Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Hum Bhi Kamyab Ho Sakte Hain

Hum Bhi Kamyab Ho Sakte Hain

قدیم ہندوستان میں اشوک اعظم کی طرف سے متعدد شاہی فرمان جاری ہوئے، جنھیں حقوق انسانی کے ابتدائی تصورات کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔

اشوک اعظم نے 238 سے 265 ق۔ م تک ہندوستان اور افغانستان پر حکومت کی اشوک اعظم کو اس ناتے سے ایشیاء میں " بابائے انسانی حقوق " کہا جاسکتا ہے۔ کئی دانشور اشوک بادشاہ کے شاہی فرامین کو دنیا میں انسانی حقوق کا پہلا عالمگیر اعلامیہ قرار دیتے ہیں۔

اشوک بادشاہ نے جانوروں کے حقوق کے متعلق بھی فرمان جاری کیے۔ ہندوستان کی موجودہ ریاست اڑیسہ میں برپا ہونے والی خونی جنگ کے بعد اشوک بادشاہ نے تشدد کو ترک کرکے بدھ مت اختیار کر کے دھرم کی تبلیغ کا راستہ چن لیا اور تمام مذاہب اور عقیدوں کے احترام اور آزادی کی پالیسی اختیار کی۔

اشوک بادشاہ نے بہت سارے فرمان چٹانوں اور ستونوں پر کندہ کروائے، بشمول شیر کی شبیہ والے سارناتھ کے ستون کے جو کہ آج کل ہندوستان کا قومی نشان ہے، چٹانوں پر کندہ 14 فرمانوں میں سے مندرجہ ذیل بنیادی حقوق سے مناسبت رکھتے ہیں۔

(1) جانوروں کا سر عام ذبح کرنا ممنوع ہوگا۔ (2)جانوروں کے لیے شفا خانے بنائے جائیں۔ (3) وزراء کا فرض ہے کہ وہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے دھرم کو فر وغ دیں۔ (4) ہر مذہب کے لوگ اپنے علاقے میں آرام و سکون سے رہیں، اس حق میں مداخلت نہ ہوگی۔ (5) دھرم کا مطلب یہ ہے کہ نوکروں، ملازموں کے ساتھ حسن سلو ک اور اساتذہ کا احترام۔ (6) تمام جانوروں، دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ تحمل اور فراخ دلی کا برتائو کیا جائے اور کسی بھی جاندار کو قتل نہ کیا جائے۔ (7) تمام مذاہب کے بنیادی عقائد کو فروغ دیا جائے۔

روا داری اور برداشت کے لحاظ سے دوسرا معتبر اور قابل ذکر نام ہندوستان کے شنہشاہ اکبر اعظم کا ہے۔ شنہشاہ اکبر نے کئی انسانی حقوق کو مروج اور مختلف سماجی اور مذہبی روایات کی برداشت کو فروغ دیا، جس میں اپنے عقائد کے مطابق پرستش کا حق بھی شامل تھا۔ اکبر شہنشاہ نے تعصب اور عدم رواداری کی ممانعت اور اپنی بادشاہت میں غیر مسلموں پر اضافی ٹیکس کا خاتمہ کر دیا۔

شہنشاہ اکبر اس بات کی وکالت کرتا تھا کہ کسی بھی فرد کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور ہر فرد کو کوئی بھی عقیدہ اختیار کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ جب یورپ احیائے علوم سے برسوں پیچھے تھا تو شہنشاہ اکبر اس قسم کی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ شہنشاہ اکبر نے غلامی اور ستی جیسے غیر اخلاقی رواجوں کی حوصلہ شکنی کی، اس طرح شہنشاہ اکبر نے حقوق انسانی کے احترام کو عملی طور پر لاگو کیا۔

پوری دنیا میں سترہویں صدی میں یہ خیال ابھرا کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے، لیکن اسے ہر جگہ پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے۔ پابندیوں کے ساتھ آزادی کا تصور بے معنی ہے، قانونی اعتبار سے بنیادی حقوق جدید دور کی جمہوری ریاست کے شہریوں کی وہ مراعات ہیں، جنھیں ریاست تسلیم کرکے نافذ کرتی ہے، جب حقوق کو آئینی تحفظ دے دیا جائے تو انھیں بنیادی حقوق کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے، کیونکہ انھیں حکومت کی مداخلت بے جا سے بھی تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے۔

بنیادی حقوق کو آئینی دستاویز میں شامل کرنے کا آغاز دور جدید میں امریکن نظام میں ملتا ہے، بنیادی حقوق کا تعلق انسانی معاشرے سے اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ اس کے بغیر ایک اچھے معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بنیادی حقوق کی تاریخ انقلاب فرانس 1789 کے بعد شروع ہوتی ہے۔ انقلاب کے بعد انسانی حقوق کی بنیاد رکھی گئی اور باقاعدہ انسانی حقوق کا اعلان نامہ شایع ہوا۔ زمانہ جدید میں جب آئین سازی کا رواج شروع ہوا تو فرانس کی تقلید کرتے ہوئے آئین میں ایک باب بنیادی انسانی حقوق کا بھی رکھا جاتا ہے۔

1973 کا آئین پاکستان کا تیسرا قومی آئین ہے، یہ آئین 10 اپریل 1973 کو منظور ہوا۔ 13 اپریل1973 کو اس پر صدر مملکت نے دستخط کیے اور 14 اگست 1973 کو مکمل نافذ ہوا۔ آئین پاکستان میں بنیادی حقوق کا ذکر حصہ دوم کے شروع میں ہے۔ آئین پاکستان میں کل دفعات 280 ہیں، بنیادی حقوق کا ذکر دفعات 8 سے 28 تک ہے، بنیادی حقوق ہر شہری کو بلا امتیاز رنگ و نسل، عقیدے، ذات اور مذہب کے حاصل ہوتے ہیں۔ ملک میں ان بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے آزاد عدلیہ کے قیام پر زور دیا گیا ہے۔

اعلیٰ عدالتوں کا اولین فرض ہے کہ ان بنیادی حقوق کا تحفظ کرے اور یہ اختیار اعلیٰ عدالتوں کو آئین کی دفعہ 184 کے ذیلی دفعہ3 کے تحت حاصل ہے۔ آرٹیکل نمبر9 کے تحت کسی بھی شخص کو زندہ رہنے کے حق جو کہ اسے قانون کے مطابق حاصل ہے، سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اس آرٹیکل کی وضاحت اس طرح ہے کہ زندہ رہنے کا حق ہر انسان کو حاصل ہے، اس بات کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ کسی دوسرے پر ہاتھ اٹھائے اور اس کی زندگی کو ختم کر دے۔

ملٹن کا قول ہے جو آزادی کا دلدادہ ہو، اس کو اس سے پہلے دانا اور دیانت دار ہونا ضروری ہے، وجہ یہ ہے کہ آزادی نہ فروخت ہوتی ہے اور نہ ہی بخشی جاتی ہے بلکہ اس کو حاصل کرنے کے لیے عملی جدوجہد، ایثار، قربانی اور استعداد کی ضرورت ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ امن باہر کی دنیا میں نہیں بلکہ خود انسان کی ذات کے اندر ہی موجود ہے۔

اسلام یہ بھی سکھاتا ہے کہ آدمی کو اپنی فکر میں آزادی اور تنقید کے رویے کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم کامیاب ہوسکتے ہیں، ہمیں صرف اپنے رویوں کو بدلنا ہوگا، منفی سوچ کے بجائے مثبت سوچ پیدا کرنی ہوگی۔ ایک دوسرے کو تسلیم اور برداشت کرنا ہوگا۔ ایک دوسرے سے محبت کرنا ہوگی اور یہی سوچ ہماری تخلیقی سوچ کو آزاد کردے گی۔ ہم زندگی کی جنگ میں ہار ے ضرور ہیں لیکن کسی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے ہیں۔

آپ کوئی ایک ملک بتا دیجیے جہاں سو فیصد ایک مذہب، فرقے، زبان، مسلک، رنگ و نسل کے لوگ رہتے ہوں جہاں تک آپ کی نظریں یا سوچ جاسکتی ہے دیکھ لیں اور سوچ لیں ایک بار پھر دیکھ لیں اور سوچ لیں ہر بار آپ کو احساس ہوگا کہ دنیا بھر کے لوگوں نے اختلاف، مختلف نقطہ نظر، مختلف عقیدوں، مختلف مذاہب کے باوجود امن و محبت و اتحاد کے ساتھ اور ایک ساتھ جینا سیکھ لیا ہے اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے کا احترام بھی سیکھ چکے ہیں۔

پوری دنیا کی ترقی اور خوشحالی کا یہ ہی راز ہے کہ انھوں نے اختلاف پر اتفاق کر لیا ہے۔ یاد رہے بڑے سے بڑا جہاز اس وقت تک نہیں ڈوب سکتا، جب تک اس کے اندر سوراخ نہ ہوجائے۔ اختلاف پر اختلاف بڑی جہالت ہے، مذہب انسانوں کے ہوتے ہیں ریاست کے نہیں۔ مذہب کا تعلق عقیدے سے ہوتا ہے۔

عقیدہ انسان کو خدا سے جوڑتا ہے جب کہ ریاست کا تعلق شہری سے ہوتا ہے، نہ ہر شہری کا مذہب ایک ہوتا ہے نہ عقیدہ نہ ایک زبان۔ ایک ریاست کو چلانے کے لیے ایک غیر جانب دار، غیر مذہبی قانون کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ہر شہری اپنے عقائد کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکے۔