Saturday, 23 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mian Nawaz Sharif Ka Bayaniya

Mian Nawaz Sharif Ka Bayaniya

راولپنڈی سے منتخب وزیر شیخ رشید نے اپنے دھواں دھار بیانات سے سیاست میں ہلچل مچا رکھی ہے، ہر روز وہ انکشافات سے بھر پورایک نیا بیان داغ دیتے ہیں۔ سیاست دانوں اور فوج کی ملاقاتوں کا بھانڈا پھوڑنے کے بعد وہ اب ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگر فون کالوں کا ڈیٹا لیک ہو گیا تو قیامت آجائے گی۔

اپوزیشن اکٹھ کے بعد سے وزیر موصوف روزانہ ایک نئی پھلجھڑی چھوڑتے ہیں۔ ان کی پھلجھڑیوں کی وجہ سے اپوزیشن اتحاد کا ذکر کہیں پیچھے چلا گیا ہے اور اپوزیشن فوج کی ملاقاتیں زیر بحث آگئی ہیں۔ بلاشبہ جہانبانی ایک بہت بڑا درد سر ہے لیکن ہمارے جیسا ملک جو تیغوں کے سائے میں پل کر جوان ہوا ہے ایسے ملک کی ناپختہ جمہوریت میں اپوزیشن شاید حکمرانی سے بھی بڑا دردسر ہے۔

مسائل سے گھرے ہوئے عوام کی توجہ فوراً ہی حکومت سے ہٹ کر اپوزیشن کی طرف چلی جاتی ہے اور عوام اپوزیشن کو اپنا غیرسرکاری نمایندہ سمجھ لیتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے میں ظاہر ہے کہ تاخیر کرتی ہے، ہتھیلی پر سرسوں کوئی حکمران نہیں جما سکتا مگر عوام بے چین اور بے صبرے ہوتے ہیں۔

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک

اس لیے وہ اپوزیشن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے مسائل کا فوری حل تلاش کرے اور حکومت کو مجبور کرے کہ وہ جیسا بھی ہو سکے، عوام کے مطالبات پورے کرے۔ پاکستانی عوام نے آمریت کو بہت بھگتا ہے۔ آمریت کے زمانے میں عوام بے بسی کا شکار رہتے ہیں۔ ایک آمر کی حکومت جو کچھ کرتی ہے وہ صبر کے ساتھ اسے برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ضد نہیں کرتے ڈرے سہمے رہتے ہیں لیکن آمریت کے بعد جوں ہی ان کے ووٹوں سے کوئی حکومت قائم ہوتی ہے تو ان کی دبی ہوئی خواہشیں یکدم بیدار ہو جاتی ہیں، صبر کی سکت چونکہ پہلے ہی ختم ہو چکی ہوتی ہے، مزید صبر کا یارا نہیں ہوتا اور زندگی کے کونوں کھدروں میں چھپائے جانے والے مسائل یکایک باہر نکل آتے ہیں۔

یہاں حکمرانوں کی بصیرت اور خلوص عمل کا سوال پیدا ہوتا ہے اور ان کی نیک شہرت اور عمل کی نیکی دونوں مل کر عوام کو انتظار پر آمادہ کر سکتی ہے۔ ایسے حالات میں اپوزیشن بہت اہم ہو جاتی ہے اور ایک محب وطن اپوزیشن ایسے موقع سے فائدہ اٹھا کر حکومت کو پریشان نہیں کرتی بلکہ عوامی مسائل کے حل میں اس کی مدد کرتی ہے لیکن ملک میں اس وقت ایک جمہوری حکومت کے بعد ایک اور جمہوری حکومت کا تسلسل جاری ہے اور عمران خان کی حکومت خدانخواستہ کسی مارشل لا کے خاتمے کے بعد قائم نہیں ہوئی لیکن ان کی حکومت نے دو پارٹیوں کی حکمرانی کا خاتمہ ضرورکیا ہے۔

بلا شک وشبہ اس وقت ملک میں سب سے بڑی اپوزیشن مسلم لیگ نواز ہے۔ کل تک یہ جماعت اقتدار میں تھی بلکہ اپنے کلی اقتدار سے پہلے یہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی شریک اقتدار رہی لیکن اس وقت بعض معاملات پر اصولی اختلافات کی وجہ سے حکومت سے علیحدہ ہوگئی تھی اور اس کے ارکان نے وزارتیں چھوڑ دیں تھیں لیکن نواز شریف نے پیپلزپارٹی کی حکومت کو پانچ سال مکمل معاونت فراہم کی اور آصف زرداری کی حکمرانی کے اقتدار کے پانچ سال مکمل کرانے میں سب سے اہم کردار نواز شریف کا رہا۔

آصف زرداری وفاق میں حکمرانی کے مزے لوٹتے رہے جب کہ پنجاب میں میاں شہباز شریف نے اپنی انتظامی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اقتدار کے جھنڈے گاڑے رکھے۔ 2013 کے الیکشن میں نواز لیگ وفاق اور پنجاب کی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم کی کرسی پر متمکن ہوئے۔ پنجاب ملک کا بڑا صوبہ اور اگر وفاقی حکومت کے پاس پنجاب کا اقتدارنہ ہو تو اس کے مشکلات ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔

گزشتہ الیکشن میں آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد پنجاب کی حکومت بھی تحریک انصاف کی جھولی میں ڈالی دی گئی اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کو مکمل طور پر اپوزیشن میں دھکیل دیا گیا۔ نواز لیگ اب مکمل طور پر ایک مضبوط اپوزیشن میں ہے جس کے ارکان کی معقول تعداد قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں موجود ہے جو کسی بھی اشارے پر اپنے سابقہ شریک اقتدار دوستوں کے ساتھ مل کر حکومت کا دھڑن تختہ کر سکتی ہے اورحکومت کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میاں نواز شریف ایک بہت ہی مضبوط اپوزیشن کے باوجود اپنا کردار ادا نہیں کر پارہے۔

اس کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ احتساب کا شکنجہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے گرد اس قدر مضبوطی سے کس دیا گیا ہے کہ وہ ابھی تک اس شکنجے سے نکلنے کی کوششوں میں ہیں، ان کی تمام اپوزیشن کارروائیوں کا مقصد اس شکنجے سے اپنی جان چھڑانا ہے۔ اپوزیشن اجلاس میں ان کی حالیہ تقریر مقبولیت حاصل نہیں کر سکی کیونکہ پاکستانی عوام ہوں یا خاص، ابھی تک پاکستان میں ایسے غیرت مندوں کی اکثریت ہے جو اپنی افواج کے خلاف کسی قسم کی کوئی بات سننا پسند نہیں کرتے ہیں۔

کون پاکستانی نہیں جانتا کہ اس کے دشمنوں نے تو ان کے ملک کو ایک ناکام ملک پہلے ہی قرار دے دیا ہے اور دلی سے لے کر واشنگٹن اس کی بربادی کے منتظر ہیں۔ ملک کی سیاست میں نواز اپوزیشن کے اس طرزعمل کو دیکھ کر موج میلہ کرنے والے سیاستدان تو یہی چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بیانیہ پر ڈٹے رہیں لیکن یہ بیانیہ قوم اور ملک کو بہت مہنگا بلکہ مہلک حد تک مہنگا پڑ سکتا ہے۔

نواز شریف کا یہ بیانیہ غیروں کی خوشنودی کے لیے پاکستان کی بنیادی پالیسیوں سے انحراف کا بیانیہ ہے اور اگر وہ اس پر ڈٹے رہتے ہیں تو اس کی کوئی دوسری صورت نکل سکتی ہے جو کسی کے سیاستدان کے قابل قبول ہر گز نہیں ہو گی۔ میاں نواز شریف جو اس ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے کے بعد اب نظریاتی ہو گئے ہیں، ان کو اپنے بیانیہ پر ڈٹے رہنے کے بجائے نظرثانی کی ضرورت ہے۔