قدیم زمانے سے لے کر اب تک تمام فلسفی اور دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ عقل کے بغیر زندگی بے کار ہے۔ اس کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں، قید خانے میں سقراط بن کے رہنا، اس سے بہتر ہے کہ ہم تخت پرکیلیان بن کر رہیں۔ یہ عقل ہی تھی جس سے ڈیکارٹ کو محبت ہوگئی تھی۔
سپنبوزا نے اس کے لیے فاقے کیے برونو اس کی خاطر زندہ جلا دیا گیا۔ انقلاب فرانس نے عقل کی حسین دیوی کی پرستش کے لیے کئی صنم کدے تعمیر کیے۔ سقراط نے اس کی خاطر زہر کا پیالہ پیا، ابن رشد اس کی خاطر جلاوطن ہوا، ژان دارک اسی کی خاطر "ملحدہ " کہلائی گئی اور رون کے بازار میں زندہ جلا دی گئی۔ گیلیگو کے زندگی کے آخری دس سال اسی کی وجہ سے جیل میں بسر ہوئے سروتیس بھی اسی کی خاطر اپنی کتابوں کے ساتھ زندہ جلا دیا گیا۔
مادام رولاں اسی کی وجہ سے تختہ دار پر لٹکائی گئی، اگر علم ودانش کے یہ علم بردار تلواروں، زہر کے پیالوں، آگ اور تختہ دار سے ڈر جاتے تو آج انسان کس حالت میں ہوتا؟ لیکن علم و حکمت کی ان قندیلوں کو جہالت کے دامن سے بجھانے کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں کیونکہ ان کے خیالات کو جلانے کے لیے ساری دنیا کا ایندھن ناکافی تھا اور انسانی غور و فکر کو زنجیروں میں نہ جکڑا جاسکا۔ جسم جل گئے لیکن ذہن زندہ رہے جرم و سزا کے اس دور کے بعد ان کے خیالات باقی رہے کیونکہ خیال نہیں مٹایا جاسکتا۔
انسان آتے رہے اور جاتے رہے لیکن عقل کا سفر جاری رہا۔ آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ اسی کی پوجا کی جاتی ہے کیونکہ اسی کی ہی مدد سے انسان اپنے دکھ کم کرتا جا رہا ہے، اسی کی وجہ ہی سے اس کی بے سکونی ختم ہوئی اسی کی وجہ سے اس کی دہشت اور خوف ختم ہوا، لیکن دنیا بھر کے بالکل برعکس ہم اس کی وجہ ہی سے بے سکونی میں ہیں اسی کی وجہ سے دہشت زدہ اور غمگین ہیں اسی کی وجہ سے دکھی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
آئیں ! اس کی وجوہات کو تلا ش کرتے ہیں، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے زمانے میں جس سرعت سے طرح طرح کی تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔ حتی کہ پیر یکلین کے عہد میں بھی نہیں ہوئیں۔ ہر چیز بدل گئی ہے فکرکو آزادی نصیب ہوئی، زراعت سے صنعت، دیہات سے قصبہ اور قصبے سے شہرکے ارتقا نے سائنس کے مقام کو بلند تر کردیا ہے۔
جمہوریت اور اشتراکیت نے جنم لیا ہے عورت کو آزادی حاصل ہوئی ہے پرانے اخلاقی نظام شکستہ ہوگئے ہیں زندگی آسان سے آسان تر ہوگئی ہے، لیکن ہمارے ہاں آج پھر سقراط کا زمانہ ہے۔ ہماری اخلاقی زندگی خطرے میں ہے، ہم انسانیت کے صرف چیتھڑے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ آج ہم میں سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ زندگی کے سارے پہلوئوں کا جائزہ لے سکے۔
ہم ہر شعبے میں ماہرین سے خائف ہیں، ایمانداری سے ہمیں ڈر لگتا ہے مساوات، برداشت، عدل و انصاف سے ہم خوفزدہ رہتے ہیں۔ جہالت کی چادر اوڑھ کر ہمیں سکون ملتا ہے، غور و فکر سے ہمیں نفرت ہے، سچائی اور دیانت سے ہمیں گھن آتی ہے۔ سوچنے سے ہماری طبعیت خراب ہونے لگتی ہے، جو سماج کی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے ہم مل کر اس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔
اپنے بوسیدہ عقائد کو اپنے اوپر زنجیروں میں ہر وقت جکڑنے رہنے سے ہمیں خوشی ملتی ہے اختلاف ہمیں برداشت نہیں ہوتا۔ بے شرمی، بے حسی اور بے حیائی ہمارے خون میں رچ بس گئی ہے۔ جہالت سے ہمیں محبت ہے جسمانی اور ذہنی بیماریوں میں سے ہم سکون حاصل کرتے ہیں، اپنے حکمرانوں کی نالائقی، لاعلمی، کرپشن، لوٹ مار، ان کی عیاشیوں، نا اہلی پر ہمیں ان پر پیار آتا ہے۔ ان کے کینسر زدہ فیصلوں، اقدامات اور عملوں پر دل کھول کر انھیں داد دیتے پھرتے ہیں، جہالوں کے غول کے غول سماج میں آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں انھیں روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے۔
ہم سب کی زندگی بے معنی ہوچکی ہے، اب ہم وحشی جانوروں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔ زندگی کے ڈرامے میں ہر شخص کو اپنا پارٹ تو یاد ہے لیکن وہ اس کے مطلب سے نابلد ہے۔ ان ہی وجوہات نے ہماری فکر کوکھوکھلا بنادیا ہے وہ شخص جسے اپنے ضمیر پر اعتماد نہیں ہوتا وہ زندگی کے اہم مسائل سے گریز کرتا ہے کیونکہ کسی وقت بھی زندگی کی یہ وسیع و عریض تجربہ گاہ اس کے حقیر جھوٹ کو بے نقاب کرسکتی ہے کسی وقت بھی وہ حقیقت کے سامنے برہنہ ہوکر لرزہ بد اندام ہو سکتا ہے۔ اس لیے وہ مسائل اور سچائی سے دور بھاگتا ہے وہ سچائی اور مسائل سے خوف زدہ رہتا ہے وہ اوراق الفاظ کے تہوں کے نیچے زندگی سے بے تعلقی ڈھونڈتا ہے۔
اگر ہمارے سماج میں عقل ہی مرجائے تو ہم کتنے سکون میں آجائیں گے، وہ ہی سکون جس کے لیے سارتر کی ماں ہر رات دعا مانگا کرتی تھی، جب عقل ہی نہیں ہوگی تو ہمیں کوئی اذیت، اذیت نہیں لگے گی۔ ہم کسی ناانصافی، ظلم و زیادتی پر آہ و بکائیں نہیں کریں گے۔
کسی عدم مساوات پر چیخ و پکار کریں گے نہ کسی با اختیار اور امراء کی گالیوں اور ذلت پر ماتم نہیں کریں گے نہ ہی اپنی فاقوں، غربت و افلاس، بیماریوں، بے روزگاری، مہنگائی پر روئیں گے اور نہ ہی خدا کو بار بار تنگ کریں گے۔ نہ ہی سچائی سے دور بھاگیں گے، نہ ہی زندگی سے بے تعلقی ڈھونڈیں گے۔ نہ ہی کسی کے جھنجھوڑے پر خوف زدہ ہونگے۔ اسی لیے آئیں مل کر دعا مانگتے ہیں کہ خدا ہمارے سماج میں عقل کو مار دے تا کہ 22کروڑ انسانوں کو سکون مل سکے۔