وہ زمانے گزر گئے جب ایک طرف حکومت ہوتی تھی اور دوسری طرف اپوزیشن اور لوگ دلجمعی کے ساتھ حکومت یا اپوزیشن کا ساتھ دیتے تھے۔ آج کے تیز رفتار زمانے میں ایک طرف حکومت تو موجود ہے لیکن اس کی اپوزیشن کی تعداد بڑھ گئی ہے۔
ایک اپوزیشن تو سیاست دانوں کی ہے جو الیکشن کے بعد وجود میں آتی ہے مگر اب ایک اپوزیشن عوام کی بھی بن گئی ہے جو پہلے زمانوں میں میڈیا کے مرہون منت رہتے تھے مگر اب میڈیا ان کے اپنے ہاتھ میں آگیا ہے اور وہ سوشل میڈیا ہے جو ہر ایک فرد کی دسترس میں ہے اور جہاں پر وہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔
حکومت کی حمایت میں بھی اور مخالفت میں بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہے بلکہ حکومت کے حمایتی بھی حکومت مخالفوں کی طرح پالیسیوں پر تنقید اور تعریف کرتے ہیں یعنی کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے ہر فرد آزادی سے اپنی رائے دینے کا بنیادی حق رکھتا ہے اور بلا خوف و خطر اور کسی جھجک کے رائے دیتا بھی ہے۔
اپوزیشن کی بڑھتی تعداد کی وجہ خود اپوزیشن میں وزیر اعظم کے امیدواروں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہے ہر کوئی گھات لگائے بیٹھا ہے کہ کب کس کا دائو چل جائے اور اس کی لاٹری نکل آئے۔ اپوزیشن کے علاوہ حکومتی صفوں میں وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے جو کسی انہونی کے منتظر ہیں لیکن ایسے امیدواروں کے لیے مشورہ ہے کہ وہ جمع خاطر رکھیں ایسا کچھ نہیں ہونے والا کہ ان کی باری آجائے گی۔ تحریک انصاف ون مین شو ہے اور اگر اس میں سے ون مین نکال دیا جائے تو باقی شو بھی نہیں رہتا اس لیے کوئی غلط فہمی میں نہ رہے اور جس تنخواہ پر کام کر رہا ہے اسی پر کرتا رہے یہی ان منتظر امیدواروں کے لیے مشورہ ہے۔
اپوزیشن کی اگر بات کی جائے تو بڑی پارٹی مسلم لیگ نواز کی ہے جس میں ایک سے زیادہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار موجود ہیں اور اپنے آپ کو اس کے لیے اہل سمجھتے ہیں۔ پارٹی کے قائد میاں نواز شریف اپنے تجربے کی بنیاد پر چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کا مزہ چکھنے سے ہر گز گریز نہیں کریں گے ان کے برادر خورد میاں شہباز شریف بھی صوبہ پنجاب میں اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں اور مقتدر حلقوں کے لیے مسلم لیگ نواز میں سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیت ہیں لیکن ان کی ایک مجبوری یہ ہے کہ وہ بھائی جان کے دبائو سے نکل نہیں پا رہے ورنہ وہ اس وقت بھی کسی اچھے عہدے پر ضرور موجود ہوتے مگر ان کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں اور ان کی ڈوریاں لندن میں مقیم ان کے بھائی صاحب کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لیے وہ بوجہ خاموش ہیں اور قرنطینہ میں ہیں۔
ان کے علاوہ میاں نواز شریف کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز بھی مکمل تیاری میں ہیں اور وہ میاں نواز شریف کی صاحبزادی کی وجہ سے اس عہدے پر اپنا حق زیادہ سمجھتی ہیں کہ اگر آیندہ کسی الیکشن میں مسلم لیگ نواز کو اکثریت مل جاتی ہے تو وہ وزارت عظمیٰ کی امیدوار ہوں گی۔
مسلم لیگ نواز میں یہ واضح تقسیم اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے میاں نواز شریف کا الگ گروپ ہے اور میاں شہباز شریف کو پارٹی کا ایک علیحدہ گروہ پسند اور ان کی حمایت کرتا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کے لیے قابل قبول بھی ہیں اور ممنا کر نہیں کھل کر بات کرتے ہیں جس کا حتمی فائدہ پارٹی کو پہنچتا ہے لیکن چونکہ میاں نواز شریف انقلابی بن چکے ہیں اور وہ کسی سمجھوتے کے قائل نہیں ہیں جس کی وجہ سے شہباز شریف بھی تنہائی کا شکار ہو گئے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ان کی پارٹی کے منتخب ارکان بھی ان کی سیاسی حکمت عملی سے بددل ہو رہے ہیں۔ میاں شہبازشریف کے لیے فارسی کے ایک شعر والی بات بن گئی ہے کہ میرا خواب تو کثرت تعبیر کی وجہ سے پریشان ہو گیا۔
شد پریشاں خواب من ازکثرت تعبیر ہا
پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی سیاسی میدان میں گولہ باری کر رہے ہیں انھوں نے سیاسی سرگرمیوں میں تیزی کی ہوئی ہے اورحکومتی کارکردگی کو ہدف تنقید بنایا ہوا ہے جو کہ اپوزیشن کا اصل کام ہے لیکن مجھے آیندہ انتخابات میں وزیر اعظم پاکستان کے لیے معتبر عہدے کے لیے ان کا چانس کم ہی نظر آتا ہے کیونکہ انھوں نے اپنی پارٹی کو سندھ تک محدود کر لیا ہے اور پارٹی کی وفاقی حیثیت ختم کر لی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن بھی ایک مدت سے اس عہدے کے امیدوار ہیں اور کل وقتی نہ سہی جز وقتی خدمت کے لیے بھی تیار ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے سدا بہار چوہدری برادران بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں وہ اس کام کا خاصہ تجربہ رکھتے ہیں۔ میاں صاحبان کی طرح بیک وقت چوہدری شجاعت حسین وزیر اعظم اور چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر فائز رہ چکے ہیں لیکن ان کے لیے سیاسی میدان ابھی صاف نہیں ہے البتہ اگر کوئی انہونی ہو جائے تو ان کے نام کا قرعہ بڑی آسانی کے ساتھ نکل سکتا ہے کیونکہ کسی ناگہانی صورتحال میں وہ سب کے لیے قابل قبول ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں وزیر اعظم کے امیدواروں کو دیکھ سن کر یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے لیکن پھر یہ بھی ڈر لگتا ہے کہ پہلے بھی ایک دفعہ کبھی دو وزیرا عظم بنے تھے تو ملک دو ٹکڑے ہو گیا تھا۔
بہر حال مجھے تو بیٹھے بٹھائے یہ خیال آگیا کہ ملک میں وزیر اعظم کے امیدواروں کی تعداد کی کوئی قلت نہیں ہے اس لیے میں مطمئن ہو گیا کہ ملک میں ہر چیز کی قلت ہو سکتی ہے لیکن اگر کسی چیز کی قلت نہیں ہے تو وہ وزیر اعظم کے امیدواروں کی نہیں ہے جو ہر وقت اپنی شیروانی اور اچکن تیار رکھتے ہیں کہ پاکستان میں کچھ علم نہیں ہوتا کہ کب کیا ہو جائے۔ اس لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے اور ہمارے سیاستدانوں سے زیادہ اس بات کو اور کون اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں البتہ عوام کا ذہن چکرا جاتا ہے اور وہ یکسو ہو کر فیصلہ نہیں کر پاتے کہ کس کو وزیر اعظم قبول کریں یا فی الحال موجودہ وزیر اعظم کو ہی کام کرنے دیں۔