میں جو پرانے زمانے کا اخبار نویس ہوں آج کی جدیدصحافت کالطف اٹھاتا ہوں، لطف کی صورت یہ ہے کہ میرے عزیز اخبار نویس ساتھی اب کسی سیاستدان کی جانب سے اپنی خبری گفتگو سے مکر جانے میں اتنے فکر مند نہیں رہتے جتنے ہم اپنے زمانے میں رہتے تھے۔ ہمارے زمانے میں خبروں کی ریکارڈنگ نہیں ہوتی تھی البتہ کسی انٹرویو کو طوالت کے پیش نظر اسے ریکارڈ کر لیا جاتا تھا اور پھر اس کو نہایت توجہ سے سن کر قارئین تک پہنچایا جاتا تھا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ آج کل کی جدید صحافت میں رپورٹر اپنی خبروں کے بارے میں بے پروا ہوتے ہیں کیونکہ بیشتر خبریں ریکارڈ ہو رہی ہوتی ہیں۔
ٹیلیویژن کے شوق میں سیاستدان وڈیو ریکارڈنگ کراتے ہیں اورجوش جذبات میں وہ دعوے اور وعدے بھی کر جاتے ہیں جو بعد میں پورے ہونا ناممکن ہوتے ہیں جن کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے صدر صاحب اور وزیر اسد عمر پاکستان اسٹیل مل والوں سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں، انھوں نے گزشتہ دور میں ا سٹیل مل کی فروخت کی مخالفت میں جو بیان داغے تھے وہ آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے ان کو یاد دلائے جارہے ہیں لیکن ہمارے بے حس سیاستدان ڈھٹائی سے ان کا دفاع کر رہے ہیں۔
ملک ہو یا اس کا کوئی کاروباری ادارہ ہم اسے چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہنر مندوں نے اپنے دست محنت اور ہنر مندی سے بہت سی بگڑیاں بنا کر دکھا دی ہیں لیکن غلط کار لوگوں نے ان پاکستانیوں کو کھلا میدان نہیں دیا لیکن جب بھی انھیں ایسا کرنے کا موقع ملا توانھوں نے ایٹم بم تک بنا کر دکھا دیا جس پر ہم اتراتے رہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے بنانے والوں کو کوستے بھی رہتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا خطرناک مسئلہ جوں کا توں ہے اور دونوں ایٹمی طاقتوں کی وجہ سے کوئی لمحہ ایسا آسکتا ہے کہ دنیا کا امن غارت ہوجائے۔ بات پاکستان سے محبت رکھنے والوں کی ہو رہی تھی کہ ان کے سپرد جو کام کیا گیا ان کی جو ڈیوٹی لگائی گئی انھوں نے کچھ کر کے دکھا دیا۔ پاکستان اسٹیل مل کے قومی منصوبے کی بنیاد بھٹو صاحب نے رکھی تھی جو بارہ برس کے بعد ضیاء الحق کے دور میں چلنا شروع ہوئی۔ پاکستان اسٹیل ایک بہت ہی بڑا منصوبہ ہے۔
انیس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ آہنی منصوبہ ہمارے سیاسی حکمرانوں کی شکارگاہ رہا ہے اور یہاں کئی ایسے بڑے افسر بھی آئے جو اس کی مٹی بھی بیچ کر کھا گئے۔ جو بھی حکومت آئی اس نے چند ہزار بھرتیاں کر دیں اور اب یہ عالم ہے کہ نئے پاکستان اور اداروں کو منافع بخش بنانے کی دعویدار حکومت نے پہلا وار پاکستان اسٹیل مل پر کیا ہے اور نجکاری کے شوق میں اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دس ہزار کے قریب ملازمین کے گھروں کے چولہوں کی آگ ایسے ہی بجھا دی گئی ہے جیسے آج سے کئی برس قبل اسٹیل مل کی بھٹیوں کی آگ ہمارے کرپٹ سیاستدانوں کی وجہ سے بجھ گئی تھی۔ پاکستان اسٹیل کی تباہی و بربادی میں اس کے ملازمین کا کیا قصور ہے کہ ان کو بے روز گار کر دیا جائے اور ان لوگوں کو چھوڑ دیا جائے جن کی وجہ سے یہ قومی منصوبہ تنزلی کا شکار ہوا ہے۔
ہماری فولاد کی ضروریات بہت زیادہ ہیں اور یہ مل ہماری قومی ضرورت کاصرف پچیس فیصد پورا کرتی تھی لیکن معیاری لوہا فراہم کرتی تھی اس کی پیداوار کی خرید و فروخت میں جن کاروباری لوگوں نے روڑے اٹکائے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ مفادات کا ٹکراؤ نہ ہوتا وہ اپنے تجربے کو استعمال کرتے تو آج پاکستان اسٹیل قومی پیداوار میں اپنا حصہ برقرار رکھتی لیکن مفادات کے ٹکراؤ نے اس اہم ترین قومی ادارے کی شکل بگاڑ دی، گزشتہ دس برسوں میں اس کی بحالی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی البتہ اس کو من پسند اور ملک دشمن افراد کو بیچنے کی باز گشت سنائی دیتی رہی۔
ماضی میں حکومتیں صرف اس کے ملازمین کی تنخواہوں کے لیے چند ماہ کے بعد کچھ رقم جاری کرتی رہیں جس سے ملازمین کو تنخواہیں تومل جاتی تھیں لیکن اسٹیل مل کی بھٹیاں ٹھنڈی رہیں اور ان میں آگ دہکانے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہ کی جا سکی۔ میں اس میاں نواز شریف کا مداح ہوں جن کے خاندان کا اسٹیل کے کاروبار میں طوطی بولتا رہا ہے اور وہ میاں نواز شریف تین مرتبہ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ہیں۔
کیا یہ ان کی ذمے داری نہیں تھی کہ وہ اپنے تجربے کو استعمال میں لاتے ہوئے اس اہم قومی ادارے کو بحال کرتے جو ان کی نیک نامی میں مزید اضافہ کرتا لیکن افسوس کہ انھوں نے بھی اس اہم قومی فرض سے پہلوتہی کی۔ میاں نواز شریف کی اپوزیشن بھٹو صاحب کی پارٹی کا بھی فرض تھا کہ وہ اپنے بانی کے لگائے گئے اس اہم قومی منصوبے کی حفاظت کرتے لیکن انھوں نے اسے عثمان فاروقی کے حوالے کر دیا اورنیک نام ریٹائرڈ جرنیل عبدالقیوم جنھوں نے اس سفید ہاتھی کو حقیقی معنوں میں کالے ہاتھی میں تبدیل کیا تھا وہ اسٹیل مل کی چیئرمینی سے سبکدوش ہوتے وقت اربوں روپے اسٹیل مل کے اکاؤنٹ میں اور کئی ارب کا خام مال پیپلز پارٹی کی حکومت کے حوالے کر گئے تھے۔
جنرل صاحب نے اپنی چیئرمینی کے دور میں ایک ملاقات میں یہ دلچسپ بات بتائی تھی کہ لوہا جو تین ہزار سال سے انسان استعمال کر رہا ہے اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ اس کی تیاری سونے سے مہنگی پڑتی تھی۔ سکندر نے پورس کو جو تحفہ دیا وہ تیس پونڈ وزنی لوہے کا ٹکڑا تھا۔
آج سے ایک دہائی قبل اربوں کے منافع میں جانے والی اسٹیل مل اب کھربوں کے نقصان میں ہے اور ہم نجکاری کے شوق بلکہ جنون میں ان قومی منصوبوں سے جان چھڑانے میں مصروف ہیں جو نقصان میں ہیں، آج اسٹیل مل کی باری آگئی ہے کل پی آئی اے اس فہرست میں کھڑی ہو گی۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ حکومتوں کا کام کاروبار کرنا نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات حالات ایسی کروٹ لے لیتے ہیں کہ اصولی طور پر درست نجکاری کا عمل خطرناک بن جاتا ہے اورملکی سلامتی کے لیے کچھ ادارے ایسے ہوتے ہیں جن کی باگ ڈور حکومت کے ہاتھ میں ہی رہے تو بہتر ہوتا ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ دشمن ملک کے کاروباری افراد پاکستان اسٹیل کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
جب آپ فروخت کے لیے ٹینڈر جاری کرتے ہیں تو بولی دینے والے کی وطنیت پر پابندی نہیں لگا سکتے یوں بھی ہے کہ آپ نے کسی بے ضرر شخص کو اپنی چیز بیچ دی لیکن اس نے کل ہمارے کسی دشمن کے ہاتھ اسے بیچ دیا۔ بہرکیف غیر معمولی احتیاط کی ضرورت ہے اور اگر حکومتیں نیک نیت ہوں تو ہم پاکستانی خود اپنا کوئی بھی ادارہ چلا سکتے ہیں اور قومی مفادات کی نگہداشت بھی کر سکتے ہیں لیکن قومی اداروں کو سنبھالنے والی کوئی حکومت آئے تو یہ سب ممکن ہو گا ورنہ یہی کچھ ہوتا رہے گا ہم اپنے قیمتی اثاثوں کی سودے بازی میں مصروف رہیں گے۔