والٹیئرکی سب سے زیادہ دلچسپ کتابوں میں سے ایک " مائیکرو میگاس " ہے، جو ہمارے اس گھمنڈ پر طنز کرتی ہے کہ ہم اس جہان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور زندگی کے کھیل کا اہم کردار ہیں۔ قصہ اس میں یہ ہے کہ کلب الجبار کا ایک باشندہ مائیکرو میگاس جو پانچ لاکھ فٹ قد کا مالک ہے۔
زحل سیارے کے ایک باشندے سے ملتا ہے جو ٹھنگنا سا ہے اور جس کا قد صرف پندرہ ہزار فٹ ہے، وہ دونوں خلا میں مٹرگشت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کلب الجبارکے باشندے کی شادی ابھی حال ہی میں ہوئی تھی اور اس کی بیوی نہ چاہتی تھی کہ اس کا نوبیاہتا دلہا صرف دو سو سال کے مختصر ہنی مون کے بعد یوں آوارہ گردی کے لیے نکل جائے دلہا مگر اس کو تسلی دیتا ہے اور یقین دلاتا ہے کہ وہ جلد ہی لوٹ آئے گا پھر وہ دونوں دوست پچھل تارے کی دم پر چھلانگ لگاتے ہیں اور ستاروں کے جہان کی سیر پر نکل جاتے ہیں۔
لطف کی بات کہیے یا مقدرکی ستم ظریفی سمجھیے وہ دونوں آخرکار خاک کے ایک چھوٹے سے دھبے پر جا پہنچتے ہیں جس کو ہم نے زمین کا نام دے رکھا ہے وہ بحیرہ روم سے گذرتے ہیں، جو ان کے لیے ایک گڑھے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، وہاں ان کی مڈ بھیڑ ایک جہاز سے ہوتی ہے جو ایک قطبی مہم سے فلسفیوں کو واپس لے کر آرہا ہے۔
کلب الجبار کے باشندے کے لیے یہ جہاز اس قدر چھوٹا ہے کہ خورد بین کے بغیر اس کو دکھائی نہیں دیتا وہ جہاز کو سمندر سے اٹھاتا ہے اور قریب سے دیکھنے کی خاطر اپنی انگلی کے ناخن پر رکھ لیتا ہے جب وہ غور سے دیکھتا ہے اور اس کو جہاز پر زندہ ذرے، چلتی پھرتی مخلوق نظر آتی ہے تو بہت حیران ہوتا ہے مگر اس کی حیرانی اس وقت تفریح میں بدل جاتی ہے جب وہ ننھے منے ذرے اس کو بتاتے ہیں کہ وہ انسان ہیں۔
ان کے اندر لافانی روح ہے اور یہ کہ وہ کائنات کا مر کز ہیں جب و ہ انسانوں کی زندگی کے متعلق مزید معلومات حاصل کرتا ہے تو اس کو پتہ چلتا ہے کہ ان چھوٹے موٹے حقیرکیڑے مکوڑوں کی زندگی کا بڑا حصہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے میں گذرتا ہے جہاز پر بیٹھے ہوئے معزز فلسفیوں میں سے ایک اس کو بتاتا ہے کہ " اس لمحہ بھی جب کہ ہم باتیں کررہے ہیں، ہمارے نوع کے دس لاکھ ہیٹ پوش افراد اتنی ہی تعداد کے عمامہ پوشوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔
ان کے جھگڑے کا سبب ایک چھوٹی سے پہاڑی فلسطین ہے، میں تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ اس فساد کا سبب یہ نہیں کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے والے ان افراد میں سے کسی کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ مٹی کے اس ڈھیرکے کسی ذرے کا مالک ہے، نہیں۔ وہ اپنی ملکیت کے لیے خون نہیں بہا رہے بلکہ ان کا مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ جگہ اس شخص کی ملکیت قرار پائے جس کو سلطان کہا جاتا ہے یا اس دوسرے شخص کو مل جائے جو بادشاہ کہلواتا ہے اور یہ احمقانہ قتل عام فلسفی اپنی بات کو مکمل کرتا ہے۔" ان گنت صدیوں سے اس زمین پر چلا آ رہا ہے۔"
دونوں فلکی مسافر سوچتے ہیں کہ اچھا تو یہ ہیں وہ احمق ذرے جو اس مضحکہ خیز دنیا پر آباد ہیں پھر وہ دونوں اس ننھے منے فلسفی کے ساتھ مزیدگفتگو کرتے ہیں جو لاک کا شاگرد ہے وہ دیکھتے ہیں کہ یہ فلسفی خاصی پسندیدہ ہستی ہے، مگر بدقسمتی سے جہاز پر ایک عالم بھی سوار ہے وہ ایک غلط سا آدمی ہے جس نے چوکور ٹوپی اور چوغہ پہن رکھا ہے وہ گفتگو میں مداخلت کرتا ہے اور دور دراز کے سیاروں سے آنے والے ان مسافروں کو اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اور ان کی دنیا ان کے سیارے ان کے سورج اور ستارے سب کے سب صرف اور صرف انسان کی خاطر تخلیق کیے گئے ہیں۔
یہ بات سن کر وہ مسافر بے ساختہ اس قدر زور سے ہنسے کہ ایسے قہقہے ہومرکے بقول صرف دیوتائوں کے لیے ہی مخصوص ہوسکتے تھے ہنستے ہنستے، ان کا یہ حال ہوا کہ ان کے کندھے اور پیٹ آگے پیچھے جھولنے لگے اس ہلچل میں جہاز جو کہ کلب الجبار کے باشندے نے اپنی انگلی کے ناخن پر رکھا ہوا تھا۔ زحل کے باشندے کے جانگیے کی جیب میں جاگرا زحل والے نے جہاز کو جیب سے نکالا دوبارہ سمندر پر رکھا اور پھر وہ اپنے فلکی ٹھکانوں کو لوٹ گئے۔
زمین کی سیاحت سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذکیا کہ یہ پاگل خانہ ہے جہاں دوسرے سیاروں کے پاگل رہتے ہیں۔ کلب الجبار اور زحل کے رہنے والے دونوں دوست اگرکبھی مٹر گشت کرتے ہوئے پاکستان آدھمکیں اور ملک کا حال احوال خرد بین کے ذریعے دیکھنے بیٹھ جائیں اور جب وہ یہ دیکھیں گے کہ عہدوں، رتبوں، مرتبوں کے لیے لوگ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں، سازشیں عروج پر ہیں۔
کوئی اپنے آپ کو بادشاہ کہلوانا چاہتا ہے تو کوئی وزیراعظم کے لیے مرا جا رہا ہے توکوئی وزیروں اور مشیروں کے عہدوں کے لیے ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑنے میں مصروف ہیں توکوئی زور زور سے چلا رہا ہے کہ میں سب زیادہ مالدار ہوں اس لیے سب میری عزت کریں اور کرسی پر بیٹھنے کا حق میرا ہے تو کوئی چیخ رہا ہے میرے پاس سب سے زیادہ ملیں، جاگیریں، ہیرے جواہرات اور پیسوں کے ڈھیر ہیں۔ اس لیے ملک پر حکمرانی کا حق میرا ہے کوئی گلا پھاڑ پھاڑ کر بول رہا ہے کہ عوام نے مجھے ووٹ دیے ہیں کوئی مائی کا لال مجھے نہیں ہٹا سکتا۔ جھوٹ پہ جھوٹ بولے جارہے ہیں۔
ہر شخص صرف اپنے آپ کو ایماندار اور دوسروں کو کرپٹ اور بے ایمان کہنے میں مصروف ہیں تو کوئی خطوں کو لے کر ہوائوں میں لہرا رہا ہے۔ ٹی وی پر بیٹھ کر سب ایک دوسروں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں ہر شخص عہدوں سے چمٹا رہنا چاہتا ہے خود چھپ چھپ کر سارے گناہ کررہے ہیں اور لوگوں کے سامنے آ کر دوسروں کو گناہگار ٹھہرا رہے ہیں۔ کرپشن، لوٹ مار خود کررہے ہیں کمیشن اور رشوت خود لے رہے ہیں اور الزامات معصوموں پر لگاتے پھررہے ہیں، تعلیم کے نام پر جہالت پھیلانے کے لامحدود لوگوں کو اختیارات حاصل ہیں۔ ہر سانحے کے بعد حکومت کے سوا سب اپنی اپنی ذمے داری قبول کررہے ہیں۔
کرپٹ سیاست دان، جمہوریت کے نام پر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ علما مذہب کے نام پر اپنی اجارہ داری قائم کررہے ہیں۔ بزنس مین اپنے منافع کی خاطر زندہ لوگوں کو درگور کر رہے ہیں، شرافت، ایمانداری، ذہانت، علم، تہذیب و تمدن کو کوئی ٹین ڈبے والا اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے، بے ایمانی کو ایمان کا درجہ حاصل ہے، تھانے بک رہے ہیں حکومتی اراکین پارلیمنٹ اپنے حلقوں کے لوگوں کے مسائل سننے اور حل کرنے کے بجائے مجر ے سن رہے ہیں عقل سے خالی، نرے جاہل لوگ عقل مند اور دانش مندوں کی زندگیوں کے فیصلے کررہے ہیں تابوتوں، رشوت، کمیشن کا کاروبار ترقی کرتا جا رہا ہے ہر جائزکام ناجائز طریقے سے سر انجام پا رہا ہے، ہر رشتے ہر چیز میں ملاوٹ ہے لوگ زہریلا پانی پی رہے ہیں۔
انسان صرف ایک روٹی کی خاطر خود کشی پر مجبور ہے تو دونوں دوست ہنس ہنس کر پاگل ہوجائیں گے اور بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ دنیا کے پاگل خانوں میں سب سے بڑا پاگل خانہ یہی ملک ہے۔