Monday, 02 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Babu, Ho Jana Footpath Par

Babu, Ho Jana Footpath Par

مشہور محقق، ادیب، شاعر اور نقاد برادر سید ایاز محمود یوں تو سراہا کرتے ہیں اِن کالموں کو، مگر پچھلا کالم پڑھ کر اُنھوں نے بھلا چاہا کس کا؟ بچشمۂ خود، ملاحظہ فرما لیجے۔ یہ بھلے آدمی لکھتے ہیں کہ "ملک کے ایک ممتاز ادیب [مقیم کراچی] کا اللہ بھلا کرے کہ شارع فیصل پر چلتے چلتے ذہن میں ایک سوال آگیا۔ تاہم ہمارا ان کو مشورہ یہ ہوگا کہ شارعِ فیصل ایک تیز رفتار گزرگاہ ہے، یہاں چلتے ہوئے سارا دھیان گاڑیوں کی آمد و رفت پر ہونا چاہیے"۔

مشورہ صائب ہے۔ امید ہے کہ ملک کے ممتاز ادیب [مقیم کراچی] نے یہ مشورہ گرہ سے باندھ لیا ہوگا۔ ہم تو خیر اب اسلام آباد چلے آئے۔ مگر اللہ جانے آپ مانیں یا نہ مانیں کہ ہم بھی چلے ہوئے ہیں، (شارعِ فیصل پر)۔ پس ہمیں یاد ہے کہ پاپیادہ چلنے والوں کو ہمارے زمانے میں شارعِ فیصل پر دونوں طرف پیادہ رَو، میسر تھی تاکہ تیز رفتار گاڑیوں کی زد سے بچے رہیں۔ پیادہ رَو، کو اُردو سے پیدل ہوجانے کے بعد فٹ پاتھ، کہا جانے لگا اور اتنا کہا گیا کہ اُردو نے یہ لفظ قبول کرلیا۔ حتیٰ کہ مہدی ظہیر نے بندر روڈ پر چلنے والوں کو احمد رُشدی کی زبانی، سید ایاز محمود والا، مشورہ بھی دے ڈالا کہ "بندر روڈ سے کیماڑی، میری چلی رے گھوڑا گاڑی، بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر"۔ اکڑی گردن والے بابو، تو خیر فٹ پاتھ، پر نہیں ہوئے، گھوڑا گاڑی تلے آکر کچلے جانے کے ڈر سے ہمارے سروں پر سوار ہوگئے، مگر لفظ فٹ پاتھ، کو اُردو شاعری میں جو پزیرائی ملی اُس کی جھلک ہمیں بچوں کے لیے شاعری کرنے والے ایک معروف شاعر کی نظم میں بھی نظر آتی ہے:

یہ جو اونچا ہاتھی ہے
سب بچوں کا ساتھی ہے

بھالو ایک تماشا ہے
بازی گر فٹ پاتھی ہے

فٹ پاتھ، پر تماشا دکھانے والے، فٹ پاتھ، پر بیٹھ کر سودا بیچنے والے اور فٹ پاتھ، پر یوں ہی بے مقصد بیٹھے رہنے والے بھی اُردو ادب میں فُٹ پاتھیے، کہے گئے۔ اس کے باوجود فٹ پاتھ، کی جگہ ہمیں پیادہ رَو، کہنا ہی پسند آتا ہے۔ فٹ پاتھ؟ ہونہہ مائی فُٹ۔

خبر نہیں کہ اب کراچی کے پیادوں کو شارعِ فیصل پر کوئی پیادہ رَو، میسر ہے یا نہیں۔ سنا ہے تجاوزات اتنے بڑھ آئے ہیں کہ پیادہ رَو پر چلنے والے اب سڑک پر چڑھے چلے جا رہے ہیں۔ تجاوزات، کو ہمارے ذرائع ابلاغ ناجائز تجاوزات، لکھنے اور بولنے پر مُصر رہتے ہیں۔ شاید خبر نگاروں کو خبر نہیں کہ تجاوز، کا مطلب ہی انحراف، سرتابی، سرکشی، حد سے گزر جانا یعنی جائز حد سے بڑھ جانا اور ناجائز طور پر زمین ہتھیا لینا ہے۔ تجاوز کی جمع تجاوزات، ہے۔ یہ لفظ ہر جگہ کسی کی جگہ پر ناجائز قبضے کے معنے دیتا ہے۔ لہٰذا تجاوزات، کہہ دینا ہی اس عمل کے عدم جواز کے لیے کافی ہے۔ اس کے ساتھ ناجائز کا سابقہ لگانے سے زیادہ زور نہیں پڑے گا، البتہ شبہہ ہوسکتا ہے کہ شاید کچھ تجاوزات، جائز بھی ہوتے ہوں گے۔ اے خبر نگارو! خبردار ہوجاؤ کہ ناجائز تجاوزات، کہنا ایسا ہی ہے جیسے ناجائز چوری، یا ناجائز ڈکیتی، کہا جائے۔

بات پیادہ رَو، کی ہورہی تھی جو ہمارے نزدیک فٹ پاتھ، کے مقابلے میں ہلکا پھلکا، نازک، سُبک اور رَواں لفظ ہے، مگر رائج نہیں۔ کسی لفظ کو رواج دینے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے ذرائع ابلاغ اور معاشرے کے مؤثر افراد مسلسل، متواتر اور لگاتار استعمال کرتے رہیں۔ اُردو میں انگریزی الفاظ بھی تو آخر اسی ترکیب سے گھسیڑے گئے ہیں۔ اُردو اِصطلاحات کے اِستعمال کا اِستہزا کرنے والے "آلۂ مکبر الصوت" جیسے الفاظ ڈھونڈ ڈھانڈ کر لاتے ہیں اور نئی نسل کو ڈراتے ہیں۔ خدا جانے کس بدصَوت نے ایسا کریہہ الصوت ترجمہ تراشا؟

اُردو میں اس کی جگہ نہایت نفیس اور نازک لفظ بلند گو، موجود ہے، جو نہ صرف، Loud Speaker کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے، بلکہ لاؤڈ اسپیکر، کہنے کے مقابلے میں اس کا کہنا کہیں سہل ہے۔ بار بار بلند گو، بولنا شروع کردیجے، زبان پر آسانی سے چڑھ جائے گا۔ یہی معاملہ دُور نما، کا ہے۔ Televisionکے مقابلے میں دُور نما، آسانی سے لبوں پر رواں ہوسکتا ہے۔ بھارت میں اِسے دُور درشن، بولا جاتا ہے، جو اس عاجز کی نظر میں درست ترجمانی نہیں۔ درشن کا مطلب دیکھنا یا زیارت کرنا ہے۔ جب کہ آلۂ مذکور دیکھتا ہے نہ زیارت کرتا ہے۔ یہ تو دکھاتا اور زیارت کرواتا ہے۔ راجا مہدی علی خاں غالبؔ کے ایک مشہور اُردو شعر کا ہندی ترجمہ تراشتے ہوئے کہتے ہیں:

اُن کے درشن سے جو آ جاتی ہے مُکھ پر شوبھا
وہ سمجھتے ہیں کہ روگی کی دَیا اُتّم ہے

جس طرح قطب نما، قطبِ شمالی کا رُخ دکھاتا ہے اور مرغِ بادنُما، ہوا کا رُخ بتاتا ہے، اسی طرح دُور نُما، ہمیں دُور کا منظر دکھاتا ہے۔ دُور کی چیزیں قریب کرکے دیکھنے کے لیے آخر ہم دُوربین، بھی تو استعمال کرتے ہیں۔ بھلا دُوربین کی موجودگی میں کسی کو، Telescope استعمال کرنے کی کیا مار آئی ہوئی ہے۔ اُردو کے ترنم سے نامانوس انگریزی الفاظ کی جگہ سہل اور سلیس مترنم اُردو الفاظ لکھ کر اور بول کر دیکھیے۔ ایسی گفتگو سن کر اور ایسی تحریر پڑھ کر نہ صرف بولنے اور لکھنے والے کی شائستگی کا سکہ دل پر بیٹھ جاتا ہے بلکہ سننے اور پڑھنے والے کو بھی لطف و انبساط اور فرحت و نشاط کا احساس ہوتا ہے۔ جی خوش ہوجاتا ہے۔ طبیعت میں انقباض پیدا نہیں ہوتا۔ انقباض، قبض کی سی کیفیت کو کہتے ہیں، یعنی سکڑنے، بند ہوجانے اور گھٹن محسوس ہونے کی بے کیفی کو۔

پیادہ رَو، کی ترکیب ہمارے لیے نامانوس نہیں ہے۔ جن دو الفاظ کا یہ مرکب ہے اُن دونوں سے سب مانوس ہیں۔ پیادہ، پیدل کو کہتے ہیں، جو سوار کی ضد ہے۔ شطرنج کے سب سے چھوٹے مُہرے کو بھی پیادہ، کہتے ہیں۔ یہ بے چارہ، اختیارات سے پیدل مُہرہ بالعموم صرف ایک قدم چل سکتا ہے۔ پا پیادہ یا پیادہ پا کا مطلب بھی پاؤں پاؤں چلنا ہے۔ کسی زمانے میں برصغیر کے مخلص مسلمان پاپیادہ حج، بھی کیا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پوری ملّتِ اسلامیہ ایک خلافتِ عثمانیہ کی ماتحت تھی، ویزا پاسپورٹ کی اڑچن نہیں تھی۔

رَو، جب مرکبات میں آتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے رَوِندہ، یعنی چلنے والا۔ جیسے راہ رَو، راستہ چلنے والا۔ پیش رَو، آگے آگے چلنے والا اور سُبک رَو، نرم چال چلنے والا۔ وطن عزیز کی ایک مشہور ریل گاڑی کا نام تیزرَو، رکھا گیا۔ مسافروں کا مطالبہ ہے کہ اس سواری کا نام بدل کر سست رَو، رکھ دیا جائے تو اسم با مُسمّیٰ بلکہ اسم با مُسمّاۃ، ہوجائے گی۔ مرزا جی کا مشہور شعر ہے:

چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اِک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

رَو کے خاندان کا ایک لفظ رَوِش، بھی ہے۔ رَوِش، چال اور طرزِ خرام کو کہتے ہیں اور چلنے کی جگہ، راستے یا باغ کی پگ ڈنڈی کو بھی۔ عبدالعزیز خالدؔ خزاں رسیدہ چمن کا منظر کھینچتے ہوئے کہتے ہیں:

سُبوئے شام میں ڈھلنے لگی شرابِ شفق
رَوِش رَوِش پہ پراگندہ ریزہ ریزہ ورق

یہاں ورق، سے مراد پتے ہیں اور پراگندہ، کا مطلب ہے منتشر۔ رَوِش، کے مخفف کے طور پر بھی رَو، استعمال کیا جاتا ہے۔ گویا پیادہ رَو، دراصل پیادہ رَوِش، کا مخفف ہے۔ مطلب ہوا: پیدل چلنے کا راستہ۔ ایک مزے کی بات یاد آئی۔ سائیکل پر پیدل منزلیں مارتے ہوئے ہم بار بار جو پیڈل، مارتے ہیں، اہلِ ایران اُسے پِدال، کہتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عرب اور ایرانی ہر نئے لفظ کو اپنی زبان کے ترنم سے ہم آہنگ کرلیتے ہیں۔ ہم ایسا کرنا چاہیں تو ابلاغیات کی گھوڑا گاڑی چلانے والے کوچوان ہم سے کہتے ہیں کہ بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر۔