میں اگر یہ عرض کیا کرتا ہوں ہمارا ملک نہ اسلامی ہے نہ جمہوری ہے اور نہ ہی پرانے والا پاکستان ہے۔ یہ کوئی اور ملک ہے جو ہمارے ان سیاستدانوں نے بنایا تھا جو اپنے شہریوں کی حفاظت نہیں کر سکتے اور انھیں بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں۔
ہمارے آزاد ملک کی سرزمین پر ہرروز ایسے کئی ظلم ہوتے ہیں جو کہیں رپورٹ نہیں ہوتے یعنی ان کی کوئی شکایت کہیں درج نہیں کرائی جاتی کیونکہ ان مظلوموں کو یہ علم ہوتا ہے کہ ان کی داد رسی نہیں ہوگی، اس لیے وہ صبر شکر کر کے خاموش ہو جاتے ہیں اور اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کا فیصلہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کی عدالت میں درج کرادیتے ہیں۔ عوام کے ساتھ زیادتی کرنیوالوں میں کوئی سرکاری محکمہ بھی کسی دوسرے محکمہ سے پیچھے نہیں ہے۔
جہاں جائیں وہاں عوام کو تنگ کرنے والوں کا ہجوم دکھائی دیتا ہے اور چند منٹوں کا کام دو تین دن کی تاریخ دے کر بڑھا دیا جاتا ہے۔ بغیر کسی لالچ کے کام کرنیوالا کوئی دکھائی نہیں دیتا لیکن اکثر محکمے ایسے ہیں جن سے عوام کا واسطہ زیادہ نہیں یا بہت کم پڑتا ہے مگر پولیس کا محکمہ ایسا ہے کہ اس کے ساتھ دن رات کا واسطہ پڑتا ہے۔ گھر سے باہر قدم رکھیں تو پولیس دکھائی دے جاتی ہے یا زیادہ سے زیادہ کسی چوک تک دورہوتی ہے۔ اگر آپ کسی چیز پر سوار ہیں تو پھر پولیس کی اجازت اور مہربانی سے یہ سواری استعمال کر رہے ہیں۔
اگر پیدل ہیں تو آوارہ گردی میں پکڑے جا سکتے ہیں اورکا م پڑ جائے جو پڑ ہی جاتا ہے تو پھر تھانے کے اندر وہی ہوتا ہے جو منکر نکیر آپ کے ساتھ کریں گے۔ اس لیے پولیس کے ساتھ عوام کا واسطہ چونکہ زیادہ پڑتا ہے، اس لیے پولیس دوسرے سرکاری محکموں سے زیادہ محسوس ہوتی ہے اور پولیس کے ساتھ ناراضگی بھی دوسرے محکموں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔
ادھر پولیس کی مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس اختیارات بہت زیادہ ہیں اتنے زیادہ کہ وہ کسی بھی خواہ وہ کتنا ہی بے گناہ کیوں نہ ہو اسے کسی نہ کسی قانونی دفعہ کے تحت گرفتار کر سکتی ہے اور اسے عدالت کے سپرد کر سکتی ہے جو خود کسی تھانے سے کم نہیں ہے۔ جو خبریں ہم پڑھتے ہیں کہ جیل سے ایک ایسا شخص رہا ہوا ہے جو برسوں تک بلاوجہ جیل میں سڑ رہا تھا تو اس شخص کی مصیبت کا آغاز پولیس سے ہوا تھا۔
سچ یہ ہے کہ پولیس کسی کے ساتھ کچھ بھی کر سکتی ہے کیونکہ اس کے اختیارات سے کوئی بھی فرد باہر نہیں ہے۔ پولیس اور عوام کا یہی تعلق اور رابطہ ہے جس کی وجہ سے پولیس ہر کسی کی نظروں میں کھٹکتی ہے اور اس کی بڑی وجہ پولیس کے اختیارات ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پولیس میں ایسے فرشتے بھی ہیں جو ان تما م اختیارات کے باوجود گمراہ نہیں ہوتے اگرچہ وہ فرشتوں کی طرح دکھائی نہیں دیتے لیکن ان کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے تو کئی ہیں جو قتل کے مقدمے میں کسی بے گناہ کا چالان نہیں کرتے کیونکہ انسان کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی نہیں ہو سکتی۔
میں ایک ایسے علاقے کا باشندہ ہوں جہاں کبھی جرائم بہت ہوا کرتے تھے۔ اب تعلیم کی وجہ سے لوگ عقل مند ہوگئے ہیں اس لیے مجھے پولیس والوں کے بہت قصے کہانیاں یاد ہیں۔ دیہی علاقوں میں چونکہ باہم رابطے بہت زیادہ ہوتے ہیں اور مجرم اور بے گناہ عوام سے چھپے نہیں رہ سکتے اس لیے پولیس بھی زیادہ سنبھل کر چلتی ہے لیکن شہروں میں اسے کھلی چھٹی ہوتی ہے۔ جہاں پر میں روز ٹھنڈی گاڑیوں میں پولیس والوں کو سڑک کنارے آرام کرتے دیکھتا ہوں جو اے سی کی ٹھنڈی ہوا کے لیے عوام کے خون پسینے کی کمائی پٹرول کی صورت میں پھونک رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے ٹھنڈی گاڑیوں میں آرام کرنے والوں کے افسران یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ رات گئے گاڑی کا پٹرول چیک کیے بغیر خاتون کوسفر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ایسے دلخراش سانحے پربیان داغنا کسی پولیس والے کاہی کام ہے، عوا م کا کوئی ہمدرد افسر اگر ہو تو وہ ایسے کیس میں عوام کی بات کرتا ہے اور ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ ان باتوں کا تعین بعد میں ہوتا ہے کہ واقعہ سے پہلے کیا حالات تھے جن کی وجہ سے یہ وقوعہ پیش آیا۔ لیکن لاہور کے اعلیٰ پولیس افسر نے آئی جی پنجاب کی تبدیلی کے بعد نہ جانے کس زعم میں زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے بیان داغ دیا جس کی ہر طبقہ فکرجن میں عوام کے ساتھ حکومت بھی شامل ہے سب نے شدید مذمت کی ہے۔
لاہور میں سڑک کنارے ہونے والے اکیلی خاتون کے ساتھ پیش آنے والاواقعہ جس نے بھی سنا اس کی زبان سے یہ فریاد نکلی کہ اتنے بڑے ظلم کے ملزموں کو فی الفور کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ ہر طبقہ فکر کی جانب سے اس واقعہ کی مذمت کی جا رہی ہے۔ صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم پاکستان نے اس واقعہ کی فوری تحقیقات اور اور مجرموں کو گرفتار کر کے منطقی انجام تک پہنچانے کا حکم جاری کیا ہے۔
موٹر وے لنک روڈکے ساتھ واقع گائوں کے مردوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے پانچ کروڑ چوالیس لاکھ کی خطیر رقم جاری کر دی گئی ہے تا کہ واقعہ میں ملوث ملزمان کا تعین کیا جاسکے۔ بھلا ہو میڈیا کا جو اس طرح کے عوامی کیس حکومت تک پہنچاکر ارباب اختیار کی آنکھیں کھول رہا ہے۔ تحقیقات تو اس بات کی ہونی چاہیے کہ عوامی حفاظت کا وہ کون سا محکمہ ہے جو اس لنک روڈ پرعوام کی حفاطت کا ذمے دار ہے۔ موٹر وے پولیس ہے یا ہائی وے پولیس، لنک روڈ کے لیے کوئی خصوصی پولیس فورس ہے یا ڈولفن پولیس کے دندناتے موٹر سائیکل سوار ہیں ان ذمے داروں کا تعین کر کے ان کو سزا دینی چاہیے۔
لنک روڈ پرسفر کریں یا موٹر وے پر عوام کو بھاری ٹول ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جس کا جواز یہ دیا جاتا ہے کہ موٹر وے پر عوام کو سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ کیا یہی وہ سہولتیں ہیں کہ حوا کی بیٹی لٹتی رہی، مدد کے لیے پکارتی رہی لیکن اس کی آواز کسی نہ سنی۔ جو جرم ہوا اس کے ملزمان تو حکومت ڈھونڈ لے گی لیکن جن کی غفلت اس جرم کا باعث بنی ان کو سزا دینا بھی ضرروی ہے۔ بعد از خرابی بسیار سیکیورٹی کے لیے لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر اسپیشل پروٹیکشن یونٹ کی ٹیمیں تعینات کی گئیں ہے۔
موٹروے پر پیش آنے والے اس دلخراش سانحے کے اگلے ہی روز لاہور اسلام آبادموٹروے پر شیخو پورہ انٹر چینج سے دو کلو میٹر دوردن دہاڑے لوٹ مار کی گئی جس سے مجرموں کی دیدہ دلیری اور پولیس کی ناکامی ثابت ہوتی ہے۔ عوام موٹروے پر سفر کو سب سے محفوظ ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن اب یہ محسوس ہو رہا ہے کہ موٹر وے بھی سفر کے لیے محفوظ نہیں رہے۔ بہر کیف یہ بحث بہت طویل ہے اور نازک بھی کہ میں بھی ایک عام شہری ہوں اور کسی نہ کسی تھانے کی حدود میں مقیم رہتا ہوں۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ پولیس یاد رکھے کہ عام شہریوں کی حفاظت بھی اس کی ذمے داری ہے۔