دنیا کے حالات و واقعات میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے خاص طور پر جب آپ بین الاقوامی میڈیا کی خبریں سنیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جو ملک اپنی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے کورونا وائرس نے ان ممالک میں زندگی کو مفلوج کر دیا ہے، ترقی یافتہ اور سپر پاور امریکا جیسا ملک بھی بے بس دکھائی دیتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے عوام سے خطاب میں تیس اپریل تک پابندیاں نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر دو لاکھ امریکیوں کی ہلاکت کے بعد بھی وائرس کا خاتمہ ہو جائے تو اسے کامیابی سمجھا جائے۔ یورپی ممالک بھی وباء سے بس ہو چکے ہیں اور ر وزانہ کی بنیاد پر مختلف ممالک میں ہزاروں افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔
دنیا کے ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہم پاکستانیوں کو اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ابھی تک پاکستان میں صورتحال کنٹرول سے باہر نہیں ہوئی اور حکومت کی جانب سے جزوی پابندیوں کی وجہ سے حالات کسی حد تک قابو میں ہیں۔ حکومت کی انتظامی صلاحیتیوں کی اگر بات کی جائے تو ہنگامی صورتحال میں ان کی حکمت عملی درست جارہی ہے، وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم متحرک نظر آتی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر حکومتی نمایندے ٹی وی کے ذریعے عوام کو صورتحال سے باخبر رکھ رہے ہیں اور حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ملک کو مکمل بند نہیں کرسکتے کیونکہ اس صورت میں ملک کی پچیس فیصد آبادی جو غربت کا شکار ہے، اس کو زندگی گزارنی مشکل ہو جائے گی اس لیے وہ مکمل لاک ڈائون پر تیار نہیں ہیں۔
وفاقی حکومت نے اپنی استعداد کارکے مطابق غریب لوگوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے ایک پیکیج کا اعلان کیا ہے جب کہ صوبائی حکومتیں بھی عوام کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان کر چکی ہیں تا کہ وہ افراد جن کا گزر بسر روزانہ کی بنیاد پر کمائی سے ہوتا ہے یعنی وہ دیہاڑی دار ہیں، ان کو کم از کم اتنی امداد مل جائے جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکیں۔ حکومتی سطح پر جس امدادی رقم کا اعلان کیا گیا ہے، وہ بہت قلیل ہے اور اس میں ایک خاندان کا گزر بسر ناممکن ہے لیکن حکومت نے بھی اپنے وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کی مدد کرنی ہے۔
پاکستانیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے لیکن صدقہ، خیرات اور زکواۃ کھلے دل سے دیتے ہیں۔ ماہ رمضان کی آمد آمد ہے ویسے تو مسلمان جو زکواۃ کے نصاب پر پورا اترتے ہیں، ان کے لیے یہ پابندی نہیں ہے کہ وہ صرف رمضان کے مہینے میں اپنی زکواۃ ادا کریں، یہ فریضہ سال بھر بھی اداکیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایک رسم بن گئی ہے کہ ماہ رمضان میں ہی زکواۃ ادا کرنی ہے، حکومت بھی بینک اکائونٹ سے زکواۃ کٹوتی یکم رمضان کو کرتی ہے، اس لیے عام آدمی بھی سال کے دوسرے مہینوں کی نسبت ماہ رمضان میں ہی صدقہ خیرات اورزکواۃ کی ادائیگی کو ترجیح دیتے ہیں۔
حکومت پنجاب نے اسٹیٹ بینک سے درخواست کی ہے کہ یکم رمضان سے پہلے ہی زکواۃ کٹوتی کی اجازت دی جائے تا کہ اس مد میں جو رقم حکومتی خزانے میں جمع ہو، اسے بھی مستحق افراد تک پہنچایا جا سکے۔ یہ تو وہ حکومتی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے زکواۃ تقسیم کی جاتی ہے لیکن ملک بھر کے مخیر حضرات جو صدقہ خیرات میں کبھی پیچھے نہیں رہتے، ان کو بھی ماہ رمضان کا انتظار کیے بغیر ابھی سے اپنے زکواۃ کے نصاب کی ادائیگی شروع کر دینی چاہیے تا کہ ان کے ارد گرد جو لوگ کورونا وبا کی وجہ سے بے روزگار ہو چکے ہیں اور ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں، ان چولہوں میں آگ دوبارہ بھڑک سکے۔
یہ ہم سب کی سماجی کے علاوہ دینی ذمے داری بھی ہے کہ ہمیں اپنے ہمسائے کی ضرورت کا بھی خیال رکھنا ہے، ہم خود تو اپنے گھروں میں مرغن غذائوں کے مزے لوٹ رہے ہوں لیکن ہمارے ارد گرد لوگ بھوک سے بلبلا رہے ہوں اس لیے ہمیں ان مشکل حالات میں اپنے ارد گرد نظر رکھنی ہو گی، یہ ہم سب کی ذمے داری ہے۔ میں ایک بات عرض کرتا چلوں کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی کی مدد کرے گا تو اس کے روپوں پیسوں میں کمی آجائے گی، رزق کم ہو جائے گا، حقیقتاً ایسا ہر گز نہیں ہے، میرا یہ ایمان ہے کہ جتناآپ کسی مستحق خاندان کی کفالت پر خرچ کریں گے اس سے کئی گنا آپ کو واپس ملے گا، آپ اس بات کوآزما لیں، یہ ہمارے رب کا وعدہ ہے کہ جو اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کا رزق وسیع ہو جاتااور یہ رب العالمین کا وعدہ ہے جو اس کل کائنات کا رازق ہے، وہ کیسے وعدہ خلافی کر سکتا ہے۔
ہم میں سے کئی ایک نے اس سال حج کا ارادہ کیا ہو گا، اس مد میں حکومتی اسکیم میں پیسے بھی جمع کر ارکھے ہوں گے، ہم میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو زندگی میں کئی بار عمرے کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور کئی ایسے ہیں جو سال میں کئی بار اس سعادت سے مستفید ہوتے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی کہ وہ عمرہ کی اجازت کب تک دیں گے اور کیا حج کی ادائیگی ممکن ہو سکے گی، کیاہی اچھا ہو کہ جن لوگوں نے ماہ رمضان میں عمرے کا ارادہ کیا ہوا ہے، وہ عمرے پر اٹھنے والے اخراجات مستحقین میں تقسیم کر دیں اور جو لوگ نفلی حج کے ارادے سے جارہے ہیں، وہ بھی اس نفلی عبادت کے اخرجات کو غرباء میں تقسیم کر کے اس عمل کو یہیں انجام دے لیں تو ان کا نفلی عمرے اور حج کے بدلے یہ عمل اﷲ کے ہاں زیادہ مقبول عمل ہو گا۔
میرے علم میں کئی ایسے کاروباری افراد ہیں جو ہر سال ماہ رمضان میں حرمین شریفین میں لنگر کا اہتمام کرتے ہیں، سحری اور افطاری میں انواع و اقسام کے کھانے تقسیم کیے جاتے ہیں اور روزہ داروں کو پکڑ پکڑ کر اپنے دستر خوان سے کھانا کھلانے کو سعادت سمجھتے ہیں، ان کی منتیں کرتے ہیں کہ وہ ان کے دسترخوان پر سحری کریں اور روزہ افطار کریں۔ پاکستان میں ایسے مخیر کاروباری افراد کی کوئی کمی نہیں ہے بات صرف اس ذمے داری کی ہے جورب نے ہمارے سپرد کر رکھی ہے، یہ وہ وقت ہے کہ جب حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی ہم پر لازم کر دی گئی ہے۔
ہم میں سے جو صاحب استعطات ہیں ان کو نفلی عمروں اور حج کے بجائے اپنے قرب و جوار میں موجود غرباء اور مساکین کے روزے افطار کرانے چاہئیں۔ ملک میں سیاسی عمل جاری رہے گا، اس کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھیں اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کی مدد بے شک نہ کریں لیکن عوام کی مدد کے لیے ہمارے مخیر رہنماء اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیں لیکن اس عمل کے لیے ایمان کی طاقت چاہیے جو کم از کم ہمارے سیاسی رہنمائوں کے ہاں مفقود ہے۔