رابرٹ فراسٹ کہتا ہے " ایک جنگل میں دو راستے نکلتے تھے، میں نے اس کا انتخاب کیا جو بہت کم استعمال ہوا تھا اور اسی نے فرق پیدا کیا " ہر فرد اپنی زندگی میں ان دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرتا ہے چاہے وہ بوڑھا ہو یا جوان، امیر ہو یا غریب، مرد ہو یا عورت، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس کا انتخاب ان باتوں سے مشروط نہیں۔ ایک راستہ خوب کشادہ اور مانوس یعنی عام لوگوں کی طرف سے خوب استعمال کیا گیا ہے، اس کی منزل معمولی اور بے معنیٰ ہے۔
دوسرا راستہ ذرا مختلف ہے اسے بہت کم لوگوں نے استعمال کیا ہے جو عظمت اور معنویت کی طرف لے جاتا ہے ہم میں سے ہر ایک کے اندر گہرائی میں ایک داخلی خواہش پائی جاتی ہے کہ عظمت اور بھرپور کردار کی زندگی گذاری جائے جو واقعی اہم ہو اور جو واقعی ایک فرق رکھتی ہو ممکن ہے ایسا کرسکنے کے بارے میں ہم اپنے آپ کے لیے اور اپنی صلاحیتوں کے لیے شک و شبہ میں گرفتار ہوں لیکن میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آپ ایسی زندگی گذار سکتے ہیں، آپ ایسا کرسکتے ہیں۔
دنیا کے عظیم ادیب و نفسیات دان اسٹیفن، آر۔ کووے لکھتے ہیں۔" میں ایک دفعہ ایک ملٹری بیس کے کمانڈر سے ملنے کے لیے گیا تھا، جو اپنے ادارے میں زبردست کلچرل تبدیلی لانے کی پرزور خواہش رکھتا تھا، اس کی سروس تیس سال سے زیادہ ہوچکی تھی اب وہ فل کرنل تھا اور اسی سال ریٹائر ہونے والا تھا۔ اپنے ادارے کو کئی ماہ تک تربیت دینے کے بعد اس نے مجھے مشورہ کے لیے بلایا تھا۔
میں نے اس سے پوچھا کہ آخر وہ کیوں یہ قدم اٹھانا چاہتا ہے یہ اقدام بہت بڑا ہے یہ عمل روایت، تساہل، بے اعتنائی اور اعتماد کے فقدان جیسی طاقتور مزاحمتی لہروں کے خلاف تیرنے کا تقاضا کرتا ہے اور پھر اب تم ریٹائر ہونے والے ہو، پرسکون رہو، ریٹائرمنٹ کے مرحلے سے آرام سے گذرو، تمہارے اعزاز میں ایوارڈ بینکوئیٹ منعقد کیا جائے گا۔ تمہارے دوست اور خیر خواہ تمہار ی تعریف و توصیف کرنا چاہیں گے تم کیوں اس جھنجھٹ میں پڑتے ہو۔" اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھا گئی۔
ایک طویل وقفے کے بعد اس نے مجھے ایک انتہائی ذاتی اور قابل احترام واقعہ سنانے کا فیصلہ کیا، اس نے بتایا کہ میرے والد کی وفات حال ہی میں ہوئی ہے، جب وہ بستر مرگ پر تھا تو اس نے مجھے اور میری ماں کو "خدا حافظ " کہنے کے لیے بلایا، اس کے لیے بولنا بہت مشکل تھا۔ میری ماں مسلسل رو رہی تھی، میں اپنے والد کے قریب ہوگیا، اس نے سرگوشی جیسی آواز میں مجھے مخاطب کرکے کہا "بیٹے زندگی اس طرح مت گذارنا، جیسے میں نے گذاری ہے، میں نے تمہارے اور تمہاری ماں کے ساتھ ٹھیک نہیں کیا، تمہاری زندگیوں میں کوئی فرق نہیں لا سکا۔
بیٹے مجھ سے وعدہ کرو کہ تم اس طرح زندگی نہیں گزارو گے جس طرح میں نے گذاری۔" یہ تھے وہ آخری الفاظ جو کرنل نے اپنے والد سے سنے۔ اس کے بعد وہ جلد ہی انتقال کرگیا لیکن یہ الفاظ کرنل کے دل و دماغ پر چپک کر رہ گئے، وہ انھیں اپنے والد کا عظیم ترین تحفہ اور ورثہ سمجھتا ہے۔ اس نے والد کی وفات کے روز ہی خود سے عہد کرلیا کہ و ہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں ایک فرق لائے گا۔ پہلے وہ چاہتا تھا کہ فوج کے اس ادارے میں اس کا جانشین اتنی اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے جتنی اس نے دکھائی ہے اور یہ سب پر اچھی طرح واضح ہوجائے لیکن والد کے بستر مرگ پہ ہونے والی گفتگو نے اس کا ذہن یکسر تبدیل کردیا ہے۔
اب وہ پورے عزم کے ساتھ چاہتا ہے کہ نہ صرف اپنی کمان میں دائمی لیڈر شپ کے اصول راسخ کرنے کے لیے تبدیلی کا عمل انگیز بنے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ اس کا جانشین اس سے بھی زیادہ کامیاب ہو اور اس کا ورثہ ایک قائدانہ نسل کے بعد دوسری کو منتقل ہونے کا سلسلہ چل پڑے۔ اس نے مزید بتایا کہ اپنے والد کے آخری الفاظ سننے تک اس نے ہمیشہ آسان راستہ اپنایا تھا اور ماضی کی روایات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک محافظ کا کردار ادا کرتا رہا ہوں۔ میں نے ایک معمولی اور عام قسم کی زندگی گذارنے کا انتخاب کر رکھا تھا لیکن اب اپنے والد کے ساتھ کیے گئے وعدے کے بعد اس نے عہد کر رکھا ہے کہ ماضی کے برعکس وہ ایک عظیم زندگی گذارے گا ایسی زندگی جو واقعی دوسروں کے کام آئے ایک زندگی جو با معنیٰ ہو جو واقعی ایک فرق پیدا کرے۔"
ہمارے ملک کے سیاسی قائدین کی اکثریت 60 سال کی عمر کی حد پار کر چکی ہے، ان سے قوم کو بہت امیدیں تھیں کہ وہ ان کی زندگیوں میں فرق پیدا کریں گے، ان کی زندگیوں میں آسانیاں لائیں گے اور دنیا کے دیگر لوگوں کی طر ح وہ بھی ایک خوشحال، کامیاب، عزت دار زندگی کے مالک بن سکیں گے لیکن بدقسمتی سے ان کی کوئی بھی امید پوری نہ ہوسکی اور زندگی میں فرق اور آسانی تو دور کی بات ان کی تو زندگی اور مشکل سے مشکل ہوتی چلی گئی۔
ہمارے کرتا دھرتاؤں نے ہمیشہ آسان راستہ اپنایا اور ماضی کی روایات کو آگے بڑھانے کے لیے محافظوں کا کردار ادا کرتے رہے، انھوں نے اپنے لیے ایک معمولی اور عام قسم کی زندگی گذارنے کا انتخاب کیا، دوسری طرف کروڑوں امیدیں ترستی آنکھوں سے ان کا انتظار کرتی رہیں کہ شاید کبھی انھیں ہمارا بھی خیال آجائے، لیکن انھیں اپنے علاوہ کبھی دوسروں کا خیال نہ آیا افریقی کہاوت ہے "جب کلہاڑا جنگل میں داخل ہوتا ہے تو درخت آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ دیکھو، اس کا دستہ ہم میں سے ہی ہے۔" ہمارے حکمران اور سیاست دانوں کے ذہن میں رہے کہ پاکستان کے 22 کروڑ انسانوں کی تمہارے بارے میں سرگوشیاں جنگل کے درختوں کی سرگوشیوں سے مختلف نہیں ہیں۔
تمہیں یہ بھی یاد رہے کہ جلد یا بدیر تم عمرکے اس حصے تک پہنچ جاؤگے کہ جب تم کچھ بھی نہ کرنے کے قابل ہوجاؤ گے اور پھر تم اگر چاہو گے بھی تو اس وقت تک اتنی دیر ہوچکی ہوگی کہ تمہارے پاس "کاش " کے علاوہ اور کچھ بھی نہ ہوگا لیکن ابھی تمہارے پاس وقت ہے کہ تم کچھ مختلف کرسکتے ہو، کروڑوں انسانوں کی زندگیوں میں فرق لاسکتے ہو انھیں یکسر تبدیل کرسکتے ہو ان گنت دعاؤں کے در اپنے لیے کھول سکتے ہو، اپنے آپ کو سرخرو کرسکتے ہو، اپنے آپ کو لا فانی بنا سکتے ہو، ابدی بنا سکتے ہو، ورنہ وہ دن اب دور نہیں ہے کہ تم بھی اپنے پیاروں سے سرگوشی میں کہہ رہے ہو۔" بیٹے زندگی اس طرح مت گذارنا جیسے میں نے گذاری ہے۔"