چارلس بودلیئر نے " فنکار " اکتوبر 1857 کے شمارے میں "Madame Bovary" پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ فلابیئر نے اپنے پہلے ہی ناول میں جوکچھ کر دکھایا ہے، وہ دوسرے ناول نگار زندگی بھر میں حاصل نہیں کر پاتے۔ اسے جس سماج سے سابقہ پڑا، اس میں اخلاقی زوال کے ساتھ ساتھ بسیار خوری اور دولت کی پرستش عام تھی اور زندگی کی اعلیٰ قدریں ختم ہوچکی تھیں۔ اس دورکے لوگوں کو ہر اس چیز سے نفرت تھی جس میں نیکی اور خیرکی بو آرہی ہو۔ فلابئیر کا ایمان تھا کہ امیر وکبیر طبقے سے نفرت نیکی کی طرف پہلا قدم ہے۔
Diderot کا کہنا تھا کہ ہمارے خارجی حالات اور سماجی ماحول کا ہماری اخلاقی زندگی سے گہرا رشتہ ہے اور ہم اپنی سماجی اور خاندانی زندگی میں ان اثرات سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ اس نقطہ نظر سے ادب میں عام انسانوں کے سطحی مطالعے کے بجائے افراد کے مطالعے کو اہمیت دی جانے لگی۔ انیسویں صدی کے فرانسیسی ادب میں یہ امر خاص طور پر واضح ہے کہ سماجی حالات قومی و نسلی خصوصیات اور تاریخی واقعات کا انسانی کردار پرگہرا اثر پڑتا ہے۔ بالزاک نے انسانوں کو " سماجی جانور " ان معنوں میں سمجھا کہ افراد زندگی کی تگ و دو میں اپنی نجی خواہشات کی تکمیل اور مفادات کے حصول کے لیے ہمیشہ کو شاں رہتے ہیں اور یہ جدوجہد بالاخر ان کے کردارکو ایک مخصوص سانچے میں ڈھال دیتی ہے۔
سماج اور اقتصادیات کا آپس میں گہرا اور اٹوٹ رشتہ ہے جب لوگ خوشحال ہوتے ہیں، اقتصادی حالات مستحکم ہوتے ہیں تو سماج مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے ریاست مضبوط اور طاقتور ہوجاتی ہے۔ انسانی تاریخ کو قدیم، متوسط اور جدید زمانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ تاریخ کی یہ تقسیم عہد وسطی کے مفکروں کی پیدا کی ہوئی ہے بلکہ انسانی تاریخ کو شکاری، زرعی اور دستکاری و صنعتی اور مشینی عہد میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
انسانی تاریخ میں جتنے عظیم واقعات پیش آئے ہیں وہ سیاسی نہیں بلکہ اقتصادی ہیں۔ میرا تھون کی جنگ، سیزرکا قتل اور انقلاب فرانس نہیں بلکہ زرعی اور صنعتی انقلاب تاریخ کے اہم اور عظیم واقعات ہیں۔ اس لیے کہ ان میں سے ایک نے زندگی کے نظام کو شکاری سے زرعی بنایا اور دوسرے نے گھریلو صنعتوں کی جگہ کارخانوں کی صنعتوں کو رائج کیا۔
اقتصادی حالات سلطنتوں اور ریاستوں کے عروج اور زوال کا سبب ہوتے ہیں، سیاسی اخلاقی اور اجتماعی حالات کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بد اخلاقی، کرپشن، تعیش پرستی یہ اسباب نہیں بلکہ نتائج ہیں ہر چیزکی تہہ میں زمین کا فرق اور اس کی نوعیت اپنا کام کرتی ہے، مصر اپنے لوہے کی وجہ سے ختم ہوا۔ قدیم برطانیہ اپنے ٹین کی وجہ سے اور جدید برطانیہ اپنے لوہے اور کوئلے کی وجہ سے۔ ایتھنزکی چاندی کی کانیں جب خالی ہوگئیں تو ایتھنزکی قوت ختم ہوگئی۔ مقدونیہ کے سونے نے بادشاہ فلپ اور سکندرکے ہاتھ مضبوط کیے۔
روما نے ہسپانیہ کی چاندی کی کانوں کے لیے کار تھیج سے جنگ لڑی اور جب اس کی زمین بنجر ہوگئی تو وہ زوال پذیر ہوگئی۔ قبل مسیح ایتھنز میں چرائے ہوئے سونے کی بدولت شاندار صنم خانے تعمیر کیے گئے۔ فن کے اکثر زریں عہد دولت سمیٹنے کے بعد وجودمیں آئے، لیکن ایتھنز غذا کے لیے درآمد کا محتاج تھا، اسپارٹا نے جوں ہی اس کا محاصرہ کیا تو ایتھنزکے عوام بھوکے مرنے لگے اور ہتھیار ڈالنے پر مجبورہوگئے، اس کے بعد یہ عظم شہر پھر نہ سنبھل سکا۔
یونان میں مزدوروں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے سے صنعتی جدت اور ترقی رک گئی عورتوں کی غلامی سے صحت مند محبت کے امکانات ختم ہوگئے اور مرد پرستی پیدا ہوئی اور اس نے یونانی صنم تراشی کو متاثر کیا۔ مادی چیزوں کی پیداوارکے طریقے زندگی کے اجتماعی سیاسی اور روحانی وظائف کو متاثر کرتے ہیں، لوگوں کا شعور ان کے وجود کا باعث نہیں بنتا بلکہ ان کے اجتماعی وجود سے ان کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ فرد یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے خیالات، اپنا نظام فلسفہ، اپنے اخلاقی تصورات اور مذہبی عقائد اپنا فنی شعور، منطق غیر جانبدار استدلال سے حاصل کیے ہیں وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی زندگی کے اقتصادی حالات نے اس کے افکار کوکس طرح متاثر کیا ہے، ماضی میں کلیسا کی طاقت ان مظلوم لوگوں کے افلاس اور تباہی پر مبنی تھی جو روحانی سکون اور امید کے بھوکے تھے۔
اس کا انحصار لوگوں کی جہالت اور توہم پرستی پر تھا جو افلاس کا لازمی نتیجہ ہے۔ سیاسی طاقت اقتصادی طاقت کے بعد ضرور حاصل ہوتی ہے۔ کامیاب، انقلاب، اقتصادی فتوحات پر محض سیاسی دستخطوں کا کام کرتے ہیں، جیسا کہ ہیر نگٹن نے کہا تھا کہ حکومت کی ہیت کا انحصار زمین کی تقسیم پر ہے، اگر ملک کی پیشتر زمین ایک شخص کے ہاتھوں میں ہے تو نظام حکومت بادشاہت ہوگا اور چند لوگوں کے ہاتھ میں ہے تو ریئسیت اور اگر عوام کے ہاتھ میں ہے جمہوریت، تاریخ میں اخلاقی قوتوں اور قدروں کی کوئی جگہ نہیں۔ قوموں اور گروہوں کی آرزؤں کی بنیاد ہمیشہ معاشی ہوتی ہے۔
سوویت یونین سمیت جتنے ملک ٹوٹے یا افریقہ کے ممالک کی طرح برباد ہوئے یا افغانستان اور پاکستان کی طرح زوال پذیر ہوئے ان سب کے پیچھے اقتصادی حالات کی تباہی کار فرما ہے، جب لوگوں کی اکثریت بدحال اور برباد ہوجاتی ہے اور دولت سمٹ کر چند لوگوں کی لونڈی بن جاتی ہے تو پھر ایسے سماج اور ریاست میں اخلاقی اقدار اور قدریں ناپید ہوجاتی ہیں۔ ایسے سماج میں انسان نہیں بلکہ دونوں ہی جانب جانور بستے ہیں۔ جانوروں کی اکثریت صرف اپنے پیٹ بھرنے کی فکر میں رہتی ہے اور جانوروں کی اقلیت اپنی چیزوں اور دولت کو محفوظ رکھنے کے غم میں مبتلا رہتی ہے۔ اس طرح سماج میں ذہنی بدحالی کی مکمل حکمرانی قائم ہوجاتی ہے۔ یہ منظر آج ہم سب کے سامنے ہے ہم یا تو اکثریت میں شامل ہیں یا پھر اقلیت میں۔
آئسو کریٹس نے 366 قبل از مسیح میں لکھا تھا " امراء کا رویہ اس قدر غیر انسانی ہوگیا ہے کہ وہ اپنی اشیاء ضرورت مندوں کو بطور قرض امداد دینے کے بجائے انھیں سمندر میں پھینک دینے کو ترجیح دیتے ہیں اور غربا کا یہ حال ہے کہ انھیں کوئی خزانہ مل جانے کی اس قدر خوشی نہیں ہوگی، جتنی کہ کسی امیر کے مال اسباب پر قبضہ کرنے سے ہوگی۔" کیا یہ سچ نہیں ہے کہ صدیوں بعد وہ ہی منظر آج پاکستان میں بنا ہوا ہے۔ دونوں ہی جانب انتہا ہے ایک طرف بھوک، غربت، افلاس، بیماریاں، جہالت، بربادیاں اور ذلتیں ہیں تو دوسری جانب عیش وآرام، عیاشیاں، جاگیروں، محلوں، گاڑیوں اور روپے پیسوں کی انتہا ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ بھی نہیں ہے۔
ایک طرف گدھ ہیں جو دن رات لوگوں کو نوچ اورکھوسٹ رہے ہیں تو دوسری جانب وہ لوگ ہیں جوگدھوں سے اپنے جسموں کو بچانے کے لیے دن رات بھاگتے اور چھپتے پھررہے ہیں۔ ایک طرف آنسو، سسکیاں، آہ و بکاہ، گریہ اور ماتم ہے تو دوسری جانب قہقہے، جشن اور خوشیوں کا سمندر ہے۔ ایک طرف زرد آنکھیں، پیلے چہرے، مٹی میں جکڑے پاؤں، خشک ہونٹ اور گندے چیتھڑوں میں چھپے جسم ہیں تودوسری جانب عالی شان لباسوں میں ملبوس چہروں سے ٹپکتی خوشحالی، شاندار جوتوں میں چھپے جسم ہیں اور بیچ میں خلا ہے۔