷲ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے بھی کھلے ہیں۔ انھوں نے میدان عرفات میں مسجد نمرہ میں حج کا خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ طاعون زدہ علاقے میں تم داخل نہ ہو اور جو اس علاقے میں موجود ہیں وہ وہاں سے باہر نہ نکلیں۔ بے شک اﷲ ہی زمین و آسمان کا مالک ہے اگر اہل ایمان کے دو گروہوں میں لڑائی یا اختلاف ہو جائے تو اس میں ثالث بن کر اسے ختم کریں۔ اسلام کسی بھی فتنے کو پھیلانے سے روکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے اور مصائب کے ذریعے بندوں کو آزمایا جاتاہے۔ اﷲ کی رحمت وسیع ہے اور ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔
خطبہ حج کے الفاظ پر اگر غور کیا جائے تو ہمیں قرآن میں جس چیز کا بار بار حکم دیا گیا ہے کہ اﷲ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور وہی مشکلات بھی دیتا ہے اور ان کا حل بھی اسی کے پاس ہے لیکن ہم نے اللہ کی رسی کو چھوڑ کر اغیار کی رسی کو تھام رکھا ہے۔ ہم نے اپنی مشکلات کا حل کفار کے سپرد کر دیا ہے اور اپنے آپ کوان کے مرہون منت کر دیا ہے اور حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ بعض مسلمان ملکوں کے فیصلے بھی ان کے دشمن کر رہے ہیں۔ ہم نے ہر وقت رحمتوں کے کھلے دروں کو اپنے لیے بند کر لیا ہے اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کی رحمت کے بجائے اپنے آپ کو دنیاوی خداؤں کے سپرد کر رکھا ہے۔
ہم یعنی مسلمان یقینی طور پر امریکا کی غلامی میں ہیں جس نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ مسلمانوں کی زندگی کا تو مخالف نہیں لیکن ان کی خود مختاری اور گستاخی کو قبول نہیں کرتا۔ اسی غلامی کو وسیع کرتے ہوئے اس نے پاکستان کے ہمسائے بھارت کو پاکستان پر مسلط کر رکھا ہے اور اب تو کشمیر میں اس نے باقاعدہ طور پر بھارت کو کھلی چھوٹ دے دی ہے کہ وہ کشمیری مسلمانوں پر اپنی مرضی و منشا سے ظلم روا رکھے جب کہ دوسری طرف امریکی صدر ہمارے وزیر اعظم کو مذاکرات اور ثالثی کا لولی پاپ بھی دیتے رہتے ہیں لیکن کشمیر میں بھارت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے نئے ظالمانہ قوانین کو ایک برس گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک دنیا کی واحد سپر پاور کی جانب سے پاکستان اور کشمیری مسلمانوں کی حمائت میں کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آسکی البتہ آئے روز بھارت کی متشددانہ کاروائیوں میں اضافے کی خبریں ہی آرہی ہیں۔
عالم اسلام کے کسی رہنما نے بھی کشمیریوں کی مدد کے لیے عملاً بلکہ زبانی کلامی بھی کلمہ خیر نہیں کہا کجا کہ بھارتی اقدامات کی مذمت کی جاتی۔ بھارت کی جانب سے روا رکھے جانے والے مظالم کے باوجود کشمیری ڈٹے ہوئے ہیں اور ہم پاکستانی زبانی کلامی ان کی سفارت کر رہے ہیں اور آج پانچ اگست کو ہم نے یوم استحصال منانے کا اعلان کیا ہے۔ اس پر پھر بات ہو گی کہ کشمیریوں کا استحصال کب سے ہو رہا ہے۔
کشمیر کے بہادر مسلمان بھارت کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ وقت شاید اب قریب ہے کہ جب ان کشمیری مسلمانوں کو بھارت ظلم و ستم سے نجات مل جائے گی لیکن اس کے لیے مسلمان ملکوں کے سربراہوں کو کسی اسلامی سربراہی کانفرنس کی طرز پر مل بیٹھ کر "مسلمان اقوام متحدہ" میں اس بات کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ دنیا میں مسلمانوں نے اگرباعزت زندگی گزارنی ہے تو ان کے حکمرانوں کے باغیرت اور خوددار طرز عمل میں ہی ان کی نجات ہے اور یہی حکمران جب خوددار طرز عمل کو اپنائیں گے تو ہمیں کافروں کی غلامی سے نجات بھی مل جائے گی اور ہم دنیا میں سر اٹھا کر فخر سے جی بھی سکیں گے۔