جب انصاف کو قتل کردیا جاتا ہے اور ناانصافی کا آسیب سماج کو اپنی پوری لپیٹ میں لیتا ہے تو پھرکیا ہوتا ہے۔ آئیں ! اسے قریب سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پرتگال کے نوبیل انعام یافتہ ادیب حوزے سارا میگو لکھتا ہے۔ " فلورنس "کے مضافات کے ایک گاؤں میں لگ بھگ چار سو برس پہلے گاؤں کے لوگ اپنے گھروں میں تھے یا کھیتوں میں کام کر رہے تھے کہ انھوں نے گرجا گھرکی گھنٹی کی آواز سنی۔
پرہیزگاری کے ان دنوں میں گھنٹی بار بار بجا کرتی، اس لیے اس آواز پرکوئی حیران نہ ہوا، مگر یہ گھنٹی موت کا اعلان تھی اور گاؤں میں کسی کی موت کی خبر نہیں تھی۔ گاؤں والے جلد ہی گرجا گھر کے سامنے اکٹھا ہوگئے اور یہ انتظارکرنے لگے کہ اب انھیں بتایا جائے گا کہ کون مرگیا ہے۔ گھنٹی اورکچھ دیر تک بجتی رہی پھر خاموش ہوگئی۔ تب ایک دیہاتی گرجے سے باہر آیا وہ وہاں عام دنوں میں گھنٹی بجانے والا نہیں تھا۔ گاؤں والوں نے اس سے پوچھا کہ گھنٹی بجانے والا کہاں گیا اور یہ کہ کون مرگیا۔
دیہاتی نے جواب دیا گھنٹی میں نے بجائی تھی۔ میں نے انصاف کی موت کی گھنٹی بجائی تھی، اس لیے کہ اب انصاف نہیں رہا۔ علاقے کے لالچی زمین دار اپنی زمین کی حد بندی کے پتھروں کی جگہ خاموشی سے بدلتا جا رہا تھا اور دیہاتی کی زمین پر قبضہ کرتا جا رہا تھا۔ ہر مرتبہ جب زمین دار حد بندی کے پتھر کی جگہ بدلتا، دیہاتی کی ملکیت زمین تھوڑا سا اور سکڑ جاتی۔ غریب دیہاتی نے احتجاج کیا، پھر رحم کی درخواست کی اور آخرکار قانون سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس کی زمین یوں ہی لٹتی رہی۔ آخرکار مایوس ہوکر اس نے اعلان کرنے کا فیصلہ کیا کہ اب انصاف نہ رہا۔
شاید وہ سمجھتا تھا کہ اس کی یہ وحشت زدہ حرکت ساری کائنات کی گھنٹیوں کو جنبش میں لے آئے گی۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ یہ گھنٹیاں تبھی خاموش ہوں گی جب انصاف دوبارہ جی اٹھے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ پھر کیا ہوا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آیا گاؤں والے اس غریب دیہاتی کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے یا پھر ایک بار جب کہ انصاف کی موت کا اعلان ہوچکا تھا، وہ سر جھکائے اپنی روز مرہ زندگی کی مشقت کی طرف لوٹ آئے۔
تاریخ کبھی مکمل کہانی نہیں بیان کرتی۔ میں تصورکرتا ہوں کہ یہ واحد موقع تھا، دنیا میں کسی بھی جگہ جب کہ گھنٹی نے انصاف کی موت کا ماتم کیا تھا۔ یہ گجر پھر نہ بجایا گیا مگر انصاف روز مرتا ہے اور جب بھی انصاف زخموں کی تاب نہ لاکر ڈھیر ہو جاتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ان لوگوں کے لیے کوئی وجود ہی نہ تھا جو اس پر اعتبار کرتے تھے، جو اس کی توقع رکھتے تھے جس کی توقع کے ہم سب حق دار ہیں، سچا اورکھرا انصاف۔ میں اس انصاف کی بات نہیں کر رہا، جو تھیٹر کے اداکاروں کا سارنگ دھار لیتا ہے اور کھوکھلی خطابت سے ہمیں دھوکا دیتا ہے یا وہ انصاف جو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ دیے جانے اور ترازو کے پلڑے جھک جانے کی اجازت دیتا ہے۔
میں اس انصاف کی بات نہیں کررہا جس کی تلوار کی دھار ایک طرف سے تیر ہے اور دوسری طرف سے کند۔ میرا انصاف منکسر المزاج ہے اور ہمیشہ مسکینوں کا ساتھ دیتا ہے۔ اس سیاق و سباق میں انصاف، اخلاقیات کا ہم معنی ہے اور روحانی صحت کے لیے لازمی۔ میں صرف اس انصاف کی بات نہیں کر رہا جو عدالت سے حاصل ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی اہم تر، وہ انصاف جو فطری طور پر معاشرے کے اپنے اعمال سے پھوٹتا ہے، وہ انصاف جو ہر انسان کے اس حق کا احترام کرتا ہے کہ ایک بنیادی اخلاقی اور لازم کے طور پر اپنا وجود رکھے۔ "
کیا آج پاکستان میں چارو ں اطراف لوگ بے بسی کے عالم میں گھنٹیوں پر گھنٹیاں نہیں بجا رہے ہیں۔ کیا ملک بھر میں کروڑوں لوگ " انصاف مرگیا ہے " کی صدائیں بلند نہیں کر رہے ہیں۔ کیا آپ کو گھنٹیوں اور صداؤں کی آوازیں سنائی نہیں دے رہی ہیں؟ کیا لوگوں کا رونا چلانا اور چیخنا دکھائی نہیں دے رہا ہے، کہیں آپ بہرے اور اندھے تو نہیں ہوگئے ہیں۔
ترک ادیب اور ہان پامک کے ناول " میرا نام سرخ ہے " کے پہلے ہی باب میں ایک کنویں سے ایک مردے کی آواز آتی ہے کہ اسے قتل کیا گیا ہے، وہ شاہی مصور آفندی ہے۔ آپ اورکچھ نہ کریں صرف پاکستان کے سب ہی قبرستانوں میں گھوم کر دیکھ لیں، ایک ایک قبرکے قریب جاکر اس میں سے باہر نکلنے والی سرگوشی کو سن لیں، ہر قبر سے ایک ہی آواز آرہی ہوگی کہ مجھے قتل کیا گیا ہے کوئی اس بات کی فریاد کر رہا ہوگا کہ میرا قتل روزگارکے ہاتھوں ہوا ہے، کوئی مہنگائی کے خلاف گواہی دے رہا ہوگا، کوئی ملک کے نظام کو مورد الزام ٹہرا رہا ہوگا توکوئی اشرافیہ کو اپنا قاتل قرار دے رہا ہوگا۔
کوئی فاقوں اور ذلت کو قصور وار دے رہا ہوگا۔ قبروں سے نکلنے والے الفاظ تم سے لپیٹ کر تم میں اس طرح پیوست ہوجائیں گے کہ پھر تم لاکھ انھیں کروچ کروچ کر اپنے جسم سے باہر نکال پھینکنا چاہوں گے پھر بھی وہ تمہارے جسم سے نکل نہیں پائیں گے اور باقی جو ابھی تک زندہ ہیں وہ مردوں سے بھی بدتر ہیں چلتی پھرتی لاشوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔ سب اپنی اپنی باری کے انتظار میں ہیں وہ لوگ جنھیں ذاتی سطح پر اپنے حقوق کی پامالی کا تجربہ ہوا ہو، جنھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے پیاروں کو قتل ہوتے دیکھا ہو جن کی زندگیاں خسارے میں، خوف میں اور بدگمانی میں گزری ہوں صرف وہ ہی بتاسکتے ہیں کہ اس نوعیت کے حالات میں زندگی گذارنا کیا ہوتا ہے یا جب ایسے اشتعال دلانے والے حالات کاسامنا ہوتو ان کا رد عمل کیسا ہوتا ہے۔
تین ہزار برس سے کوریا اور چین کی سیاسیات کا مرکزی عقیدہ یہ رہا ہے کہ عوام ہی جنت ہیں۔ عوام کی خو اہشات جنت کی خواہشات ہیں اسی طرح لوگوں کا احترام کرو، جیسے تم جنت کا احترام کروگے۔ یاد رہے صرف اقتصادی ترقی اور سماجی انصاف ہی سے زندگی قائم رہتی ہے۔ آدمی کا وجود اسی ماحول میں تکمیل پاتا ہے جہاں باہمی احترام ہو، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب کبھی بنی نوع انسان کا ان لوگوں کے ہاتھوں جو سماج کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ اس کے بنیادی حقوق کے سلسلے میں احترام نہیں کیا جاتا تو نتیجے میں ہم جبر سے، غلامی، خود سری، افراد کی موت اور عوام کی موت سے دو چار ہوتے ہیں۔
ابھی بھی وقت ہے کہ پاکستان کے سماج کے ذمے دار جاگ جائیں اور انھیں عظیم شاعر جان ڈن کا مشہور مقولہ ضرور پڑھ لینا چاہیے " ایک فرد کی موت بھی مجھے کوتاہ کردیتی ہے اس لیے کہ میں بنی نوع انسان کا حصہ ہوں لہٰذا یہ کبھی نہ پوچھنا کہ اس بارگھنٹی کس کے لیے بج رہی ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ تمہارے لیے ہی بج رہی ہو۔ "