1847میں عظیم ٖفرانسسی شاعر بود لیئر نے لکھا تھا "اے وینس! تیر ے جزیرے میں مجھے بس ایک علامتی صلیب کھڑی ملی جس پر میری تصویر لٹکی ہوئی تھی، اے میر ے آقا مجھے اتنی قوت اور ہمت عطا فرما کہ میں اپنے دل اور اپنے جسم کا بغور مشاہدہ کرسکوں اور مجھے گھن نہ آئے" انسان کیا ہے! انسان کی تقدیر کیا ہے؟ ان دو سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی جیسی شدید پیاس آپ کو مالرو، سارتر، کامیو، سین تیگزو پری میں ملے گی۔
ویسے کسی فلسفی یا ماہر عمرانیات میں نظر نہیں آئے گی۔ بیسویں صدی میں ادیبوں کو دو کام کرنا پڑے ایک تو "آدمی" کی حقیقت کو بیان کرنا اور دوسر "انسان کی تعریف ڈھونڈنا" انھوں نے انسان کے تین تصورات پیش کیے۔
(1) سیاسی انسان، لارنس نے اس کو سماجی انسان کہا ہے اس قسم کے انسان کی داخلی زندگی اتنی اہم نہیں ہوتی جتنی خارجی زندگی۔ اس کی شخصیت اور عمل کا دارو مدار سماجی اور سیاسی نظام پر ہوتا ہے اگر سماجی نظام بدل دیا جائے تو انسان کو بھی اپنی مرضی کے مطابق بدلا جاسکتا ہے یہ تصور ایچ جی ویلز اور گالز وردی کے ہاں بھی ملتا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ اشتراکی حقیقت نگاروں کو یہاں بھی
(2) فطری انسان۔ یہ انسان ہر قسم کی سماجی اور اخلاقی بندشوں سے آزاد ہوکر فطری جبلت کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اور اس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ سماجی ذمے داریوں سے آزاد ہو کر انفرادی اور ذاتی تسکین حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔
(3) مکمل انسان۔ یہ وہ انسان ہے جس کی اندرونی زندگی خارجی زندگی سے زیادہ اہم ہے اور جس کے اندر کوئی تبدیلی صرف داخلی عمل کے ذریعے واقع ہوسکتی ہے۔ یہ انسان صلاحیتیں تو بہت سی رکھتا ہے لیکن اس میں خامیاں بھی اتنی ہیں کہ وہ مکمل کسی طرح بھی نہیں ہوسکتا۔ کم سے کم پورا سکون اور پوری خوشی کبھی حاصل نہیں کرسکتا۔ انسان کا یہ تصور جوئس کے یہاں ملتا ہے۔
جوئس یہ کہتا ہے کہ انسان مکمل بھی نہیں ہوگا اس کے لیے خارجی اور داخلی مسئلے پیدا ہوتے رہیں گے وہ انھیں حل کرے گا لیکن اس حل سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگا جسے ازسر نو کرنا پڑے گا۔ ایک طویل سو چ بچار کے بعد بیسویں صدی کے ادیب اس نتیجے پر پہنچے کہ "آدمی " کے تجربات کو چھوڑ کر "انسان" کی کوئی تعریف مقرر نہیں کی جاسکتی اور وہ انسان کے اندر چند متضاد کیفیتوں کی بیک وقت موجودگی کا اعتراف کرتے ہیں۔
(1) موت اور زندگی (2) تنہائی اور وینامے رشتہ (3) مجبور اور آزادی (4) خارجی وجود اور داخلی وجود تمام تر سچائیوں اور حقیقتوں کے باوجود آج ہم انسانی زندگی کے سب سے بنیادی مسئلے سے دو چار ہیں کہ ہم "آدمی" کے اندر سے "انسان" اخذ کرنے کی اہلیت اور طاقت رکھتے ہیں یا نہیں! اسی سوال کے جواب پر نسل انسانی کے مستقبل کا دارومدار ہے۔
آدمی سے پہلے لفظ وجود میں آئے۔ لفظ آدمی سے پرانے ہیں۔ الفاظ کو سمجھنے ان کے معنوں کو پہنچانے کے بعد اور ان پر عمل کرنے کے بعد "آدمی" سے "انسان" کا وجود عمل میں آتا ہے۔ لفظ شے نہیں ہوتے ان کا استعمال نیا ہوتا ہے۔ اگر آپ الفاظ کی گہرائی میں نہیں اتریں گے تو آپکا آدمی سے انسان تک کا سفر کبھی بھی طے نہیں ہوگا۔ سارا بگاڑ اور سارا جھگڑا لفظوں کو نہ سمجھنے ہی سے جنم لیتا ہے۔
مولانا رومی سے پوچھا گیا زہر کسے کہتے ہیں انھوں نے جواب دیا "ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زائد ہو وہ ہمارے لیے زہر ہے خواہ وہ قوت و اقتدار ہو دولت ہو بھوک ہو انایت ہو لالچ ہو سستی و کاہلی ہو محبت ہو نفرت ہو یا کچھ بھی" پوچھا گیا "خوف کس شے کا نام ہے" جواب ملا "غیر متوقع صورت حال کو قبول نہ کر نے کا نام خوف ہے اگر ہم غیر متوقع کو قبول کرلیں تو یہ ایک ایڈونچر ایک مہم جوئی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
"پھر پوچھا گیا" حسد کسے کہتے ہیں"۔ جواب ملا"دوسروں میں خیر اور خوبی کو تسلیم نہ کرنے کا نام حسد ہے" پوچھا غصہ "کس بلا کا نام ہے" جواب ملا "جو امور ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں ان کو تسلیم نہ کرنے کا نام غصہ ہے" پوچھا "نفرت کسے کہتے ہیں۔ "جواب ملا کہ" کسی شخص کو جیسا کہ وہ ہے تسلیم نہ کرنے کا نام نفرت ہے۔ "
اگر آج ہم اپنے سماج کی سوچ، فکر اور شعور کی بات کریں اور اپنے سماج کو درپیش مسائل کا تجربہ کریں تو ہم اس نتیجے پر با آسانی پہنچ جائیں گے کہ ہمارا اصل مسئلہ ہی جہالت ہے اور ہمارے تمام مسئلوں نے اسی کی وجہ سے جنم لیا ہے۔
یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے تمام مسئلوں کی ماں جہالت ہے ہم سالہا سال الفاظ کے سیدھے سادے معنوں اور سچائی کو نہیں سمجھ پارہے ہیں اور سالوں سے الفاظ کے ذریعے اپنا اور ایک دوسرے کا سر پھوڑ تے چلے آر ہے ہیں، الفاظ کے ذریعے اپنے آپ کو اور دوسروں کو زخمی کرتے چلے آرہے ہیں جو الفاظ کے اصل معنی ہیں ان کو تو ہم نے کبھی جاننے اور سمجھنے تک کی کوشش نہیں کی اور جو ان کے معنی ہیں ہی نہیں دن رات ان کی تشریح کرتے پھرتے ہیں۔
اسی لیے ہمارے سماج میں آدمیوں کا انسانوں تک کا سفر طے ہی نہیں ہوپا رہا ہے اور اسی وجہ سے ہمارے سماج میں ان گنت ہولناک، وحشت ناک اور دہشت ناک بیماریاں پھیل چکی ہیں نجانے کتنی ہی خرابیوں اور برائیوں نے ہمارے اسی شرمناک عمل سے جنم لیا ہے اور جنھیں ہم اپنے بچوں کی طرح پال پوس کر جوان کرچکے ہیں اس لیے کہ جب الفاظ کے معنی تبدیل کردیے جاتے ہیں تو لفظ ناراض ہوجاتے ہیں، غصے میں آجاتے ہیں اور جب وہ ناراض اور غصے میں آجاتے ہیں تو پھر وہ ہم سے انتقام لینے پر تل جاتے ہیں اور بگاڑ کو جنم دینا شروع کر دیتے ہیں۔ فلیس بروکس کہتا ہے "آنے والے سالوں میں کسی دن آپ اپنی زندگی کے بڑے غم تلے کراہ ر ہے ہوں گے یاکسی بڑی خواہش سے نبر دآزما ہو ر ہے ہونگے لیکن اصل جدو جہد کا وقت اب ہے۔
"اب" یہ طے ہونے کا وقت ہے کہ اس غم کی گھڑی میں یا خواہش کے پور ہونے کے وقت آپ مکمل طورپر فیل ہوجائیں گے یا کامیابی آ پکے قدم چومے گی کردار ایک مستقل اور لمبے عرصے کے بغیر تشکیل نہیں پاسکتا۔ " ہم سب کے کچھ خواب ہیں جنھیں ہم روز دیکھتے ہیں جنھیں ہم رو ز سو چتے ہیں ہم سب ایک خو شحال، کامیاب، خوشیوں سے بھری پر سکون، تمام خوف، تمام ڈر سے پاک اور محفوظ زندگی کے خواہش مند ہیں لیکن ہماری موجودہ زندگی، ہمارے موجودہ حالات ہمارے سوچی گئی اور خواہش کی گئی زندگی سے بالکل الٹ اور یکسر مختلف ہیں ہم سب جانتے ہیں کہ یہ زندگی ہمیں صرف ایک مرتبہ ہی جینے کو ملی ہے ہماری خواہشیں اور ہمارے خواب ہمیں صرف ایک بارہی دیکھنے اور انھیں پورا کرنے کو ملے ہیں۔
اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے خوابوں اور خواہشوں کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں یا ان کی عزت کرتے ہیں ہم انھیں حقیقت کا روپ دیتے ہیں یا پھر انھیں ڈراؤنی چڑیل کا روپ دے دیتے ہیں۔