آسمان کی نامہربانیوں اور آسمانی آفتوں سے محفوظ رہنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ قوم اﷲ تبارک تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔ اجتماعی استغفار سے شاید اب بربادی کی جگہ کوئی ابر کرم دکھائی دے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ ہم پر کوئی آفت نازل نہ ہوتی ہو۔ کبھی کہیں سڑک پرکوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو کبھی کسی کھلے پھاٹک سے ٹرین معصوم جانوں کو روندتے ہوئے گزر جاتی ہے۔
ایک طرف قوم اور کورونا کے درمیان جنگ جاری ہے جس میں ابھی تک کورونا کے وار کامیاب ہورہے ہیں اور ہم اپنی بے صبری کی وجہ سے اس کا شکار بنتے جارہے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صرف لاہور میں کورونا کے مریضوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔
اب حالت یہ ہے کہ جب گھر کی گھنٹی بجتی ہے تو ڈر لگتا ہے کہ کون باہر سے آگیا ہے جس سے ان وبائی دنوں میں ملنے پڑے گا، کوشش یہ ہوتی ہے کہ ملاقات سے معذرت ہی کر لی جائے کیونکہ اس وبا سے بچاؤ کا ابھی تک صرف ایک ہی طریقہ سامنے آیا ہے کہ سماجی دوری اختیار کی جائے، ایک دوسرے سے ملنے سے گریز کیا جائے اور آپس میں ملتے جلتے وقت فاصلے کو برقرار رکھا جائے۔ بہر حال قوم کورونا سے مقابلہ کے لیے میدان میں اتر چکی ہے، حکومت نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں اور لاک ڈاؤن کھول دیا ہے، علامتی طور پر دو دن کے لیے لاک ڈاؤن برقرار رکھا گیا ہے تا کہ یاد رہے کورونا ابھی موجود ہے۔
میں گزشتہ کئی دنوں سے فصلوں پر ٹڈی دل کے حملے کی خبریں پڑھ رہا ہوں جس کی وجہ سے کھیتوں پر تباہی اور بربادی ناز ل ہوئی ہے، حد نگاہ تک آباد کھیت برباد ہوگئے ہیں اور ٹڈیاں فصلوں کو کھا گئی ہیں۔ پیش گوئی یہ کی جارہی ہے کہ آنے والے وقت میں اناج کی خوفناک قلت ہو گی کیونکہ اناج پیدا کرنے والے کھیتوں پر ٹڈیوں کی شکل میں جو آفت اچانک نازل ہوئی ہے اور پکی پکائی فصلیں دیکھتے دیکھتے ختم ہو گئی ہیں اور کاشتکار اپنی فصلوں کی بر بادی اور اجڑنے کا منظر بے بسی سے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
ہمارا زرعی ملک جس کی زرخیز زمینوں اور محنتی کاشتکاروں کی وجہ سے ہم ہمیشہ نہ صرف غذائی معاملے میں خود کفیل رہے ہیں بلکہ اپنے ہمسائیہ ملک افغانستان کی ضروریات بھی غذائی اجناس کو اسمگل کر کے پوری کرتے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے منتظموں کا جو ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطرزرعی ملک میں اجناس کی قلت پیدا کرنے میں ماہر ہو چکے ہیں اور کاشتکاروں کی بے بسی کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کی اجناس سستے داموں خرید کرتے ہیں اور پھر اس کو اضافی قرار دے کرغیرممالک کوبیچ دیتے ہیں اور پھرملک میں غذائی اجناس کی مصنوعی قلت پیداکر کے اپنی ہاتھوں بھیجی گئی اجناس کو مہنگے داموں واپس خرید لیتے ہیں۔ اسی بیچنے خریدنے کے چکر میں ان کا پیٹ بھر جاتا ہے اور عوام کا پیٹ ننگا ہوجاتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے ان بااثر لوگوں کو کبھی شرم آئی ہو اور انھوں نے کاشتکاروں پر رحم کیا ہو۔
زراعت ہمیشہ آسمان کی محتاج رہتی ہے، جتنے جتن چاہیں کر لیں زراعت کے تما م اصولوں کی پابندی کریں، خوب محنت کریں لیکن فصل کی زندگی کا ہر لمحہ قدرت کی مہربانی کا محتاج رہتا ہے، یہ کوئی مل نہیں ہوتی کہ ایک طرف سے اسکریپ ڈالیں اور دوسری طرف سے بنا بنایا لوہا نکال لیں یا ایک طرف سے گنا ڈالیں اور تو دوسری طرف سے چینی کی بوری بھر لیں۔
یہ زراعت ہے جو موسم اور اﷲ تعالی کی مہربانی کے ساتھ قدم بقدم چلتی ہے۔ ذرا سی نامہربانی ہوئی کہ قدم اکھڑ گئے، کسی کارخانے کو آگ لگے تو انشورنس والے مدد کو آجاتے ہیں مگر فصل کی انشورنس نہیں ہوتی اس کی تباہی صرف اور صرف کاشتکار کو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ حکومت بڑا کمال یہ کرتی ہے کہ مالیہ یا آبیانہ معاف کر دیتی ہے اور اگر شاہ خرچی دکھائے تو مقروض کسانوں کو سود معاف کر دیتی ہے یا بلا سود قرض دینے کا اعلان کرتی ہے لیکن امداد نہیں، قرض اور جس کے پاس دو وقت کھانے کا نہ ہو وہ بلا سود قرض لینے کی ہمت کیسے کرے۔
زراعت کے شعبے کے ساتھ عجیب سلوک کیا جاتا ہے۔ اسمبلیوں میں اکثریت دیہی علاقوں سے منتخب نمائندوں کی ہوتی ہے مگر وہ ایسی مراعات کے پیچھے دوڑتے ہیں جن کی مدد سے وہ شہری بن سکیں۔ کوئی کارخانہ لگا سکیں، کسی بڑے شہر میں بنگلہ تعمیر کر سکیں اور بچوں کو اعلیٰ اسکولوں میں داخل کرا سکیں۔ جن دیہات سے ان کا تعلق ہوتا ہے ان کے لیے وہ صرف مشورے رکھتے ہیں۔
آسمان کی نا مہربانیوں کی وجہ سے جو آفت ٹڈی دل کی صورت میں نازل ہوئی ہے اور لاکھوں کاشتکاروں کی جو بربادی ہو چکی ہے جو بالکل اجڑ گئے ہیں اور خبروں کے مطابق جو اپنی مدد آپ کے تحت ان ٹڈیوں کو اڑانے کے لیے ڈھول بجا رہے ہیں اور اپنی اجڑی فصلوں کو دیکھ دیکھ کردھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں، ان کے لیے حکومت کیا کرتی ہے، کچھ بھی نہیں کرے گی ان کے نقصان کے ازالہ کے لیے کسی کے منہ سے کوئی کلمہ خیر بھی نہیں نکلا۔ ہمارے اوپر وہ لوگ مسلط ہیں جو عوام کو کچھ دینے کے موڈ میں کبھی بھی نہیں ہوتے بلکہ وہ صرف عوام سے ووٹ لینے کے چکر میں ہوتے ہیں۔
ہمارے اوپر ٹڈی دل طبقہ مسلط ہے جو اپنے ناپاک مفادات کے حصول کے لیے کبھی ایک جگہ بیٹھ کر کھاتا ہے تو کبھی اڑ کر دوسری جگہ پہنچ کر مزید کھانا شروع کر دیتا ہے، اس طبقے نے پاکستان کے وسائل کو چٹ کر لیا ہے اور عوام کو ڈھول بجانے پر لگایا ہو اہے۔ اصل میں ہمارے یہ ٹڈی دل ہیں جن کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور یہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے کبھی ایک شاخ پر اور کبھی دوسری شاخ پر بسیرا کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران اﷲ تبارک و تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی بھی نہیں مانگیں گے، فقیروں کی کمائی لٹ جانے کا کسی کو احساس ہو تو وہ خدا کے حضور حاضری بھی دے۔