آج ایک ادیبِ لبیب ہم ہی سے پوچھ بیٹھے کہ "حضرت! یہ بتائیے، کون سا فقرہ درست ہے؟ بلبل چہکتی ہے یا بلبل چہکتا ہے؟"
ہم نے اپنا ہی سر پیٹ لیا۔ اُف! اس سوال نے اب تک ہمارا پیچھا نہ چھوڑا؟ خیر، اُن حضرت سے تو یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ "جناب! بلبل چہکتا ہے نہ بلبل چہکتی ہے۔ بلبل تو چہکے ہے! "
مگر اصل میں یہ سوال سنتے ہی ہمیں اپنی وہ تحریر یاد آگئی تھی جس پر اُستادِ محترم اطہرؔ ہاشمی مرحوم بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے تھے۔ آپ پوچھیں گے "کون سی تحریر؟" تو یہ لیجے، پڑھ لیجے:
یہ قصہ ہمیں ایک دوست نے سنایا۔ ہمارے یہ پُرتجسس دوست ہر وقت، ہر اُردو لفظ کی جنس جاننے کی ٹوہ میں رہتے ہیں۔ ایسے جنس پرستوں، کا جو انجام ہوتا ہے، سو اُن کا بھی ہوا۔ اُنھیں اس شوق کی سزا ملی اور کیا خوب ملی۔ اس سزا کی تفصیل خود اُنھیں کی زبانی سنیے:
اُردو کے ایک پروفیسر صاحب کی بابت سُنا تھا کہ کوئی شخص اُن سے کوئی سوال کربیٹھیے تو موصوف اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک پوری تفصیل اور مکمل تحقیق کے ساتھ اُس سوال کا درست جواب فراہم نہ کردیں، سائل کی مکمل تسلی نہ کردیں اور سائل کی تسلی و تشفی سے خود اُنھیں بھی تسلی نہ ہوجائے۔ تو صاحب! اِس عاجز نے یہ بات سُن تو رکھی تھی، مگر خود کبھی اس کا تجربہ نہیں کیا تھا۔ ایک روز یہ بھی ہوگیا۔
ہوا یوں کہ اُس دن میں ایک کتب خانے میں بیٹھا ایک کتاب کا مطالعہ کررہا تھا۔ اتفاق سے پروفیسر صاحب بھی وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ غالباً کوئی تحقیقی مقالہ تحریر کرنے میں مصروف ہوں گے۔ پڑھتے پڑھتے میرے ذہن میں ایک سوال اُٹھا۔ میں نے موقع غنیمت جان کر وہ سوال پروفیسر صاحب سے کرلیا: "سر! یہ فرمائیے کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث؟"
سر نے بے حد مصروف ہونے کے باوجود اپنے کام کی طرف سے نظر ہٹائی۔ میری جانب توجہ فرمائی۔ تھوڑی دیر تک قلم دانتوں تلے داب کر کچھ سوچا کیے، پھر فیصلہ کُن انداز میں فرمایا: "میاں! بلبل مذکر ہے! "
میں نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور مطمئن ہوکر مطالعے میں منہمک ہوگیا۔
اس وقوعے کے چند روز بعد کا ذکر ہے۔ ایک شام میرے دروازے پر دستک ہوئی۔ گھر میں کچھ مہمان بیٹھے ہوئے تھے۔ میں اُن سے معذرت کرکے باہر گیا۔ باہر نکلا تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ پروفیسر صاحب دروازے پر کھڑے ہیں۔ اُنھیں یہاں دیکھ کر حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہوا کہ مہمانوں کی موجودگی میں پروفیسر صاحب کو کہاں بٹھاؤں گا؟ خیر، میں نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا:
"پروفیسر صاحب! خیر تو ہے؟ آپ؟ میرے غریب خانے پر؟ اور اس وقت؟ ذرا ایک منٹ ٹھیریے، میں آپ کے لیے بیٹھنے کا بندو بست کرلوں"۔
"نہیں، نہیں۔ اس تکلف کی ضرورت نہیں۔ میں تو صرف یہ کہنے آیا تھا کہ اُس روز آپ نے دریافت فرمایا تھا کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث؟ اور میں نے آپ کو بتایا تھا کہ بلبل مذکر ہے۔ لیکن آج ہی مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کا یہ مصرع نظر سے گزرا:
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہوگئیں۔
غالبؔ کا شمار اہلِ زبان اور مستند شعرا میں ہوتا ہے۔ اِس مصرعے کی رُو سے بلبل مؤنث ہے۔ پس آج سے بلبل کو مؤنث جانیے"۔
میرا سر اُن کے احسان کے بوجھ سے جھک گیا۔ میں نے اُن کے خلوص و محبت کا تہِ دل سے شکریہ ادا کیا۔ بے چارے صرف تصحیح کرنے کی غرض سے اتنی دُور سے میرے گھر تشریف لائے۔ میں ان سے بہت متاثر ہوا۔ اُن کا اندازِ کلام دیکھ کرمجھے یہ شعر بھی یاد آیا:
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اُردو بول سکتے ہیں
اس واقعے کو ابھی ہفتہ بھر ہی گزرا ہوگا کہ ایک روز علی الصباح میرے گھر کے چوبی دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی۔ میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ آنکھیں ملتا ہوا باہر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب ٹوپی اوڑھے کھڑے مُسکرا رہے ہیں۔ جلدی سے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول کر اُنھیں اندر بٹھایا۔ بیگم سے چائے بنانے کو کہا اور اُن سے صبح صبح تشریف آوری کا سبب پوچھا۔ پروفیسر صاحب نے فرمایا:
"میاں چند روز قبل میں نے آپ کو بتایا تھا کہ غالبؔ کے مصرعے کی رُو سے بلبل مؤنث ہے۔ لیکن آج ہی نمازِ فجر سے قبل میں نے ایک شعر کی تلاش میں "بانگِ درا" کی ورق گردانی کی تو اس شعر پر نظر پڑگئی:
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا
علامہ اقبالؔ شاعرِمشرق، مصورِ پاکستان اور حکیم الامت ہیں۔ ہمارے لیے اُن سے زیادہ مستند بات کس کی ہوسکتی ہے؟ لہٰذا علامہ مرحوم کے اس شعر کی روشنی میں آپ بلبل کو مذکر ہی گردانیے"۔
میں نے ایک بار پھر اُن کا شکریہ ادا کیا اور اُن کے جانے کے بعد اللہ کا شکر بھی ادا کیا کہ چلو اِس کم بخت (مخنث) بلبل سے اب توجان چھوٹی۔ مگر، یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے! ۔
ابھی بلبل کو دوبارہ مذکربنے دوہی ہفتے گزرے ہوں گے کہ ایک رات جب میں ٹیلی وژن پر ایک دھواں دھار، دلچسپ اور مار دھاڑ سے بھر پور سیاسی مباحثہ، مکالمہ اور مقابلہ دیکھنے میں مگن تھا، دروازے پر دستک ہوئی۔ بادلِ نخواستہ باہر نکل کر دیکھا تو پروفیسر صاحب ایک بار پھر کھڑے تھے۔ اُن سے کچھ ہی فاصلے پر ایک شخص ایک گدھے کی لگام تھامے مجھے دیکھ رہا تھا۔ گدھے کی پیٹھ پر، دونوں طرف لٹکی ہوئی، بہت سی کتابیں لدی تھیں۔ آج پروفیسر صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ بھی رقص کررہی تھی۔ میں نے تعجب سے پوچھا:
"پروفیسر صاحب! یہ کیا؟"
پروفیسر صاحب اُسی فاتحانہ مسکراہٹ سے گویا ہوئے:
"میاں اُس روز آپ کے گھر سے اپنے گھرجاکر میں نے سوچا کہ غالبؔ بھی بڑے شاعر ہیں اور اقبالؔ بھی۔ چناں چہ میں نے آپ کے سوال پر پھر تحقیق شروع کردی۔ بہت سی کتابوں سے استفادہ کیا۔ سو، میں نے بڑی محنت سے آپ کے لیے یہ کتب جمع کی ہیں۔ اِس گدھے پر دائیں جانب جو کتابیں لدی ہوئی ہیں اُن کی رُو سے بلبل مذکر ہے۔ جب کہ بائیں جانب لدی ہوئی کتابوں کے مطابق بلبل مؤنث ہے۔ یہ کتابیں اُتروا لیجیے۔ ان کا مطالعہ کیجیے۔ آپ جس رائے سے اتفاق کریں گے اُس پر آپ سے گفتگو رہے گی۔ کتابوں کی واپسی کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ اطمینان سے پڑھ کر واپس کیجیے گا۔ ہاں اِس گدھے والے کو کرایہ عنایت فرما دیجیے گا۔ اب میں چلتاہوں"۔
پروفیسر صاحب تو چلتے بنے۔ مگر میرا سر چکرانے لگا۔ میں وہیں اپنے سرِ عزیز کو تھام کر بیٹھ گیا اور اُس وقت کو کوسنے لگا جب میں نے پروفیسر صاحب سے دریافت کیا تھا: "سر! یہ فرمائیے کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث؟"
قارئینِ کرام! ہم نے بھی بڑی تحقیق کی، مگر فیصلہ نہ کرپائے کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث۔ البتہ ہمارا محتاط خیال ہے کہ بنی نوعِ بُلبُلاں کے مرد مذکر ہوتے ہوں گے اور ان کی خواتین مؤنث ہوتی ہوں گی، تاکہ اُن کی نسل اور یہ بحث تا قیامت چلتی رہے۔