آپ اگر کرپشن، لوٹ مار، دھوکہ دہی، فراڈ، حق تلفی اور شارٹ کٹ کی مدد سے راتوں رات امیر بننے والوں اقتدارواختیار حاصل کرنے والوں کوکامیاب اورخوش نصیب سمجھتے ہیں تو آپ سرا سر غلطی پر ہیں بغیر محنت، ایمانداری، دیانت داری کے امیری، اقتدار و اختیار کبھی بھی کسی کوکوئی خوشی، اطمینان و سکون نہیں دے سکتا، کیونکہ ایسی کامیابی اور خوش نصیبی مصنوعی ہوتی ہے اور مصنوعی چیزیں نہ تو خوشیاں دے سکتی ہیں اور نہ ہی سکون۔
ایسی مصنوعی کامیابی اور مصنوعی خوشی حاصل کرنے والے ناکام اور بد قسمت انسان ہوتے ہیں اور ناکامی اور بد نصیبی ان کا ان کی قبروں تک پیچھا کرتی رہتی ہے اور یہ بھی کہ وہ ان کا لٹا بچا کچا سکون، خوشیاں اور صحت لوٹ لیتی ہیں۔
آپ اورکچھ نہ کریں صرف ملک میں چاروں طرف مصنوعی کامیابی اورخوش نصیبی حاصل کرنے والوں کا حشر نشر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ان کی بے سکونی اور اذیتوں کو محسوس کرلیں تو آپ بھی اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ مصنوعی کامیابی اور مصنوعی خوش نصیبی بے سکونی اور اذیتوں کے سوا اورکچھ نہیں ہے۔
ہر زمانے کے عظیم ترین ڈرامہ نویس جارج بر نارڈ شا نے تقریباً ایک صدی پہلے لکھا تھا "میں چاہتاہوں کہ جب میں مروں تو پوری طرح استعمال ہوچکا ہوں کیونکہ میں جتنی زیادہ محنت کرتا ہوں میری زندگی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے"، مشہور سروے کنندگان جارج گیلپ اور ایلک گیلپ نے صحافی ولیم پروکٹرکے ساتھ مل کر ان لوگوں سے انٹرویو کیے جن کے نام Who’s who in America میں شامل ہیں، انھوں نے اس سروے پر مجموعی طورپر ایک ہزار گھنٹے صرف کیے، انھوں نے جن لوگوں سے انٹرویو کیے، انھیں کاروبار، سائنس، فنون، ادب، تعلیم، مذہب، ملٹری وغیرہ جیسے شعبوں کے کامیاب ترین افراد تسلیم کیا جاتا ہے۔ گیلپ برادرز اور پروکٹر نے ان انٹرویوزکے نتائج پر مشتمل ایک کتاب شائع کی جس کانام ہے The Great American Success Story۔
انٹرویو میں شامل سوالات خاندانی پس منظر، تعلیم، شخصیت، دلچپسیوں، اہلیتوں، مذہبی عقائد اورشخصی اقدار سے متعلق تھے۔ ان محققین کا مقصد یہ جاننا تھا کہ ان سب اعلیٰ ترین کارنامے انجام دینے والوں میں مشترک خصوصیت کیا ہے، اگر چہ لوگوں نے مختلف شعبوں کے حوالے سے مختلف جواب دیے لیکن سب میں ایک خصوصیت مشترک نکلی اور وہ یہ تھی کہ وہ دیر تک سخت محنت کرنے پر آمادہ تھے، ان سب نے بتایا کہ کامیابی انھیں قسمت سے یا اتفاقاً نہیں ملی انھوں نے سخت ترین محنت اور نہایت مضبوط عزم کے ذریعے اسے حاصل کیا ہے ان لوگوں نے شارٹ کٹ ڈھونڈنے اور محنت سے جی چرانے کے بجائے دل لگا کر کام کیا محنت کو کا میابی کے حصول کے عمل کاایک لازمی جزو سمجھ کر قبول کیا ان سب کا موقف تھاکہ حقیقی کامیابی ان کو ملتی ہے جو اس کے حق دار ہوتے ہیں ان سب نے بھی کامیابی کی قیمت ادا کی تھی۔
اس سروے کا ایک اور مقصد یہ جاننا تھا کہ "کون کامیاب ہوسکتا ہے" محققین نے جمع شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذکیا کہ "ہرشخص کامیاب ہوسکتا ہے" محققین لکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی تحقیق کے نتیجے کے میں کوئی چونکا دینے والی بات دریافت نہیں کی بلکہ انھوں نے اس قدیمی مقولے کی توثیق کرنے والے حقائق یکجا کیے ہیں کہ "محنت اور عزم انسان کوکامیابی عطا کرتے ہیں" عظیم امریکی صنعت کار آمنڈ ہیمر نے جوکہ 1990میں 92 سال کی عمر میں فوت ہوا، اس نے کہا تھا "میں اپنے کام سے محبت کرتا ہوں میں کام شروع کرنے کے لیے کل کا انتظار نہیں کرتا، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نئے آئیڈیازکے بغیر نیند سے جاگا ہوں، میرے لیے ہرچیزایک چیلنج ہے۔ "
لن یوتانگ نے یہ ہی بات اس طرح کہی تھی "دنیا میں سب سے زیادہ ناخوش وہ ہیں جو کچھ کرنا نہیں چاہتے، خوشی انھیں ملتی ہے جو اپنا کام بھرپور انداز میں انجام دیتے ہیں کیونکہ اس کے بعد آرام اور تازگی کا ایک نہایت خوبصورت وقت آتا ہے، سچی خوشی دن کا کام درست انداز میں انجام دینے سے حاصل ہوتی ہے" اگر آپ کامیاب اور خوش قسمت بننا چاہتے ہیں تو یہ سادہ سا فارمولا ہمیشہ یاد رکھیں کہ درست انتخاب۔ اچھی عادت، کامیابی، اطمینان وسکون، لیکن اگر آپ ان تمام باتوں کو بیکار، لغو، غلط تصورکرتے ہیں اور آپ کرپشن، لوٹ مار، دھوکہ دہی، فراڈ، حق تلفی اور شارٹ کٹ کی مدد سے راتوں رات امیروکبیر اور اقتدارواختیار حاصل کرنے کو درست راستہ تصورکرتے ہیں تو آپ ہرگز یہ راستہ اپنانے میں دیر نہ کیجیے اور امیر وکبیر اور با اختیار بننے کا شوق پورا کرلیجیے اور پھر تھوڑے ہی عرصے بعد جب آپ شدید پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا کررہے ہوں گے اور آپ کے دن رات اذیتوں اور بے سکونی میں گذر رہے ہوں گے تو اس وقت آپ کو ہماری یاد بہت ستائے گی لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی اور یہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ گذرا وقت کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا ہے۔ ایلن لیکائن نے کہا تھا "وقت زندگی ہے یہ جا کر واپس نہیں آتا، وقت ضایع کرنا زندگی کو ضایع کرنا ہے۔ "