ہم سب جس دولت، عہدوں اور مراتب کے لیے ساری زندگی مارے مارے پھرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں دھوکے دیتے ہیں، خوشامد اور چاپلوسی کرتے ہیں، کرپشن، لوٹ مار اور فراڈ کرتے ہیں اپنے ہی جیسے انسانوں کو روندتے اور کچلتے ہیں انھیں ذلیل و خوار کرتے ہیں۔
آئیں! ان چیزوں کی اصل حقیقت اور حیثیت کو جاننے کی کو شش کرتے ہیں اور ساتھ ہی میری آپ سے درخواست ہے کہ ہمارے وہ جاگیردار، سرمایہ دار بلڈرز جو 80 سال یا اس سے زائد عمر کو پہنچ چکے ہیں، ان سے کسی نہ کسی طرح ملاقات کرکے ان کے دل کا بھی حال احوال ضرور کرنے کی کوشش کیجیے گا تاکہ آپ کو بھی دولت، عہدوں، مراتب کی اصل حقیقت اور حیثیت سے ذاتی آگاہی حاصل ہوسکے۔
دو مرتبہ دنیا کی سپر پاور کا پرکشش ترین صدر رہنے والے بل کلنٹن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ " اگر آج میرے ہاتھ میں ہوکہ میں تیس سال کا ہوجاؤں اور بدلے میں مجھے امریکا کی صدارت کی قربانی دینی پڑے تو میں اس سودے کے لیے راضی ہوں۔ "
اسی دنیا اور اس کی چیزوں کے بارے میں حضرت فضیل بن عیاض ؒ اور خلیفہ ہارون الرشید کے درمیان مکالمہ ہوا تھا، خلیفہ ہارون الرشید حضرت فضیل ؒ کی خدمت میں اشرفیوں کے توڑے لے کر حاضر ہوا تھا تو فضیل بن عیاض ؒ نے پوچھا " خلیفہ المومنین اگر آپ صحرا میں پیاسے ہوں اور دم نکلنے کو ہو تو پانی کے چند قطروں کے عوض کیا دے سکتے ہیں۔ "
ہارون الرشید نے ترنت جواب دیا " اپنی آدھی سلطنت۔ " فضیل بن عیاض ؒ نے دوبارہ پوچھا " اگر پانی کے یہ قطرے اندر جاکر اودھم مچا دیں اور پیشاب باہر نہ نکلے تو اس تکلیف سے بچنے کے لیے کیا کر گذریں گے " ہارون الرشید نے فوراً جواب دیا " اپنی باقی ماندہ سلطنت " فضیل بن عیاض ؒ نے مسکراتے ہوئے کہا " خلیفۃ المسلمین آپ مجھے بھی اپنی اس سلطنت میں سے کیا دے سکتے ہیں جس کی قیمت پانی کے چند قطروں سے زیادہ نہیں ہے۔ "
عرب دنیا کے عظیم ترین مورخین میں سے ایک کا نام الیوسی ہے جس نے سترہویں صدی میں حکمرانی، فریب اور دغا جیسے کئی ایسے موضوعات پر بحث کی جن پر میکیا ولی بھی لکھ چکا تھا وہ لکھتا ہے " جب ابن ابی مہلی نے مراکش پر قبضہ کیا تو اس کے کچھ پرانے ساتھی اسے مبارکباد دینے اور خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچے لیکن جب وہ اس کے پاس کھڑے اسے ایک نئی سر زمین فتح کرنے پر مبارکباد دے رہے تھے تو ان میں شامل ایک شخص کچھ نہ بولا بلکہ چپ سادھے کھڑا رہا، جب سلطان نے اس سے پو چھا کہ " بھائی کیا بات ہے آپ کیوں اتنے چپ چاپ کھڑے ہیں " تو وہ بولا "جہاں پناہ آپ بادشاہ وقت ہیں اگر جان کی امان بخشیں تو عرض کروں گا۔ "
"بخشی" ابن ابی مہلی نے کہا بولو کیا بولتے ہو " کھیل کی بازی میں " فقیر بولا " کوئی دو سو افراد ایک گیند کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اسے ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں چوٹ نہ لگ جائے یا زخم نہ آجائے موت بھی ہوسکتی ہے اور یہ سب ایک گیند کی خاطر۔ اور اس ساری دھینگا مشتی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کچھ بھی نہیں سوائے پریشانی کے اور تکلیف کے۔ اور اگر آپ گیند کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اس میں چیتھڑوں اور لیروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ " جب ابن ابی مہلی نے اس کی تمثیل سنی تو وہ فوراً اس کے معنی بھانپ گیا اور زار وقطار رونے لگا " ہم دین پھیلانے کی نیت سے نکلے تھے" وہ بولا مگر "حیف! ہم تو گمراہی میں جا پڑے۔ " عظیم مسلمان سیاسی فلسفی ابو نصر الفارابی اپنی کتاب " مدنیتہً الفاضلہ " جس کا شمار عظیم ترین کتاب میں ہوتا ہے۔ میں اس نے اس بات کا تعین کرنے کی کو شش کی ہے کہ اچھی حکومت کیسی ہوتی ہے۔
اس کا موقف ہے کہ کسی حکومت کو اچھا صرف تب ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اگر وہ علم، کردار اور سجھاؤ کی ان اقسام پر مبنی ہو جو کہ معاشرے کو حقیقی خوشی سے ہم کنارکرتی ہیں، طریقوں کو ان اہداف کے مطابق جانچا جانا چاہیے کہ جن کے حصول کے لیے انھیں بروئے کار لایا جاتا ہے اور بہترین اہداف وہ ہوتے ہیں جو روزمرہ زندگی کی حقیر حقیقتوں سے ماورا ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس بری حکومت انسانی فطرت کے ناقص خصائل کی عکاس ہوتی ہیں۔ الفارابی نے اس قسم کی چھ حکومتیں گنوائی ہیں، جنھیں ہزار سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی آسانی سے شناخت کیا جاسکتا ہے۔ اس کے مطابق پہلی قسم کی حکومتیں وہ ہوتی ہیں جنھیں ضرورت کی حکومتیں کہا جاسکتا ہے ایسی حکومتوں کے پیش نظر زندگی کی صرف روزمرہ ضروریات ہوتی ہیں۔
دوسری، امراء کی " بدمعاش، حکومتوں کی توجہ محض دولت اور خوشحالی پر ہوتی ہے، 3۔ " گھٹیا " حکومتیں صرف حسی اور خیالاتی مسرتوں کو مد نظر رکھتی ہیں 4۔ "وقار " کی حکومتیں جن کے شہری صرف اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ دوسرے ان کی تعریف و توصیف کریں 5۔ " غاصب" حکومتوں کے شہری دوسروں پر غلبہ پانے اور انھیں محکوم بنانے کے چکر میں ہوتے ہیں اور آخر میں "جمہوری" حکومتیں آتی ہیں، جن کے شہریوں کا بڑا مقصد آزادی ہوتا ہے کہ وہ جو چاہیں کریں، جب کہ ہابزکہتا ہے کہ انسان میں طاقت و اقتدارکی خواہش باقی سب خواہشات سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ " اقتدار در اقتدار کی ایک مستقل اور مضطرب خواہش ہمیں اس وقت تک دوڑائے لیے جاتی ہے جب تک کہ ہمیں موت نہیں آن لیتی۔ " وہ کہتا ہے ہم ایسے معاشروں میں زندگی بسر کرتے ہیں جو جنگل سے زیادہ مختلف نہیں اور اس بظاہر انتہائی ترقی یافتہ تہذیب کے نیچے چوروں اور قاتلوں کا ایک جہاں آباد ہے جو نظام میں ذرا سا خلل واقع ہونے پر جھٹ سے باہر آجاتا ہے۔
اب ہم اس نتیجے پر پہنچنے کے باوجود کہ دولت، عہدے، رتبے اور مرتبے، جھوٹ، سراب او رسائے ہیں پھر بھی انسان ان ہی چیزوں کے لیے ذلیل و خوار ہوتا رہتا ہے اور دوسروں کو بھی ذلیل وخوار کرتا رہتا ہے اور آخر میں پشیمانی، شرمندگی کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں بچتا ہے۔
کیونکہ آخر میں اس کے اپنے اس سے سب کچھ چھین چکے ہوتے ہیں اور اس کے بعد اس کے اپنے وہ ہی سب کچھ کررہے ہوتے ہیں جو وہ ساری عمر کرتا آیا تھا اور پھر ایک دن ان سے بھی ان کے پیارے ساری چیزیں ہتھیا لیتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح سے چلتا رہتا ہے کیونکہ بظاہر انتہائی ترقی یافتہ تہذیب کے نیچے چوروں اور قاتلوں کا ایک جہاں آباد ہے جو الفارابی کی گنوائی گئی چھ قسم کی حکومتوں میں جھٹ سے باہر آجاتا ہے جن کو ہم پچھلے 75سالوں سے بھگت رہے ہیں لیکن پھر بھی ہم جیسے لوگ کبھی پاناما لیکس پر چیخ رہے ہوتے ہیں تو کبھی کرپشن اور لوٹ مار پر دھرنے دے رہے ہوتے ہیں، خوا مخواہ۔ کیونکہ کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔