مسلسل غربت، فاقے، مصیبتیں، تکلیفیں، زیادتیاں، بیماریاں، بے بسی انسان کو مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں سے دوچارکر دیتی ہیں، ایسا انسان اپنے آپ سے ڈرنے لگتا ہے، مایوسی، خوف، بے اعتمادی ڈر اسے دبوچ لیتے ہیں، وہ اپنے ارد گرد کی چیزوں سے خوفزدہ رہنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی ہمت اس کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔
نوبل انعام یافتہ ادیب ارنسٹ ہیمنگو ے اپنے افسانے Post-Traumatic Stress Disorderمیں جنگ عظیم اول کے بعد زخمی فوجیوں اور بمباری میں زندہ بچ جانے والی سول آبادی میں اجتماعی سطح پر نفسیاتی بگاڑ کا مشاہدہ کیا ہے۔
اس عارضے کی شدت از حد خوفناک تھی اس خلل میں مبتلا افراد ماضی میں رونما ہونے والے حوادث کو دوبارہ پوری شدت کے ساتھ ہوتا ہوا محسوس کرتے اور پر امن حالات میں بمباری سے جان بچانے کے لیے چیختے اور چلاتے۔ نفسیات دانوں کے اعداد و شمار کے مطابق یہ نفسیاتی خلل زیادہ تر ان فوجیوں میں پیدا ہوا جو میدان جنگ میں زخمی ہوئے تھے یا دشمن کی قید کاٹ کر آئے تھے۔
ہیمنگو ے کی یہ کہانی ان چند افراد کا احاطہ کرتی ہے جو میدان جنگ سے تو نکل آئے تھے، لیکن ان کے بریدہ اعضاء انھیں بہت کچھ یاد دلانے اور محسوس کرنے کے لیے کافی تھے۔ ایسی صورت میں یہ افراد دل بہلاوے کے جتن کرتے ہوئے یک جا ہوکر قہوہ جانے جاتے اور ادھر ادھرکی باتوں سے ایک دوسرے کی توجہ ماضی سے ہٹاتے ہوئے دکھائی پڑتے ہیں۔ ان کا ہر عمل Post-Traumatic Stress Disorder سے بچنے کی شعوری کاوش بنتا چلا جاتا ہے۔
آپ نے جنگی پناہ گزینوں کی وہ ولولہ انگیز داستان توسنی ہوگی جو ایک نہایت مشکل راستے کے ذریعے فرار ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، چونکہ انھیں پیدل چلنا تھا اس لیے انھوں نے اس امر پر بہت زیادہ غورکیا کہ کیا وہ اپنے ساتھ ایک ماں اور اس کی چھوٹی بچی کو لے جاسکتے ہیں۔ بالاخر انھوں نے ماں اور اس کی بچی کو بھی ساتھ لے جانے کا فیصلہ کر لیا جسے ان میں شامل طاقتور مردوں نے اٹھانا تھا۔
مسلسل تین دن وہ نہایت ہی مشکل کے عالم میں چلتے رہے اور ان کا راستہ مزید دشوار سے دشوار ہوتا گیا، بالاخر ایک بوڑھے آدمی کی ہمت جواب دے گئی اور اس نے اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ وہ اسے یہیں مرنے دیں اور اپنا سفر جاری رکھیں شاید وہ اس طرح بچ سکیں۔ بادل نخواستہ اور افسوس کے عالم میں قافلہ آگے بڑھنے لگا لیکن پھر ماں نے اپنی ننھی بچی کو اٹھایا اور بوڑھے شخص کے پاس واپس چلی گئی۔
اس نے نہایت آہستگی کے ساتھ یہ بچی بوڑھے آدمی کے بانہوں پر رکھ دی اور نہایت سکون سے کہا " تم اس طرح اپنی ذمے داری سے دستبردار نہیں ہوسکتے اب میری بچی اٹھانے کی تمہاری باری ہے " پھر وہ ماں مڑی اور قافلے کے پیچھے روانہ ہوگئی تھوڑی دیر بعد انھوں نے جب پیچھے مڑکر دیکھا تو انھیں وہ بوڑھا شخص نظر آیا جو نہایت ثابت قدمی سے ان کے پیچھے آرہا تھا اور بچی اس کے بازوؤں میں نہایت آرام سے بیٹھی ہوئی تھی۔
اس دنیا کی تاریخ رقم کرنے والے جب ایک عظیم مورخ سے یہ پوچھا گیا کہ اس نے تاریخ عالم سے کیا سبق حاصل کیا تو اس نے محض یہ جواب دیا " جب بہت زیادہ اندھیرا ہو جاتا ہے تو پھر ستارے چمکنے لگتے ہیں۔ " یہ سچ اور حقیقت ہے کہ ہم بائیس کروڑ آج مایوسی، بے بسی، خوف، ڈر اور بے اعتمادی کے گھپ سیاہ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں، اتنے سیاہ اندھیروں میں کہ ہم ایک دوسروں کو بھی صحیح طریقے سے دیکھ نہیں پارہے ہیں اور خوشحالی، خوشیوں، سکون، اعتماد، ترقی، اختیار اور آزادی کی جانب جانے والا کوئی راستہ دکھائی دینے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور ستم تو یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی ستارے چمک نہیں رہے ہیں اور ظلم یہ ہے کہ ہمیں اندھیروں میں دھکیلنے والے خود روشنیوں سے کھیلتے پھررہے ہیں۔
اب اس صورتحال میں یا تو ہم سب کامیاب ہونگے یا پھر سب کے سب ناکام ہو جائیں گے۔ تیسری کوئی بھی صورت ہمارے لیے باقی نہیں بچی ہے۔ اب آپ اپنے آپ سے پوچھ لیجیے کہ ان دونوں صورتوں میں سے آپ اپنے لیے کونسی صورت پسند کر رہے ہیں۔ یاد رہے ہم سب کی کچھ ذمے داریاں اور فرائض ہیں، وہ تمام ذمے داریاں اور فرائض حسرت بھری نگاہوں سے ہمیں تک رہے ہیں۔ ذہن میں رہے ہم سب نجانے کتنوں کی امیدیں ہیں نجانے کتنوں کے خواب ہیں نجانے کتنی زندگیاں ہمیں پکار رہی ہیں، لہٰذا اب سوچ لوکہ کیا اس طرح ڈرکر خوفزدہ ہوکر مایوس ہو کر دبک کر بیٹھ کر اپنی اپنی ذمے داریوں اور فرائض سے دستبردار ہوسکتے ہیں۔
پومپی آئی کے سپاہی کا قصہ آپ نے کسی نہ کسی سے ضرور سنا ہوگا۔ آج سے دو ہزار سال قبل کوہ وسو ولس کی آتش فشانی سے پومپی آئی (اٹلی) کا سارا شہر راکھ کے نیچے دفن ہوگیا تھا لیکن اب یہ شہر اپنی عمارتوں، سڑکوں اور باشندوں سمیت منظر عام پر آگیا ہے۔
راکھ کے اس ہولناک طوفان میں ایک سپاہی نے جو فرض کا مظاہرہ کیا وہ لازوال ہے اس سپاہی نے موت کے ہنگامے کے باوجود پہرے سے ہٹنا گوارا نہ کیا اور جس مقام کی حفاظت کے لیے اسے مقررکیا گیا تھا، وہ وہاں سے ایک انچ نہ ہٹا وہ گندھک کے دھوئیں میں گھٹ کر مرگیا اور راکھ میں دفن ہوگیا لیکن اپنا فرض نبھاتا رہا وہ سپاہی خود اس کا نیزہ اور زرہ بکتر آج بھی نیپلز کے عجائب گھر میں موجود ہے۔
اب آپ ہی کہیے کیا آپ اس بوڑھے شخص اور اس سپاہی سے بھی گئے گزرے ہیں۔ کیا آپ اتنے بزدل، ڈرپوک اور موت سے ڈرے ہوئے ہوچکے ہیں کہ آپ اپنی ذمے داریوں اور فرائض سے بھاگے جارہے ہیں آپ کیوں ان سیاہ اورکالے اندھیروں میں بغیر آوازکے دبکے بیٹھے ہیں کیوں باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرتے، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ اندھیرے تمہارے اندر داخل ہوچکے ہیں۔
یاد رکھو، جلد ہی یہ اندھیرے تمہیں نگل لیں گے۔ یہ دکھ، غم، تکلیفیں کبھی کسی کو معاف نہیں کرتیں۔ یہ تیزاب کا کام کرتی ہیں۔ کوئی چھوٹا سا دیا جلا کر اپنے آپ کو دیکھ لو تم آہستہ آہستہ پگھل رہے ہو، گھل رہے ہو، تم اپنے آپ کو تھوڑا تھوڑا کرکے مار رہے ہو۔ یاد رکھو ایسی تباہی جسے صرف انسان شروع کرسکتا ہے انسان ہی اسے روک سکتا ہے۔
والڈو کہتا ہے " انسانی زندگی کے سب سے بڑے دشمن وحشی حقائق نہیں بلکہ وہ بزدل انسان ہیں جو حقائق کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ " ایسا وقت بھی ہوتا ہے جب ہم ناانصافیوں، زیادتیوں اور ظلم کو روکنے میں بے بس ہوتے ہیں مگر ایسا وقت کبھی نہیں ہونا چاہیے جب ہم احتجاج کرنے میں ناکام ہوں بے خواب راتوں کے بعد جب دن نکلتا ہے تو بھوت کو واپس جانا پڑتا ہے اور مرے ہوؤں کو اپنی قبروں میں لوٹ جانا پڑتا ہے۔
خلیل جبران نے کہا تھا " قابل رحم ہے وہ قوم جس کی آواز ماتمی جلوس کے سوا کبھی سنائی نہ دے جو اپنے کھنڈروں پر فخرکرتی ہو اور صرف اس وقت سنبھلنے اور ابھرنے کی کوشش کرے جب اس کا سر تن سے جد ا کرنے کے لیے تلوار اور لکڑی کے درمیان رکھا جا چکا ہو۔ "
آئیں ! مل کر ان اندھیروں کو سولی پہ چڑھا دیں۔ اپنے خوف، ڈر، بزدلی کو اپنے ہاتھوں سے مار دیں، کیونکہ ذمے داریاں اور فرائض انسانوں کا پیچھا کرتے ہیں، آپ اپنی ذمے داریوں اور فرائض سے فرار حاصل نہیں کرسکتے۔ اس سے پہلے کہ وقت گذر جائے اور آپ اپنے آپ سے شرمندہ اور شرمسار ہو رہے ہوں۔ اپنے آپ پر لعنت ملامت کررہے ہوں۔ آئیں! اپنے لیے خوشیوں، صحت مند زندگی، ترقی، خوشحالی، کامیابی کا راستہ خود بنالیں۔ آپ ذرا پیچھے مڑکر دیکھ لیں۔ ستارے نکل آئے ہیں اور پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہے ہیں اور وہ سب تمہارے اقدام کے منتظر ہیں۔