ایک امریکی ریڈ انڈین سردارکا پوتا اپنے ایک دوست سے بہت رنجیدہ اور بدلے کی آگ میں جلتا ہوا، اس کے پاس آیا تو اس نے اس کی کہانی سن کر کہا "ہم میں سے ہر شخص کے اندر دو بھیڑیے ہوتے ہیں جو آپس میں مسلسل بر سر پیکار اور گتھم گتھا رہتے ہیں، ایک بھیڑیا اچھا ہے وہ محبت، استقامت، قربانی، فیاضی، سچائی اور ایمان کی علامت ہے جب کہ دوسرا بھیڑیا شیطانی فطرت رکھتا ہے اور غصے، حسد، پچھتاوے، غم، حرص، بڑے بولے پن، غرور، جھوٹ، احساس کمتری اور انا کی علامت ہے۔ بس پوری زندگی ہمارے اندر دونوں بھیڑیے آپس میں لڑتے بھڑتے رہتے ہیں اور جو جیت جائے وہ ہمارے اندر پر حکمرانی کرتا ہے۔"
پوتے نے اپنے سردار دادا کی آنکھوں میں جھانکا اور پوچھا " لیکن کون سا بھیڑیا جیتتا ہے" سردار مسکرایا اور اس کا کاندھا تھپک کر بولا " دونوں میں سے وہ بھیڑیا جیت جاتا ہے، جسے تم زیادہ گوشت کھلاتے ہو"کیا کبھی آپ نے اس بات پر سوچا ہے کہ لوگوں کی اکثریت آخرکیوں دوسرے بھیڑیے کو ہی زیادہ گوشت کھلاتی ہے اورکیوں اسے اپنے اندر حکمرانی کرنے دیتی ہے۔
ہمارے ملک کے اندرآخر ایسے لوگوں کی اکثریت کیوں ہے، یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب ڈھونڈنا انتہائی ضروری ہے تاکہ انھیں بھی سکون مل سکے اور انھیں بھی جنھوں کا سکون انھوں نے غارت کررکھا ہے۔
قدیم یونانی دانشوروں اورفلسفیوں نے دنیا کو زندگی کی حقیقتوں اورسچائی سے روشناس کروایا۔ سقراط کی ساری تعلیم "خود کو پہچانیے" کے گرد گھومتی ہے۔ ان گنت انسانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ پوری زندگی خود کوکبھی پہچان ہی نہیں پاتے ہیں، وہ ہمیشہ خود سے اجنبی ہی رہتے ہیں، وہ اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی زندگی جیتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ اگر اپنے آپ کو پہچان لیتے تو پھر اپنی زندگی جیتے۔
یہ المیہ ہمارے ہاں صرف عام انسانوں کا ہی نہیں بلکہ ہر خاص، طاقتوروں، با اختیاروں اور تخت پر بیٹھنے والوں کا بھی ہے۔ یہ المیہ اس لیے زیادہ اذیت ناک ہے کہ وہ یہ جانتے ہی نہیں ہیں کہ وہ کون ہیں، ان کے اندر رہنے والے انسانوں کی اصل شناخت اور پہچان کیا ہے؟ وہ دوسروں سے کیسے منفرد اور ممتاز ہیں۔ شاہراہ زندگی پر ان کی منزل کیا اورکہاں ہے؟ وہ صبح اٹھتے کیوں ہیں، ان کی زندگی کے اختیارات کون کنٹرول کرتا ہے قسمت، حالات، خارجی عناصر یا وہ خود۔ ان کے معاملات زندگی کا انتخاب کون کرتا ہے؟
نجومی، والدین، دوست یا وہ خود، یہ سب اپنے آپ سے اجنبی مخلوق عام انسانوں کو اپنی جاگیر، اپنے محلوں کی موجود شے اور اپنی ملکیت سمجھے بیٹھے ہیں یہ انھیں انسان تک تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ مخلوق زندگی کا مقصد صرف لوٹ مار، عیش و آرام، کرپشن، دولت اور چیزوں کے ذخیروں کو مانے بیٹھے ہیں۔ یہ اس قدر ذہنی مریض ہوچکے ہیں کہ اپنے ساتھیوں تک کو اپنے مفادات کی خاطر چیرنے اور پھاڑنے کی حد تک چلے جاتے ہیں۔ ہمارے سماج میں موجود ہر خرابیوں اور برائیوں کے یہ اکلوتے ذمے دار ہیں۔
یزد نے کہا تھا آدم کے بیٹو! اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذلیل وخوار نہ کرو کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ پاگل کتے بھی اپنا گوشت خود نہیں چباتے۔ جب کہ ایمرسن کہتا ہے کہ "کسی ملک کی تہذیب کا صحیح معیار نہ تو مردم شماری کے اعداد ہیں نہ بڑے بڑے شہروں کا وجود، نہ غلے کی افراط اور دولت کی اکثریت بلکہ اس کا صحیح معیار صرف یہ ہے کہ وہ ملک کس قسم کے انسان پیدا کرتا ہے۔"
انسان تمام جانوروں میں وہ واحد جانور ہے جوکیا ہورہا ہے اورکیا ہونا چاہیے کہ فرق کو سمجھتا ہے، جو سماج اخلاق سے عاری ہو جاتا ہے، وہ تباہ ہوجاتا ہے۔ انسانی تاریخ کی ساری ناکامیاں اخلاقی ناکامیاں تھیں ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ ہمیشہ جگہیں تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ ظلم، زیادتی، ناانصافی کے ذریعے اپنی جگہ اور مقام پر برقرار رہنے کی کوششیں ہمیشہ ہی ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔
کار سیرا جسے اب کو رفوکہتے ہیں 427ق م میں حکمران امرا نے عوامی پارٹی کے ساتھ رہنمائوں کو قتل کر دیا اور اس پر جمہور پسندوں نے امراء کا تختہ الٹ دیا اور ان میں سے پچاس کے خلاف اپنی قائم کردہ عوامی تحفظ کی کمیٹی میں مقدمہ چلایا اور ان سب کو سزائے موت دے دی گئی اور طبقہ امرا میں سے سیکڑوں کو بھوکا مار ڈالا۔
اس دور کے متعلق تھوسی ڈائیڈ یس نے منظرکشی کرتے ہوئے لکھا تھا " سات دن تک کار اسیرا کے باشندے اپنے ان ساتھی شہریوں کے قتل عام میں مصروف رہے جنھیں وہ اپنا دشمن سمجھتے تھے ہر طرف موت کی حکمرانی تھی اور جیسا کہ اکثر ایسے موقعوں پر ہوتا ہے ظلم و بربریت میں اپنی تمام حدیں پھلانگ گئے بیٹوں کو باپوں نے قتل کردیا۔
عبادت گاہوں میں پناہ لینے والوں کو باہر گھسیٹ لیا گیا پھر وہ تہہ تیغ کر دیے گئے۔ اسی طور پر انقلاب شہر بہ شہر پھیلتا گیا اور جن جگہوں پر یہ بعد میں پہنچا وہاں پچھلی کارگذاریوں کے بارے میں سن کر انتقامی کارروائیاں اور بھی پرتشدد اور ظالمانہ انداز میں کی گئیں۔
کار سیرا کے لوگوں نے ان جرائم کی پہلی مثال قائم کی یعنی محکوموں کی جو ہمیشہ ا پنے حکمرانوں کے غیر منصفانہ اور پرتشدد برتائو کا شکار رہے تھے اپنے آقائوں سے بدلہ، تاریخ کا پہلا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کبھی بھی کسی نے سبق حاصل نہیں کیا اس لیے ہمیشہ ہی ظالم اور جابر حکمران عبرت کا نشان نہ بنے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے حکمران تاریخ کا سبق بنتے ہیں یا خود تاریخ بنتے ہیں۔