آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کل آبادی 22 کروڑ میں سے صرف چند ہزار کو چھوڑ کر باقی سب کے سب ذہنی و نفسیا تی مریض، بیمار، پریشان، مایوس، خو فزدہ، بزدل، ڈرپوک، بے بس، قیدی اور بے حس ہوچکے ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصے پہلے تک یہ سب صحت مند اور خوش باش انسان ہوا کرتے تھے، یہ سب خو شحالی، کامیابی، ترقی، آزادی کے خواب دیکھا کرتے تھے، سب اپنے روشن مستقبل کے لیے اتنے ہی پُر اُمید تھے جتنے صحت مند انسان ہوا کرتے ہیں، پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ یہ سب ایسے انسان کیوں بن گئے۔ ان سب سے خوشیاں کیوں دور چلی گئیں، مایوسی نے ان کے عزم صمیم کو کیوں کمزور کر دیا، وہ زندگی کی بھاگ دوڑ میں کیوں پیچھے رہ گئے۔ حالات انھیں آگے بڑھنے کیوں نہیں دے رہے۔
آئیں ! اس کیوں کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔ دنیا کا عظیم ماہر نفسیا ت اور ادیب ڈیل کار نیگی لکھتاہے " چند سال ہوئےہیں مجھ سے ایک ریڈیو پروگرام میں ایک سوال پوچھا گیا " اپنی زندگی میں آپ نے سب سے بڑا سبق کیاسیکھا ہے؟ " میرے لیے اس کا جواب دینا آسان ہے، میں نے اپنی زندگی میں اہم ترین سبق یہ سیکھا ہے کہ ہمارے خیالات و تصورات ہماری شخصیت کے آئینہ دار ہیں، اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ آپ اس وقت کیاسوچ رہے ہیں، تو میں فوراً بتادوں گا کہ آپ کیسے آدمی ہیں، جو کچھ ہم ہیں ہمارے خیالات ہی ہمیں ایسا بنا تے ہیں، ہمارا ذہنی رحجان ہی ہماری قسمت کا تعین کرتاہے۔"
امریکی فلاسفر ایمر سن کے الفاظ میں " ایک انسان وہ ہی کچھ ہے جو وہ تمام دن سوچتا ہے " اور اس سے مختلف وہ ہو بھی کیا سکتا ہے؟ انسان کے سامنے سب سے بڑا اہم واحد مسئلہ صحیح قسم کے خیالات کا انتخاب ہوتاہے اگر وہ اس میں کامیا ب ہو جاتاہے، تو وہ اپنے سارے مسائل کو نہایت آسانی اور خوبی سے نمٹ سکتا ہے۔ عظیم فلسفی مارکس ادری لی نے اسے آٹھ الفاظ میں سمو دیاہے " ہماری زندگی ہمارے خیالات سے بنتی ہے " اگر ہم خوشی اور مسرت کے خیالات سو چیں گے تو ہم خوش اور مسرور رہیں گے، اگر ہمارے خیالات افسرد ہ اور پژمردہ ہیں تو ہم پر بھی افسردگی اور پسماندگی محیط ہوجائے گی، بزدلانہ خیالات ہمیں بزدل اور ڈرپوک بناد یں گے اور بیمار خیالات ہمیں بیمار بنا دیں گے، اگر ہم نا کامی کے متعلق سوچیں گے تو ہم یقینا ناکام رہیں گے۔
اگر ہم اپنے آپ پر ترس کھاتے رہیں گے تو ہر کوئی ہم سے گریز کریگا ہم سے دور بھاگے گا نارمن ونسنٹ پیل کے الفاظ میں " آپ وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ وہ ہیں جو آپ سو چتے ہیں۔" آئیں !ہم مل کر 22کروڑ پاکستانیوں میں سے ایک پاکستانی کی موجودہ زندگی کے متعلق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے حالات زندگی کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کن حالات میں اپنے شب و روز گذار رہاہے۔ آج پاکستان کے 95 فیصد لوگ اپنے روزگار کے متعلق انتہائی پریشان اور خو فزدہ ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بے یقینی سے بھی دو چار ہیں ملک میں بے روزگاروں کی پوری فوج بن چکی ہے جو معمولی سے روزگار کے لیے سارا سارا دن مارے پھرتے رہتے ہیں۔
زندگی کی روزمر ہ کی ہر چیز ان کی جیب میں موجود پیسوں سے کہیں زیادہ مہنگی ہوچکی ہے۔ ایک وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر کر نہیں کھاپارہے ہیں یا اگران کے گھر میں سے کوئی بیمار ہوجائے تو قیامت صغر ی بر پاہوجاتی ہے۔ اپنے بچوں اور پیاروں کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں پر روز مر تے اور روز جیتے ہیں۔ اپنا اور اپنوں کا سامنا کرنے کی ہمت جواب دے چکی ہے۔ مراعات یافتہ طبقوں کے ہاتھوں روز کچلے اور روندے جاتے ہیں، طاقتوروں اور بااختیا روں کے دیے گئے زخم اب ناسو ر بن چکے ہیں۔ ان کی شرافت، ایمانداری، معصومیت ان کے لیے گالی بن چکی ہے۔ ذلت، گالیا ں اور خواری ان کا نصیب بن چکی ہیں، ہزاروں سوالات ان کے اندر درد سے چیخ رہے ہیں۔ ان کے سارے خواب ان کے دل روز نوچتے رہتے ہیں۔
ان کی ساری خواہشیں ان کے سامنے ننگی ناچتی ہیں، ترقی، کامیابی، خوشحالی کی آرزویں ان کو دیمک کی طرح کھوکھلا کرتی جارہی ہیں۔ فاقوں اور ناقص خوراک نے انھیں ان گنت بیماریوں میں مبتلا کر دیاہے۔ امیروں کی گالیا ں ان کی عزت نفس کا روز قتل کررہی ہیں۔ ا پنے پیاروں کے سامنے روز رسوا اور ذلیل ہورہے ہیں۔ ہزروں اذیتیں روز ان کے گھر کے دروازے کے آگے بیٹھی منتظر رہتی ہیں، ان کی بے بسی انھیں نو چ نوچ کر کھا رہی ہے۔ شرمندگی، بزدلی کی وجہ سے وہ اپنے آپ سے نظریں نہیں ملا پارہے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ ان حالات میں انسان ذہنی و نفسیا تی مریض، بیمار، پریشان، مایوس، خوفزدہ، بزدل، ڈرپوک، بے بس، قیدی اور بے حس نہیں ہوگا تو پھر کیا ہوگا۔
ان حالات میں تبدیلی آنے ہی سے ان کی زندگیوں میں خوشیاں لوٹ سکتی ہیں اور مایوسی کا دور ختم ہو کر انھیں پھر سے متحرک کر سکتا ہے۔ سارتر بتاتا ہے کہ اس کی والدہ خدا سے ایک ہی دعا مانگا کرتی تھی کہ خدا مجھے سکون دے۔ آج سیکڑوں سال بعد فرانس سے لاکھوں میل دور پاکستان میں ایک نہیں بلکہ 22کروڑ انسان دن رات یہ ہی دعا مانگ رہے ہیں کہ خدا ہمیں سکون دے۔ پوپ گریگوری اول نے 590ء میں سات خو فناک گناہوں کی فہرست جاری کی تھی، ان کا کہنا تھا انسان کو سات گناہ ہوس، بیسارخوری، لالچ، کاہلی، شدید غصہ، حسداور تکبر ہلاک کررہے ہیں، انسان اگر ان سات گناہوں پر قابوپالے تویہ شاندار، بھرپور اور مطمئن زندگی گزار تا ہے۔
گاندھی نے پوپ گریگو ری اول کے سات گناہوں کی فہرست سے متا ثر ہو کر 1925 میں سات سماجی گناہ کی فہرست جاری کی، ان کاکہنا تھا جب تک کوئی معاشرہ ان سات گناہوں پر قابو نہیں پاتا وہ معاشرہ اس وقت تک معاشرہ نہیں بنتا۔ گاندھی کے بقول اصولوں کے بغیر سیاست گناہ ہے، کام کے بغیر دولت گناہ ہے، ضمیر کے بغیر خوشی گناہ ہے، کر دار کے بغیر علم گناہ ہے، اخلاقیا ت کے بغیر تجارت گناہ ہے، انسانیت کے بغیر سائنس گناہ ہے، وہ جو چند ہزار انسان آج پاکستان اور 22کروڑ پاکستانیوں کے خدا بنے ہوئے ہیں، وہ ان ہی سات گناہوں کی لپیٹ میں ہیں اور ان کے ان سات گناہوں کی وجہ سے آج 22 کروڑ انسان برباد، تباہ اور ذلیل و خوار ہورہے ہیں اور ناجانے کب تک ہوتے رہیں گے۔