1957میں نوبیل انعام کے لیے دو لکھنے والوں کے درمیان ووٹ ڈالے گئے، البر کا میو نے ایک ووٹ زیادہ حاصل کیا اور نوبیل انعام کا حق دار قرار پایا، ایک ووٹ سے شکست کھانے والا یونان کا جدید مصنف کازان زاکیز تھا۔ انعام لیتے وقت کا میو نے کہا " انعام تو مجھے مل گیا ہے لیکن کازان زاکیز اس انعام کا مجھ سے سو گنا زیادہ حقدار ہے۔"ہومر سے عمر میں تقریباًپونے دو ہزار سال چھوٹا کازان زاکیز سمجھ لیں۔ دوسرا جدید ہومر تھا یا یوں، کہہ لیں کہ قدیم ہومر سے کچھ لکھنے کا کام باقی رہ گیا تھا چنانچہ وہ کازان زاکیز کے روپ میں دوبارہ پیدا ہوا اور جدید یونانی زبان میں شاہکار لکھ ڈالے۔ کازان زاکیز کی قبر کے کتبے پر درج ہے " اب مجھے کوئی خوف نہیں، کوئی خواہش نہیں، اب میں آزاد ہوں۔"
ظاہر ہے یہ تحریر کازان زاکیز کی خواہش پر لکھی گئی ہوگی۔ کازان اس سچ سے بخوبی واقف تھا کہ انسان اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک وہ خوف اور خواہش پر قابو نہ پالے اسے تسخیر نہ کرلے۔ خوف خواہش کو جنم دیتا ہے اور خواہش خوف کو جنم دیتی ہے، یعنی آپ اگر ان دونوں میں سے ایک کو دبوچ لیتے ہیں تو دوسرا خود بخود مرجاتا ہے، پھر آپ آزاد ہوجاتے ہیں، پھر آپ کو کوئی چیز قید نہیں کرسکتی، اپنی حراست میں نہیں لے سکتی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کو ایسا کرنے کے لیے کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ عقل وخرد وہ واحد چیز ہے جو آپ کو آزاد کر وادیتی ہے۔ جب گو تھس نے روم کو تاخت و تاراج کیا تو روم ایک تنگ و تاریک گاؤں میں تبدیل ہوگیا۔
جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے لوگوں نے مایوس ہوکر ہتھیار ڈال دیے تھے، خوف کے مارے آگے بڑھنے سے انکار کردیا تھا۔ انگلینڈ میں انیسو یں صدی میں معاشی استحصال، سیاسی جبر، ناانصافیوں اور مظالم کی تصاویر ہمیں اس دور کے ادیبوں کی تحریروں میں ملتی ہیں۔ ایلیٹ ایک پسماندہ اور ذلتوں کے مارے خاندان کی منظر کشی کرتے ہوئے کہتا ہے "جب خاندان ذلت کی گہرائیوں میں گر گیا تو اپنی جائیداد اونے پونے داموں نیلام کرناپڑی باپ مایوسی کی حالت میں نشے کا عادی ہوگیا اور ماں نے غصے اور ذہنی انتشار کا شکار ہوکراپنے بیٹے کو مار ڈالا، بہن غربت اور مایوسی سے تنگ آکر اپنی عصمت بیچنے پر مجبور ہوگئی۔"
اس نظم کا اختتام ان سطروں پر ہوتا ہے " او خدا یا روٹی کس قدر مہنگی ہے اور خون کس قدر سستاہے " تھامس ہڈ نے 1844 میں "شرٹ " پرایک نظم میں کہا کہ " جب تم مرغ کی اذان سنوتو کام، کام، کام یہاں تک کہ تاروں کی لوتمہارے خون سے چمکنے لگے جولوگ اس شرٹ کو پہنتے ہیں انھیں کیا معلوم کہ اس کی قیمت کتنی بھاری ہے" اسی طرح چارلس ڈکنز اورتھیکرے نے اپنے ناولوں میں پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی کی جب کہ بلز اک، زولااور وکٹر ہیو گو نے اپنی تحریر وں میں اس دور کے فرانس کی نقشہ کشی کی، گوگول، پشکن، ٹالسٹائی، چیخوف نے روس کے عام لوگوں کی زندگیوں کو اجاگر کیا۔
لوگ اور لوگوں کا ہجوم دو مختلف چیزیں ہیں جب لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے مقصد سے ہٹ جاتی ہے عقل و خرد، آگہی، فکر اور سوچ سے بیگانہ ہوجاتی ہے تولوگوں کا یہ جم غفیر ایک ہجوم میں بدل جاتا ہے مقصد کے بغیر لوگ ایک ایسا ہجوم بن جاتے ہیں جن میں ہر ایک صرف اپنی ذات کے لیے زندہ رہتا ہے اس کے سامنے صرف اور صرف ایک ہی مقصد باقی رہتا ہے کہ اپنی خو اہشات نفسانی کی تکمیل کس طرح کرنی ہے اور بس۔ لوگوں کا بے مقصد اور بے منزل ہجوم ہر وقت اپنی ہوس کی پوجا کا متمنی رہتا ہے یہ ہجوم نا چاہتے ہوئے اس نظام کو بچانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے جو پہلے ہی مر چکا ہو تا ہے وہ اپنی ساری توانائی اسے دوبارہ زندہ کرنے کے لے لگا رہا ہوتاہے۔
وہ غربت، افلاس، بیماریاں، ذلتیں، غلاظتیں اپنا نصیب اور مقدر سمجھنے لگتا ہے اور ان ہی میں اسے تسکین ملتی ہے۔ Oscar Wilde کہتا ہے " المیہ ہے کہ کتنے ہی کم لوگ مرنے سے پہلے اپنی روح رکھتے ہیں کسی بھی آدمی میں اس کے خود کے عمل سے زیادہ نایاب کوئی چیز نہیں ہے یہ سراسر سچ ہے زیادہ تر لوگ دوسرے لوگ ہیں "۔ نطشے سے کسی نے پوچھا کہ" ہم اپنی شخصیت کو کیسے ترقی دے سکتے ہیں؟ " نطشے نے عجیب بات کہی خطرے میں جیو۔ مگر ہم سو چتے ہیں کہ ہر لحاظ با حفاظت بنیں۔ اصل میں زندگی کے ہر لمحے کو جینا چاہیے۔ زندگی جینے کا صرف ایک مطلب ہے کہ خطرے میں رہو۔ اس طرح تمہاری شخصیت نکھرے گی۔ تم میں حوصلہ پیدا ہوگا اس کے علاوہ کوئی مقصد ہے ہی نہیں۔
مردہ اجسام کو دیکھو بالکل محفوظ ہیں انھیں کوئی خطرہ نہیں۔ وہاں ان کی قبریں محفوظ ہیں کیونکہ وہ اب دوبارہ مر نہیں سکتے۔ موت کا آخری انعام مزید مرنے سے بچنا ہے کیونکہ انھیں اب کوئی بھی دوبارہ مار نہیں سکتا۔ Michel Houellebacq نے کہا تھا " یہ مستقبل نہیں بلکہ ماضی ہے جو آپ کو مارتاہے اذیت دیتا ہے اور کمزور کرتا ہے اور مو ثر طریقے سے آپ کو مار کر ختم کردیتا ہے۔" ہم اگر یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم زندہ ہیں تو ہم سے زیادہ لاعلم کوئی اور نہیں کیونکہ ہمیں مرے ہوئے سالوں بیت چکے ہیں اب تو ہم صرف اس بات پر خوفزدہ ہیں کہ دوبارہ نہ جی اٹھیں۔ اگر ہم زندہ ہوتے تو سو چو کیا اس حال میں جی رہے ہوتے۔
اس طرح ڈرے اور سہمے ہوئے ہوتے۔ اس طرح دنیا بھر کی تمام ذلتیں خوشی سے برداشت کررہے ہوتے۔ ہم سب ماضی ہیں اور ماضی ہی کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ اسی لیے تو پورے ملک میں خاموشی ہے پورا کاپورا ملک قبرستان بن گیا ہے ہرطرف سناٹا ہی سناٹا ہے روم کے Capitoline عجائب گھر میں سنگ مر مر پر کی ہوئی سنگ تراشی کا ایک نمونہ رکھا ہوا ہے جو ایک بہترین تخلیق ہے یہ مجسمہ ہے ایک " مرتے ہوئے گال " کا۔ گال مغربی یورپ کے اس علاقے کا پرانا نام ہے جو اب فرانس لکسمبر گ اور سوئٹزر لینڈ کا حصہ ہے گال کے باشندے بھی گال ہی کہلاتے تھے۔ وہ شخص شدید زخمی میدان جنگ میں لیٹا ہوا ہے لڑائی سے سخت کوش اس کا تنو مند جسم موت کی آغو ش میں جارہا ہے۔
اس کا موٹے بالوں سے ڈھکا سر ڈھکا ہوا ہے، اس کی مضبوط گردن مڑی ہوئی ہے، مزدوروں جیسے طاقت ور کھر دے ہاتھ جو ماضی قریب میں تلوار اٹھاتے تھے، اب زمین پر ٹیک لگا کر آخری کوشش سے اپنا ڈھلتا ہوا بدن سنبھالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسے ان خداؤں سے جنگ کر نے پر اکسایا گیا تھا جنھیں وہ جانتا نہیں تھا۔ اپنے ملک سے بہت دور اور اس طرح وہ اپنے انجام کو پہنچا اب وہ اس مقام پر لیٹا ہوا خاموشی کی موت مررہا ہے دنگے فساد کی آوازیں اس کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی ہیں، اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں اندر کی جانب پھری ہوئی ہیں، وہ شاید آخری بار اپنے بچپنے کے گھر کو تک رہا تھا۔
جب جب "مرتے ہوئے گال " کا مجسمہ یاد آتا ہے تب تب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب "مرتے ہوئے گال " کے مجسمے بن چکے ہیں اور اپنے بچپنے کے پاکستان کو تک رہے ہیں اسے یاد کررہے ہیں۔ جہاں ہم سب آزادتھے پر سکون اور خو ش تھے، جہاں سب پیٹ بھر کے روٹی کھاتے تھے، جہاں کوئی خوف نہیں تھا، ساری خواہشیں پوری ہوجاتی تھیں۔ فکر و سوچ پر کوئی پابندی نہیں تھی، جہاں لوگ ٹانگوں پر نہیں بلکہ اخلاقیات پر کھڑے تھے۔ جہاں انسانی المیوں کاکوئی وجود نہ تھا۔