ہمارے ملک میں انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے استحصال کا سلسلہ تو ایک روایت بن چکا ہے، گھریلو تنازعات، لڑائی جھگڑوں، غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں کے بڑھتے واقعات، راہزنی و ڈکیتیوں کے دوران بلا سبب بے رحمانہ قتل کی وارداتیں، ہارن بجانے پر راستہ نہ دینے کے سبب جان سے مار دینا اور ان جیسے دیگر جرائم کی وارداتوں میں بڑا دخل قانون سے بے خوفی اور لاعلمی کا بھی ہے۔
ڈرائیورز اپنی گاڑیوں کے پیچھے تحریر کرتے ہیں کہ "ہارن دو راستہ لو" ڈرائیوروں میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ ہارن دینے پر اس کا حق بن جاتا ہے کہ اسے فوراً راستہ دے دیا جائے۔ اگر ڈرائیوروں سے صرف یہ سوال ہی پوچھ لیا جائے کہ ہارن بجانے کا مقصد کیا ہوتا ہے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ نوے فیصد ڈرائیورز اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے، باقی ٹریفک قوانین سے آگہی تو دور کی بات ہے۔
انھیں سفارشوں اور رشوتوں کے عوض باآسانی ڈرائیونگ لائسنس مل جاتے ہیں اور کسی حادثے کی صورت میں فوری ضمانت اور پھر بریت بھی مل جاتی ہے۔ یہی حال دیگر جرائم کی وارداتوں میں انسانی زندگیوں اور املاک سے کھیلنے والے قانون شکنوں کے ساتھ پیش آتا ہے۔ یہ مجرم استغاثہ کی غلطیوں، ملی بھگت یا گواہوں کے خوفزدہ کیے جانے کے بعد صاف بچ نکلتے ہیں۔
ہمارے ہاں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں سے بھی بڑے پیمانے پر ظالمانہ و بے رحمانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے جس میں روز افزوں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ گاؤں، دیہاتوں سے لے کر شہروں کی شاہراہوں تک اس کے مظاہرے عام دیکھنے میں ملتے ہیں۔ جانوروں کی خوفناک لڑائیاں ہار جانے پر جانوروں اور پرندوں کو مار دینا، شکاریوں کے ہاتھوں نایاب نسل کے پرندوں اور جانوروں کا شکار اور ان کی غیر قانونی اسمگلنگ، چڑیا گھروں میں پرندوں اور جانوروں کی غیر فطری اموات، اس سلسلے میں شیروں کی ہلاکت سے متعلق ایک مقدمہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے حالانکہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے متعدد قوانین اور ادارے قائم ہیں گزشتہ چند برسوں سے مذہب کے نام پر ایک نئی ریت یہ پڑ رہی ہے کہ قربانی کے جانوروں کو مکانوں کی بالائی منزل پر رکھا جاتا ہے اور پھر عین عید کے موقع پر انھیں بڑے فاتحانہ انداز میں میڈیا اور عوام کے جم غفیر کی موجودگی میں کرینوں کے ذریعے اتارا جاتا ہے۔
جانوروں کا نگہبان بھی ان جانوروں کی پشت پر سوار ہوکر نیچے اترتا ہے۔ اس قسم کے مناظر گزشتہ کئی سالوں سے ساری دنیا اور حیوانوں کے حقوق سے متعلق ادارے، این جی اوز، علما کرام تک دیکھتے آ رہے ہیں۔ لیکن ان کرتب بازیوں پر کسی جانب سے کارروائی یا آواز بلند ہوتے نظر نہیں آئی، اس عید پر بھی کراچی میں ایک بیل کو کرین کے ذریعے اتارنے کی کرتب بازی کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا کہ بیل کرین کے ہینگر سے سلپ ہو جانے کے باعث بلندی سے گر کر مر گیا۔ شکر ہے اس مرتبہ اس بیل کا رکھوالا اس کی پشت پر سوار نہیں تھا ورنہ دو اموات واقع ہو جاتیں۔ بیل کی ہلاکت کا دردناک منظر میڈیا کے ذریعے ساری دنیا نے دیکھا لیکن اس واقعہ پر کوئی کارروائی یا ایف آئی آر تاحال دیکھنے میں نہیں آئی ہے حالانکہ جانوروں کے تحفظ سے متعلق قوانین اور ادارے دونوں موجود ہیں۔
جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے The Pak prevention of cruelty to Animal Act میں کہا گیا ہے کہ:
if any person carries or consign for carriage any animal in such manner or position as to subject to unnecessary pain or suffer or other ill treatment shall be punished with five years imprisonment
2018 میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے ایک ترمیمی بل The Prevention of Cruelty to Animal (Amendment) Bill 2018 پاس کیا تھا جس میں جانور کو مارنے پر 3 لاکھ روپے، ان پر بھاری سامان لادنے پر 2 لاکھ روپے، جانوروں کو لڑانے پر 3 لاکھ روپے اور بیمار جانور کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے پر 2 لاکھ روپے جرمانے اور ان کی سزاؤں میں اضافہ کیا گیا تھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے قوانین الماریوں کی زینت بنے رہتے ہیں، متعلقہ ادارے ان کا اطلاق نہیں کرتے۔ قانون کے تحت بالائی چھتوں پر جانور رکھنے اور انھیں کرینوں کے ذریعے اتارنے کے عمل میں شریک تمام افراد اس حادثے کے مرتکب و مجرم ہیں۔ جنھیں قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ اس قسم کی کرتب بازیاں کرنے والے دیگر افراد بھی عبرت پکڑیں اور مستقبل میں اس طرح کے حادثات سے بچا جاسکے۔
قربانی کے جانوروں کا استحصال نمود و نمائش اور فخرکے ساتھ کیا جاتا ہے، انھیں مصنوعی غذاؤں، ادویات اور انجکشن دے کر تیار کیا جاتا ہے۔ قالینوں اور تختوں پر سجا کر بٹھایا جاتا ہے۔ غیر فطری غذاؤں اور غیر فطری ماحول میں پالنا جانوروں کے ساتھ ظلم ہے، چار ہزار سال سے جاری سنت ابراہیمی کی پیروی میں کی جانے والی قربانیوں کی تاریخ میں شاید کہیں بھی قربانی کے جانوروں کی یہ درگت بنانے کا سلسلہ نہیں پایا جاتا ہوگا جو ہمارے ہاں مروج ہوتا جا رہا ہے۔ گلیاں راستہ بند کردینا، جانوروں کی دوڑیں لگوانا، اناڑیوں کے ہاتھوں ان کی بے رحمانہ ذبیح، علاقوں میں غلاظتیں پھیلا دینا بڑا تکلیف دہ اور غیر اسلامی عمل ہے، اگر متعلقہ ادارے، ارباب اختیار، این جی اوز اور علما نے اپنا کردار ادا نہیں کیا تو یہ اجتماعی بے رحمانہ رویہ اور بے حسی کی صورتحال اختیار کرلے گی اور آنے والی نسل قربانی کے فریضے، فلسفہ اور روح سے یکسر ناآشنا اور لاتعلق ہوکر ان خرافات کو دین کا حصہ بنا بیٹھے گی۔