ہم جتنا اپنے آپ پر غور کرتے چلے جاتے ہیں، اتنا ہی اور الجھتے چلے جاتے ہیں، خوشحالی، کامیابی، خوشیوں، سکون کے لیے جتنا سفر کرتے ہیں، اتنی یہ چیزیں اور آگے بڑھ جاتی ہیں اب تو یقین ہو چلا ہے کہ فاصلے بھی ہمارے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب کا تعاقب کرتے ہیں تو ہزاروں نئے سوالات پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ اس لیے آج تک ایک سوال کو بھی سلجھا نہیں پائے ہیں تھکن کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ ٹھیک سے سانس بھی نہیں لے پارہے ہیں۔ ہماری کہانی یونان کی دیو مالائی کہانی کے کردار " سی فس " سے مختلف نہیں ہے، جسے دیوتاؤں کے دیو تاز یوس نے تا ابد ایک چٹان نما پتھر پہاڑ کی چوٹی پر لے جانے اور اسے وہاں سے لڑھکانے اور دوبارہ چوٹی پر لے جانے کی سخت سزا دی تھی۔
ہم سب کچھ اسی طرح کی سزا کا ٹ رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے بے حد متنازع اور ممتاز روسی نوبیل انعام یافتہ ناول نگار سولز ے نیتس نے 1962میں ایک ناول One Day in the Life of Ivan Ienisovich لکھا یہ ناول جب روسیوں نے پڑھا تو ان کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں، انھیں پہلی بار اسٹالن کے گلا گ جزیرے میں بنائے اذیت گھر کا علم ہوا اور یہ معلوم ہوا کہ اس اذیت گھر میں مجرم کے طور پر قید کیے جانے والوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا تھا وہ کس قدر ہیبت ناک اور اذیت ناک تھا۔
اس سب پر روسی قارئین کا یقین کرلینا اس لیے بھی قرین قیاس تھا کہ سولزے نیتسن نے جو کچھ لکھا تھا وہ، وہ ہی تھا جس کا تجربہ اور مشاہدہ اسے یہاں اپنی قید کے آٹھ برسوں میں ہوا تھا۔ نیتسن کو اس کیمپ میں قید کی سزا اس لیے دی گئی تھی کہ اس نے 1945میں اپنے ایک دوست کو لکھے گئے خط میں اسٹالن کے آمرانہ طرز حکومت پر شدید نکتہ چینی کی تھی۔
اگر آج سولز ے نتیسن زندہ ہوتے تو ہم انھیں پاکستان آنے کی دعوت دیتے، انھیں ملک کے گلی کوچوں، عام انسانوں کی بستیوں کی سیر کرواتے، جب وہ پاکستان کے کروڑوں انسانوں کا حال احوال، ان کی طرز زندگی، ان کی اذیتیں ان کی مصیبتیں اور تکلیفیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے تو پھر وہ چلانے پر مجبور ہوجاتے کہ پاکستان، پاکستانیوں کے لیے اسٹالن کے گلا گ جزیرے میں بنائے اذیت گھر سے کہیں زیادہ ہیبت ناک اور اذیت ناک اذیت گھر ہے۔
آج تقریباً ہر پاکستانی عظیم یونانی المیہ ڈرامہ نگار سو فوکلینر کی اس بات کا قائل ہوچکا ہے، جس کا عقیدہ تھا " زندہ رہنے سے مرجانا بہتر ہے پیدا نہ ہونا ہی خیر ہے " آج ہر پاکستانی اس سوال پر اپنا سر پھوڑ رہا ہے کہ آخر اس کے ساتھ اتنا بد ترین سلوک کیوں روا رکھا جا رہا ہے۔ بڑے فخر کے ساتھ مسلسل کہا جاتا ہے کہ پاکستان مملکت خداداد ہے تو خدا نے تو سب انسانوں کو مساوی پیدا کیا ہے مساوی حقوق عطا کیے ہیں، مساوی خوشیاں تقسیم کی ہیں تو پھر مملکت خدا داد میں کروڑوں انسان کیوں اذیت بھری زندگی گذار رہے ہیں کیوں ان کے ساتھ جانوروں سے زیادہ بد ترین سلوک کیا جا رہا ہے کیوں خدا کی عطا کردہ ہر شے کے لیے تڑپا یا جارہا ہے۔
کیا ہم سب پیدائشی گنا ہگار اور مجرم ہیں؟ جس کی سزائیں مسلسل جاری ہیں۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ہر شخص بوڑھا ہوچکا ہے جہاں بوڑھے پیدا ہورہے ہیں جہاں کوئی نوجوان، جوان، ادھیڑ عمر نہیں رہتا سب بوڑھے رہتے ہیں افسردہ، بھوکے، لاغر، بیمار، فکر مند، جنھیں دیکھ کر وحشت ہونے لگے جو نہ تو ہنستے ہیں نہ مسکراتے ہیں نہ جیتے ہیں نہ تو کھاتے ہیں بس سارا وقت خلاؤں کو گھورتے رہتے ہیں۔ چلی کے عظیم نوبیل انعام یافتہ شاعر پابلو نرودا نے لکھا تھا۔" آج ہم اپنے بھائی کو دفن کرنے جا رہے ہیں۔
اپنے غریب بھائی کو اس کی حالت ہمیشہ پتلی رہی اتنی پتلی کہ آج پہلی مرتبہ اسے پورا تن ڈھانپنے کو کپڑا نصیب ہوا ہے، اس کے پاس گھر تھا نہ زمین، قاعدہ تھانہ کاغذ نہ ہی کچھ کھانے کو، وہ جگہ جگہ بھٹکتا رہا جینے کے ہاتھوں مرتا رہا لمحہ لمحہ مرتا رہا۔ پیدائش سے اس کا یہ ہی طور تھا حسن اتفاق سے وہ سب لوگ ایک ہی خیال کے مالک تھے، پادری سے جج تک وہ اسے جنت میں اس کے حصے کا یقین دلاتے رہے اور اب جب ہمارا غریب بھائی مرچکا ہے۔
واقعی مرچکا ہے وہ سمجھنے سے قاصر ہوگا کہ اتنے وسیع آسمان کا کیا کرے گا، وہاں ہل چلائے، بیج بوئے یا فصل کاٹے اس کا یہ ہی پیشہ تھا وہ غیر آباد زمین پر بے رحمانہ محنت کرتا، اب آسمان بڑی آسانی سے اس کے ہل کی دسترس میں ہے۔ اب جنت کے پھلوں میں اس کا حصہ ہوگا، اتنی بلندی پر میزکے اوپر جنت کی ہر نعمت اس کے سامنے ہوگی۔ ہمارا غریب بھائی دنیا سے اپنی ساٹھ سالہ بھوک لے جا رہا ہے لیکن اب وہ مطمئن ہے کہ زندگی کی تلخیاں کم ہوگئی ہیں۔ اب اسے روٹی کے لیے ظلم سہنا نہیں پڑے گا، زمین کے نیچے تابوت میں ہر طرح محفوظ رہے گا۔ سر چھپانے کے لیے جگہ جگہ بھٹکے گا نہیں، مزدوری کے لیے جھگڑے گا نہیں، اس شخص کو اتنے سارے انصاف کی کب توقع تھی انھوں نے اچانک اسے اس کی امید سے زیادہ دے دیا ہے۔
خوشی سے اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں، اس سے بولا نہیں جاتا۔ ہمارا غریب بھائی اب اس قدر و زنی ہوگیا ہے کالی آنکھوں سمیت وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوا کرتا تھا۔ اب اس کا وزن بتاتا ہے کہ اسے وہ سب مل گیا ہے جو وہ زندگی میں حاصل نہ کرسکا۔ کاش! اس کی قوت بڑھتی جاتی غیر آباد زمین کا سینہ چیرنے کی، پتھر توڑنے کی، گندم کاٹنے کی، مٹی کو سیراب کرنے کی گندھک پینے کی، لکڑیاں کاٹنے کی، کتنے دکھ کی بات ہے کہ اتنے وزنی شخص کے پاس جوتے نہ تھے، گوشت پوست کے اس منتشر آدمی کو زندگی میں انصاف نہ مل سکا ہر کوئی اسے دباتا رہا کچلتا رہا پھر بھی وہ محنت کرتا رہا کم از کم اس وقت اس کا جنازہ کندھوں پہ اٹھاتے۔ وقت ہمیں معلوم ہے کہ اس کے پاس کیا تھا اور ہم اس کی مدد کرتے رہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہم اس سے وہ سب کچھ لیتے رہے جو ہم نے اسے کبھی دیا ہی نہیں تھا۔ اس کا وزن زیادہ ہے ہم سے یہ وزن اٹھ نہیں سکتا ہمارے مرے ہوئے بھائی کا وزن کتنے آدمیوں کے برابر ہے؟ وہ وزن میں ساری دنیا کے ہم پلہ ہے لیکن ہم نے اسے آسانی سے اٹھائے رکھا ہے۔ جنت میں اس کے لیے روٹیاں ہی روٹیاں ہوں گی۔"
وکٹر ہیوگو نے خدا سے مخاطب ہوکر کہا تھا "ہمارے افکار تیری جانب بلند ہیں اے خدا! تقدیرکا لکھا مٹا دے۔ ہم ملتجی ہیں فرانس کو اس کی عظمت رفتہ واپس بخش دے جو شرمسار ہے! ہاں ہمیں ہلاک کر دے ہم واژ گوں بختوں کو، گرم دن صرف ہمیں سرد رات کی تکلیف کے حوالے کر دیتا ہے۔ آؤ ہم سب کچھ جھیلیں، جرم پر واز کرجائے گا۔"
آؤ میرے ہم وطنو! ہم بھی مل کر خدا سے التجا کرتے ہیں اے خدا! تقدیر کا لکھا مٹا دے پاکستان کو اس کی عظمت رفتہ واپس بخش دے جو شرمسار ہے۔ اے خدا ہمیں پیٹ بھرکے روٹی دے دے، ہمیں اذیتوں سے نجات دے دے۔ ہمیں سکون بخش دے، ہمیں خوشیاں نصیب کر دے ہم سے اب اور تکلیفیں، پریشانیاں، مصیبتیں برداشت نہیں ہوتی ہیں۔ ان زمینی خداؤں سے جنہوں نے ہمارا جینا حرام کررکھا ہے، نجات دلوا دے۔ اے خدا! ترازوئے عدل کی طرف دیکھو تمام مصائب غربا کے لیے اور تمام مسرتیں امرا کے لیے، دونوں پلڑے غیر مساوی ہیں۔
نوبیل انعام یافتہ ایلی ویز یل نے کہا تھا " مسئلہ مسلسل اس درد انگیز سوال کا ہے، ایسی اذیت ناک یادوں کے بوجھ تلے کوئی ایک بامعنی زندگی کیسے گذار سکتا ہے؟ " جرمن فلسفی نے کہا تھا کہ " یادیں کبھی نہ ختم ہونے والی اذیت کی خدمت گذاری کرتی ہیں، کیا دن اور رات کے بعد کوئی راستہ نہیں ہے؟ ہمیں بھی خدارا، بتا دو کیا دن رات کے بعد کوئی راستہ نہیں ہے۔"