یوجنبی یوتو شینکوکہتا ہے " اگر سچ کی جگہ خاموشی لے لے تو اس خاموشی سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں۔" آج ہم سب خاموش ہیں، سب جھوٹے ہیں لگتا ہے سب مرگئے ہیں، پورا ملک قبرستان بن گیا ہے۔ ہوریس نے کہا تھا " جنگل سال کے ختم پر اپنی پتیاں بدلتے ہیں اور پہلے کی پتیاں گر جاتی ہیں، اسی طرح الفاظ بھی بوڑھے ہوکر مر جاتے ہیں۔" ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہوگیا ہے۔
ہمارے الفاظ بوڑھے ہوکر مرگئے ہیں، جب الفاظ جوان ہوتے ہیں تو وہ سچ ہوتے ہیں اور جب بوڑھے ہو جائیں تو جھوٹے ہوجاتے ہیں اور جب ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ہوتا ہے تو پھر سناٹا جنم لے لیتا ہے اور اس وقت تک سناٹا رہتا ہے، جب تک نئے الفاظ پیدا نہ ہو جائیں۔ اسی لیے آج ہر طرف سناٹا ہے، اسی لیے آج کسی چیزکے کوئی معنیٰ نہیں ہیں۔ ہر چیز بے معنیٰ ہوچکی ہے، کیونکہ الفاظ مر چکے ہیں۔
آج کرپشن، فراڈ، دھوکہ دہی، چوری، ڈاکے، زنا کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں۔ آج ایمانداری، دیانت داری، وفا، خلو ص، بے معنی ہیں اور تو اور ہم سب بھی بے معنیٰ ہوچکے ہیں۔ اب ہمارے ہاں کچھ بھی ہوجائے کیسا بھی ہوجائے نہ لوگ چیختے ہیں نہ چلاتے ہیں، نہ تڑپتے ہیں اور نہ کہیں ماتم ہوتا ہے، نہ لوگ اپنے آپ کو پیٹتے ہیں، بس چپ چاپ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھتے رہتے ہیں۔
ایک لفظ تک نہیں بولتے کیونکہ ہمارے الفاظ مرچکے ہیں۔ جب آپ سماج میں نئی سوچ، نئی فکر، نئے خیالات آنے کے تمام راستے، تمام دروازے، تمام کھڑکیاں بند کردیتے ہیں تو پھر شدید حبس اورگھٹن کے باعث سماج کی ساری چیزیں بوڑھی ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور آپ بھی بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ آپ کا نفس، ضمیر، ذہن اور دل بھی بوڑھے ہوجاتے ہیں اور پھر الفاظ بھی بوڑھے ہوکر مر جاتے ہیں۔
ایسے سماج میں لوگ پھر اپنے اندر نفرت اور عداوت کی بارودی سرنگیں لیے لیے پھرتے ہیں، پھر سماج میں ایسی بربادی پھیلتی ہے کہ پھر وہاں پھول نہیں نفرت، تعصب، کرپشن کے کانٹے اگتے ہیں اور ان کانٹوں سے کسی کا بھی دامن محفوظ نہیں رہ پاتا۔ لوگ جتنی بار ان کانٹوں کو اپنے ہاتھوں سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر بار اپنی ہتھیلیوں کو زخمی کر لیتے ہیں، پھر ملک کے کرتا دھرتا ہی لٹیرے بن جاتے ہیں۔
انصاف دینے والے انصاف لوٹنے لگ جاتے ہیں، پھر عصمتیں اور عزتیں تار تارکردی جاتی ہیں۔ انسان جلائے جاتے ہیں پھر ایمانداری، دیانتداری، وفا، خلوص، محبت کو سر عام برہنہ کردیا جاتا ہے، پھر شریفوں اور مفلسوں کو پتھر مارے جاتے ہیں، پھر احساسات، جذبات، تہذیب و تمدن، روایتوں کی اجتماعی پامالی کی جاتی ہے پھر ہر جگہ اقتدارکے بھوکوں، لٹیروں، قاتلوں، قبضہ خوروں، بھتہ خوروں، کمیشن ایجنٹوں کے غول کے غول گھومتے رہتے ہیں اور عزت دار چھپتے پھرتے ہیں، پھر بنیاد پرستی وحشیانہ ناچ ناچتی ہے، پھر فتوے گلی گلی بکتے ہیں۔ پھر لوگ اپنے علاوہ سب پر الزامات کی بارش کررہے ہوتے ہیں۔
آئیں ! ایک عظیم اور صالح بادشاہ کا اعتراف پڑھتے ہیں۔ وہ ہر شے کو فریب اور مایا قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں "میں نہ صرف مبلغ دین تھا بلکہ اسرائیل کا بادشاہ تھا۔ یروشلم میں میرے پاس سب سے زیادہ دولت اور جائیداد تھی۔
میں نے عظیم الشان محلات تعمیرکیے، انگوروں کی بیلیں اگائیں اور پھولوں کے باغات لگائے ان میں انواع و اقسام کے پیڑ اگائے جو اپنے موسم میں پھلوں سے لد جاتے تھے، میں نے پانی کے وسیع و عریض تالاب بنوائے جن سے میں اپنے باغات کو سیراب کرتا تھا۔ میرے پاس کثیر تعداد میں چھوٹے بڑے مویشی تھے جو یروشلم میں ہرکسی سے زیادہ تھے۔
سونے اور چاندی کے انبار اس کے علاوہ تھے حواس کی لذت میرے گھرکی لونڈی تھی، مرد اور عورتیں میرے ارد گرد، دلکش گیت گاتے پھرتے تھے۔ کیف پرور ساز ہر وقت سر بکھیرے رہتے تھے، بنی آدم کو زندگی میں جو جو آسائشیں فراہم ہوسکتی ہیں یا جن کی وہ تمنا کرسکتا ہے، میرے پاس موجود تھیں، میرے پاس لاتعداد خادم اورکنیزیں تھیں بلکہ نوکر چاکر میرے گھر میں پیدا ہوا کرتے تھے میرے دل کی کوئی آرزو حسرت تشنہ تکمیل نہیں تھی لیکن یقین کرو سب کچھ مایا ہے سب کچھ روح کا کرب اور دل کا بوجھ ہے۔"
ہمارے حکمران اپنی ذہنی اور اخلاقی کمتری یا کند ذہنی کے باعث یہ سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں کہ زندگی میں انھیں حاصل ہونے والی بیشتر نعمتیں اور اعلیٰ منصب حادثاتی ہیں اور یہ کہ عظیم بادشاہ کی طرح ہرکسی کو ہزاروں محلات اور ہزاروں بیویاں میسر نہیں ہوسکتیں وہ یہ بھی فراموش کردیتے ہیں کہ اس عظیم بادشاہ کے ایک ایک محل کو ہزارہا بے بضاعت مزدوروں نے تعمیرکیا اور ان کی زیبائش کے لیے اپنا خون اور پسینہ نذرکیا، وہ یہ بھی شعور نہیں رکھتے ہیں کہ تقدیرکے جس اتفاق نے آج انھیں جو عہدے و منصب عطا کیے ہیں۔
اسی کی ایک جنبش کل انھیں کسی کا بھی ایک حقیر اور ادنیٰ غلام بھی بنا سکتی ہے۔ وہ اس عظیم بادشاہ کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں نہ ان کے پاس اس عظیم بادشاہ جیسی عقل وشعور ہے نہ ہی ان جیسا علم اور حکمت ان کے پاس ہے۔
عظیم مصنف اور فلسفی ول ڈیورانٹ لکھتا ہے " تاریخ میں صرف ایک چیز یقینی ہے اور وہ ہے زوال، زندگی میں بھی صرف ایک چیز یقینی ہے اور وہ ہے موت، بڑھاپے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جب وہ اندر دھنسی ہوئی آنکھوں سے مڑکر پیچھے دیکھتا ہے تو اسے صرف انسانیت کے مصائب وآلام نظر آتے ہیں۔
زندگی کبھی ہار تسلیم نہیں کرتی فرد ہار جاتا ہے لیکن زندگی جیت جاتی ہے فرد کم فہم ہوتا ہے لیکن زندگی کے خوف اور بیج میں کئی نسلوں کی حکمت پنہاں ہے وہ مرجاتا ہے لیکن انتھک اور ناقابل شکست زندگی رواں دواں رہتی ہے، اس کے بھٹکنے، آرزو مندی، منصوبہ بندی، کاوش اور زور آزمائی کوکبھی زوال نہیں آتا۔ یہاں ایک بوڑھا شخص بستر مرگ پر پڑا ہے، جس کے ارد گرد کھڑے دوست اور بین کرتے ہوئے رشتہ دار اسے مزید ہراساں کررہے ہیں۔ یہ کس قدر روح فرسا منظر ہے، ایک کمزور ڈھانچہ جس کا شکستہ گوشت لٹک چکا ہے۔
ایک خون سے نچڑے ہوئے چہرے میں بے دندان منہ، یہ زبان جوکچھ بول نہیں سکتی اور یہ آنکھیں جو دیکھنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ ہی وہ موڑ ہے جس پر جوانی کو اپنی تمام امیدوں اورکاوشوں کے بعد پہنچنا ہے۔ اب موت اس کے سر پر منڈلا رہی ہے، اس کے اندر زہر بھر رہی ہے، اس کا سانس روک رہی ہے اس کے خون کو ناقابل گردش بنا رہی ہے۔ اس کے دل کو بندکررہی ہے، اس کے دماغ کو ماؤف کر رہی ہے اور اس کے گلے کو روند رہی ہے۔
موت جیت گئی ہے، باہر ہری بھری ڈالیوں پر پرندے چہکتے ہیں۔ مرغ چمن سورج کی حمد و ثنا کرتا ہے، کھیتوں پر نور سحر پھیلتا ہے کلیاں کھلتی ہیں۔ شاخیں اعتماد سے اپنا سر اٹھاتی ہیں۔ زندگی کا رس درختوں کے رگ وپے میں سرایت کرتا ہے، یہاں بچے بھاگے دوڑے پھرتے ہیں۔ یہ اتنے خوش کیوں ہیں اور اوس سے بھیگی ہوئی گھاس پرکیوں بے قابو ہوکر دوڑ رہے ہیں، ہنس رہے ہیں شور مچا رہے ہیں۔
ایک دوسرے کو دھکیل رہے ہیں، ہانپ رہے ہیں، دھینگا مستی کر رہے ہیں پھر بھی تھکن کا کہیں نام و نشان نہیں۔ یہ توانائی یہ جوش وخروش یہ مسرت انھیں موت کی کیا خبر ہے؟ یہ بھی مرنے سے پہلے یقینا سیکھیں گے، بڑے ہوں گے اور جب یہ جہاں گزراں سے رخصت ہوں گے تو اپنے بچوں کی شکل میں موت کی آنکھوں سے دھول جھونکیں گے۔" حضرت عیسیٰ نے کہا تھا " سچ تمہیں آزاد کرتا ہے " لیکن اس وقت جب آپ خود آزاد ہونا چاہتے ہیں لیکن اگر آپ جھوٹ کے قیدی ہی رہنا چاہتے ہیں تو پھر کوئی بھی آپ کو آزاد نہیں کروا سکتا۔
یاد رکھو، حکمرانوں تم سب جھوٹ کے قیدی ہو تم نے لالچ، حرص، فریب و دھوکے زنجیروں میں اپنے آپ کو جکڑ رکھا ہے اور ان زنجیروں کی وجہ سے تمہارے جسم کا ایک ایک حصہ زخم آلود ہوچکا ہے اور اس سے مسلسل خون رس رہا ہے لیکن تمہیں یہ زنجیریں اتنی پیاری ہیں کہ تم پھر بھی انھیں اپنے اوپر لادے ہوئے ہو اور ہانپتے وکانپتے چل رہے ہیں، جب انسانیت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے تو دکھ، افلاس اور ظلم وجبرکا دور دورا ہو جاتا ہے۔
یزد کہتا ہے آدم کے بیٹوں اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذلیل و خوار نہ کرو، کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ پاگل کتے اپنا گوشت خود نہیں چباتے۔ سکندر اعظم کے مزار پر جو لوح نصب ہے۔ اس پر یہ تحریر درج ہے جس شخص کے لیے کبھی تمام دنیا کی سلطنت بھی کافی نہ تھی۔ اب اس کے لیے یہ قبرکافی ہے۔ یاد رکھو، آخر میں تمہارے حصے میں بھی ایک ہی قبر آئے گی۔