جب محترمہ بینظیر بھٹو پہلی بار اقتدار میں لائی گئیں تو میں نے عالمی امور کے بارے میں اپنے استاد سے اسلام آباد جا کر پوچھا کہ اس خاتون کو اقتدار کیوں سونپا گیا ہے اس سے کیا کرانا چاہتے ہیں۔ امریکی امور کے اس پاکستانی ماہر نے اطلاع دی کہ بے نظیر صاحبہ کو جو ذمے داری سونپی گئی ہے۔
اس میں منشیات پر قابو پانا، ایٹمی پروگرام کو ختم کرنا یا بے اثر کرنا اور بھارتی بالادستی کو قبول کرنا ہے، جہاں تک منشیات پر قابو پانے کا سوال ہے تو یہ پاکستانی حکومت کا اس وقت اپنا مسئلہ بھی تھا اس لیے اس میں کامیابی کے لیے کوششیں کی گئیں لیکن باقی کے دونوں معاملات شاید بے نظیر صاحبہ کے بس کے نہیں تھے۔ ایٹمی پروگرام نہ صرف قوم کا متفقہ فیصلہ تھا بلکہ بے نظیر صاحبہ ذاتی طور پر اس سے ایک جذباتی تعلق بھی رکھتی تھیں کیونکہ یہ پروگرام ان کے والد کی یاد گار تھا۔
بعد میں ایٹمی پروگرام سے متعلق ایک صاحب نے بتایا کہ ہمارے کام میں حکومت نے عملاً کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی اور جہاں تک بھارتی بالادستی کا سوال ہے تو بے نظیر یہ کام بھی نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ اس کے بارے میں قوم کے اندر پیپلز پارٹی کے بارے میں پہلے سے شکوک موجود تھے اور بھارت کی مخالفت بھی ایٹمی پروگرام کی طرح بے نظیر کے لیے ایک جذباتی مسئلہ تھا کہ ان کے والد اس کے بہت بڑے مبلغ رہے ہیں چنانچہ بینظیر صاحبہ اپنی حکومت میں اس امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں ناکام رہیں جس کے نتیجے میں نواز شریف کو لایا گیا اور ان کے سپرد بھی یہی ایجنڈا کیا گیا۔
وہ بھارتی بالادستی کے معاملے میں تو ناکام رہے لیکن ایٹمی پروگرام میں انھوں نے رکاوٹیں ڈالنی شروع کر دیں۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ اس پروگرام کی مالی امداد میں پہلی تمام حکومتیں بلا چوں و چرا تعاون کرتی تھیں لیکن میاں صاحب نے قسطوں میں یہ امداد دینی شروع کر دی اور اس میں رکاوٹ بھی ڈالی۔
امریکی میاں نواز شریف کے اقدامات سے مطمئن نہ ہوئے اور پھر بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم کر دی گئی۔ اس دوسری حکومت میں بھی بے نظیر صاحبہ کوئی خاص پیشرفت نہ کر سکیں ان سے مایوس ہو کر امریکا نے ایک بار پھر پلٹا کھایا اور نواز شریف کو اقتدار دلوا دیا۔ اس بار میاں صاحب نے طے کر لیا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ معاندانہ رویہ ترک کر دیں گے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ میاں صاحب نے سب سے پہلے تو بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات میں پیش رفت شروع کر دی۔ اس وقت خبریں مشہور ہوئیں کہ میاں صاحب کے صاحبزادے نے بھارت میں کاروباری سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم پاکستان تشریف لائے، اعلان لاہور ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ اس دورے پر احتجاج کرنے پر جماعت اسلامی کے کارکنوں پر ان کے دفتر کے اندر گھس کر تشدد کیا گیا۔ مرحوم قاضی حسین احمد بھی اس وقت وہاں موجود تھے۔
یہ تشدد دراصل بھارت سے تعلقات کی حمایت کا ایک کھلا اظہار تھا۔ اس کے بعد بڑی بے دردی کے ساتھ کارگل سے فوجوں کو واپس بلایا گیا جس سے بھاری پیمانے پر شہادتیں ہوئیں۔ امریکا جا کر سر جھکایا گیا اس طرح امریکی ایجنڈے پر پیش رفت ہوئی لیکن قومی سیاست میں ایسے اقدامات کیے گئے جن سے فوج مشتعل ہو گئی۔ دراصل کارگل سے واپسی فوج کی برہمی کی بنیاد بنی۔ جس کے بعد میاں صاحب نے ایک نیا ایڈوینچر کرنے کی کوشش کی۔ آرمی چیف کو عہدے سے اتارنے کے لیے ایک بھونڈا طریقہ اختیار کیا گیا۔
فوج کے سربراہ نے آگاہ کر دیا تھا کہ اگر ان کو الگ کرنا ہے تو اس کے لیے ایک مروجہ طریقہ کار اختیار کیا جائے اس سے ہٹ کر کوئی حرکت کی گئی تو یہ قابل قبول نہ ہو گی لیکن میاں صاحب ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے انھوں نے من مانی اختیار کی اور غلط طریق کار اپنایا۔ اگر اس وقت نئے چیف کے لیے موزوں امیدوار تلاش کرتے تو شاید بچ بھی جاتے لیکن انھوں نے اس کی زحمت نہ کی۔ قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ کو زیر کرنے کے بعد انھوں نے فوج کو بھی ایسا ہی سمجھ لیا تھا چنانچہ پرانا لطیفہ دہرایا گیا کہ آخر میں انھوں نے بم کو لات مار دی۔
جس کے نتیجے میں وہ اقتدار سے باہر کر دیے گئے اور فوج نے حکومت سنبھال لی۔ فوجی حکومت میں کم و بیش امریکی ایجنڈا چلتا رہا، بابائے ایٹم بم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ جوسلوک کیا گیا وہ تاریخ میں سیاہ الفاظ میں لکھا جائے گا۔ فوج کی حکومت ختم ہونے کے بعد اقتدار ایک بار پھر بینظیر صاحبہ کے سپرد کرنے کی تیاری مکمل تھی لیکن بینظیر کو شہید کر دیا گیا اور اقتدار ان کے شوہر نامدار آصف علی زرداری کی صورت میں صدر ہاؤس اسلام آ باد میں منتقل ہو گیا۔
جنھوں نے تاریخ کی بری ترین حکومت کی۔ میاں نواز شریف پر قسمت ایک بار پھر مہربان ہوئی اور وہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے لاہور میں بھارت نوازوں کی ایک تقریب میں انھوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا زبان کلچر ایک، صرف درمیان میں ایک سرحد آگئی اوروہ بھی اسی رب کی عبادت کرتے ہیں جس کو بھارتی پوجتے ہیں۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد ایک تقریب میں تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے کہا کہ ان کو الیکشن میں کامیابی بھارت دوستی کی وجہ سے ملی ہے۔
نواز شریف کا بھارت کی جانب جھکاؤ کوئی راز نہیں۔ شاید ان کی یہ کوشش رہی ہو کہ وہ ہمسایہ ملک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کر کے خطے میں امن کی بنیاد ڈالیں لیکن قیام پاکستان سے لے کر آج تک بھارت کی جانب سے ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی ایسی کسی کوشش کا مثبت جواب دیا گیا ہے۔
بھارت امریکا کی مدد سے کمزور پاکستان کے ایجنڈے پر کامیابی سے چل رہا ہے۔ پاکستانی حکمران عوام کے دباؤ کی وجہ سے کھلم کھلا بھارتی بالادستی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے لیکن امریکی دباؤ پر در پردہ معاملات چلتے رہتے ہیں۔ اب ملک نئے حکمرانوں کے حوالے ہے میاں صاحب تقدیر کے حوالے۔ اس وقت اس سے زیادہ کچھ عرض نہیں کیا جا سکتا۔