قدیم وینس (اٹلی) میں ایک ڈھکا ہوا پل تھا جو Dges پیلس کو ریاستی جیل کے ساتھ ملاتا تھا اسے آہوں کا پل کہتے تھے اس کی وجہ تسمیہ قیدیوں کی وہ آہیں تھیں جو انھیں محل سے جیل میں لے جاتے وقت سنائی دیتی تھیں یہ پل آج بھی موجود ہے لیکن اب وہاں آہیں نہیں بلکہ قہقہے مسکراتے ہیں جب کہ دوسری طرف آج پورا کا پورا پاکستان آہوں کی زمین بن چکا ہے جہاں کچھ بھی بوؤں لیکن اگتی آہیں ہی ہیں آپ چاہیں تو اس زمین کی کسی بھی بستی، قصبے، گاؤں، شہر میں گھوم لیں کسی بھی چوراہے پر کھڑے ہوجائیں آپ کو بس ہر طرف سے آہوں کا شور ہی سننے کو ملے گا وینس میں تو آہوں کا صرف ایک پل تھا ہمارے ہاں ہر راستہ ہر پل آہوں کا راستہ اور پل ہے۔
جہاں انسان آہستہ آہستہ گھل اور پگھل رہے ہیں بغیر چیخے اور چلائے۔ بغیر روئے اور سسکے بغیر جرم اور بغیر گناہ کے بس گھلے اور پگھلے جارہے ہیں کسی کو بھی نہیں معلوم کہ ان کا جرم اور قصور کیا ہے انھیں کس بات پر سزا دی جا رہی ہے آہوں کی اس زمین پر ایک چھوٹا سا ٹکڑا زمین کا اور بھی ہے لیکن اس ٹکڑے میں آہیں نہیں قہقہے گونجتے ہیں جہاں لوگ بات بے بات پر ہنستے ہیں جہاں دن رات چراغاں ہوتا ہے۔
جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں جہاں عیاشیاں ہی عیاشیاں ہیں اس چھوٹے سے ٹکڑے پر پاکستان کی اشرافیہ رہتی ہے جو بائیس کروڑ گھلتے پگھلتے انسانوں کے مالک ہیں ان بائیس کروڑ انسانوں کی مجال تک نہیں ہے کہ وہ زمیں پر اس جنت میں جھانک بھی سکیں کیونکہ وہاں بسنے والوں کی نظر میں یہ بائیس کروڑ انسان ہی نہیں ہیں زمین پر رینگتے کیڑے مکوڑے ہیں اور کیڑے مکوڑوں کا جنت میں کیا کام۔ یہ اشرافیہ جتنے روپے پیسے، جاگیریں، ملیں، زمینیں، ہیرے جواہرات، محل جمع کرتے جاری ہے اتنی ہی اور گدا گر ہوتی جارہی ہے۔ یہ جتنا جمع کرتی ہے اس کی بھوک اتنی اور بڑھ جاتی ہے مورخین نے بیسویں صدی کی نویں دہائی کو "لالچ کی دہائی" قرار دیا تھا۔
اس دور میں دولت کے ایک پجاری نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ "لالچ اچھا ہے" تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جس شخص نے یہ بیان دیا تھا چند ماہ بعد وہ کسی جرم میں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا تھا سویڈش ضرب المثل ہے کہ ہم بوڑھے جلد ہوجاتے ہیں جب کہ ذہین دیر سے ہوتے ہیں۔ لیکن کریں تو کریں کیا ہماری اشرافیہ بوڑھی ضرور ہورہی ہے لیکن ذہین نہیں ہو رہی ہے وہ آج بھی "لالچ اچھا ہے" کے فلسفے پر عمل پیرا ہے حالانکہ دنیا بھر کو ٹھوکریں کھا کھا کر عرصہ دراز پہلے ہی سمجھ میں آگیا ہے کہ خو ش ہونا اور کامیاب ہونا دو یکساں باتیں نہیں ہیں کامیابی پیسہ کمانے سے کچھ سوا ہے پیسے کی اہمیت پر ضرورت سے زیادہ زور دینا اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے زندگی کو صرف پیسے کمانے کی چکی بنالیا دراصل عذاب میں مبتلا ہونے کے برابر ہے دنیا کا نامور ادیب ہال اربن کہتا ہے۔
"میں کئی بر س تک فلسفہ، تاریخ اور نفسیات کے مطالعے کے بعد اس حقیقت کو سمجھا ہوں کہ زندگی اور کامیابی کو چند ایسے اصولوں میں سمویا جاسکتا ہے جو ہزاروں سال سے موجود ہیں "اچھی زندگی" کی جستجو میں کئی سال مختلف راستوں پر گامزن رہنے کے بعد میں وہیں پہنچ گیا جہاں سے روانہ ہوا تھا میں ان تک پہنچا جنھیں اب میں پرانے سچ، پرانی صداقتیں کہتا ہوں جیساکہ ایڈورڈ ایلبی اپنے ڈرامے The Zoo Story میں کہتا ہے "بعض اوقات تھوڑا سا درست فاصلہ طے کرنے کے لیے اصل راستے سے کافی دور جانا پڑتا ہے" جب آپ دراصل راستے سے کافی دور چلے جاتے ہیں تو پھر دو باتیں ممکن ہوسکتی ہیں یا تو ساری زندگی بھٹکتے پھرتے رہتے ہیں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں اور اصل راستہ آپ کو کبھی مل ہی نہیں پاتا دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کافی دور جاکر واپس اصل رستے کی جانب آجاتے ہیں۔
وارنر ارہرڈ نے کہا تھا "سچائیاں آپ کو بالآخر آزاد کردیں گی لیکن پہلے یہ آپ کو جی بھرکر تڑپائیں گی" اگر ہماری اشرافیہ کو یہ احساس ہوجائے کہ وہ کیسی بے مصرف، بے معنی، بے مقصد اور بے کیف زندگی گذار رہے ہیں تو وہ زر و زیورات، ہیرے جواہرات کے انبار اٹھا کر گلی میں پھینک دیں لیکن مشکل تو یہ ہی ہے کہ ان کا احساس بھی سلب ہو چکا ہے ان کے نصیب میں لکھا جا چکاہے کہ وہ سونے کی صلیب اٹھائے اٹھائے پھرتے رہیں خواہ اس کے بوجھ تلے ان کے کندھے شکستہ ہوجائیں وہ اسے اٹھائے تھک کر نڈھال ہوجائیں ہانپتے کانپتے پھر اٹھ کر کھڑے ہوں اور اسی سو نے کی صلیب سے چمٹے رہیں کہ یہ ہی ان کا مقدر ہے اور پھر آخر میں وہ ہی ایک اجڑی اور تاریک قبر ان کا مقدر ہوجاتی ہے انھیں اس عذاب میں مبتلا رہنے دیں آپ ان کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ عذاب کو ختم کرنا انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ خدا کے اختیار میں ہے۔
اس لیے انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں آئیں ہم اپنی بات کرتے ہیں کیا آپ نے کبھی کسی کار کے بمپر پر چسپاں وہ اسٹیکر دیکھا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے "زندگی کٹھن ہے اور پھر تم مرجاتے ہو" یہ ہی زندگی کا عظیم ترین سچ ہے اور حقیقت بھی یہ ہی ہے دنیا کے اولین باشندوں سے لے کر آج تک زندگی کٹھن ہے یہ ہمیشہ کٹھن رہی ہے اور ہمیشہ کٹھن رہے گی جب ہم اس سچ کو جان لیتے ہیں اسے قبول کرلیتے ہیں تو پھر ہم موثر انداز میں جی سکتے ہیں اپنے مسائل پر گریہ وزاری کرنے، پگھلنے اور گھلنے کے بجائے ان کا حل تلاش کرسکتے ہیں جزیرہ جرس پر سمندر کے کنارے ایک چھوٹی سی چٹان پر ایک ٹوٹا پھوٹا بینچ آج بھی موجود ہے۔
آج سے کوئی سو برس پہلے جب عظیم مفکر وکٹر ہیوگو کو اپنی شدید علالت کے زمانے میں حالات کی نامساعدت کے باعث اپنے وطن فرانس کو خیر باد کہنا پڑا تو وہ ہر شام غروب آفتاب کے نظارے کی خاطر تھکا ماندہ چٹان پر رینگ رینگ کر خاموشی سے اس بینچ پر آکر بیٹھ جاتا اور اپنا بوڑھا سر جھکائے گہری سو چ و بچار میں ڈوب جا تا پھر دفعتاً کھانستا ہوا ایک سنگریزہ اٹھا کر اسے بڑے غور سے دیکھتا اور یکبارگی اسے بڑے پر اعتماد انداز میں نیچے سمندر میں پھینک دیتا اکثر آس پاس کھیلتے ہوئے بچے اس کی بظاہر بے معنیٰ حرکت بڑی تعجب کی نظروں سے دیکھتے آخر ایک دن ایک بچی سے نہ رہا گیا وہ ہانپتی کانپتی وکٹر ہیو گو کے نزدیک پہنچی اور کہا "آپ روزانہ سمندر میں پتھر کیوں پھینکتے ہیں " اس شکستہ حال دانشور نے خاموش نظروں سے اس گڑیا کی طرف دیکھا اور زیر لب مسکرا کر کھانستے ہوئے جواب دیا "میری بچی پتھر نہیں میں تو صرف اپنے احساس مظلومیت کو سمندر میں پھینکنے آتا ہوں " میرے ہم وطنو یاد رکھو نہ تو تم بے بس ہو اور نہ اپاہج اور نہ ہی مفلوج تم نے اپنا یہ حال خود بنایا ہوا ہے اس حال کے قصوروار تم خود ہو دوسروں کو قصور وار اور مجرم قراردینے کا ڈھونگ ختم کرو خود ترستی پر لعنت بھیجو آؤ عظیم مفکر وکٹر ہیو گو کی طرح اپنے سارے دکھ درد، اپاہج پن اور احساس مظلومیت کو یکجا کرکے اور انھیں ایک سنگریزے میں سمو کر اپنی ساری قوت بروئے کار لاکر اسے اپنے سے دور بہت دور پھینک دو پھر دیکھنا یہ عذاب میں مبتلا اشرافیہ کس طرح اپنی جان کی بخشش تم سے مانگتی ہے۔