شیکسپیئر اپنے ڈرامے Hamlet میں لکھتا ہے "جب ہم اپنی بے گناہی پر زیادہ سے زیادہ اصرارکرتے ہیں تو ہم زیادہ سے زیادہ قصور وار دکھائی دیتے ہیں " مسائل، الجھنیں جن، بھوت یا چڑیل نہیں ہوتے جو خود بخود ہم سے آکر چمٹ جاتے ہیں بلکہ یہ وہ ہوتے ہیں جنھیں ہم خود پیدا کرتے ہیں لیکن قصور وار ہم ہمیشہ دوسروں کو ٹہھراتے ہیں۔ ٹھنڈے دل و دماغ، سمجھ داری، دانش مندی اور تجربے کی مدد سے مسائل اور الجھنوں سے ہمیشہ ہمیشہ دور رہا جاسکتا ہے۔
میری کہانی کا آغاز مارچ 1981 میں ہوتا ہے یہ وہ دن تھا جب میری زندگی بالکل بدل گئی تھی۔ ایک ایسا دن جس کو میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ میں ہوائی جہازکے حادثے میں شدید زخمی ہوگیا تھا اور مفلوج حالت میں اسپتال میں داخل تھا، میری ریڑھ کی ہڈی بالکل تباہ ہوگئی تھی اور اس کا دوسرا اور تیسرا مہرہ ٹوٹ گیا تھا، خوراک نگلنے کے میرے پٹھے بے کار ہوچکے تھے اور میں کچھ بھی کھانے پینے سے قاصر تھا۔ میرا ڈایا فرم بھی تباہ ہوچکا تھا، میں سانس بھی نہیں لے سکتا تھا، میرے جسم کی واحد حرکت آنکھوں کا جھپکنا تھی۔
ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ میری ساری زندگی بستر پر ہی گذرے گی، وہ بھی یہ ہی کہتے تھے کہ میں صرف اپنی آنکھیں ہی جھپکا سکوں گا اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرسکوں گا، وہ میری اس حالت کا تصور ہی کرسکتے تھے لیکن ان کے سوچنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، سب سے بڑی بات یہ تھی کہ میں سوچ سکتا تھا میں خود کو دوبارہ ایک نارمل انسان کے طور پر دیکھ سکتا تھا، میں خود کو چلتے پھرتے اور اسپتال سے فارغ ہوتے تصورکرسکتا تھا۔
اسپتال میں میری جو واحد چیزکام کر رہی تھی، وہ میرا دماغ تھا اور جب آپ کا دماغ زندہ اورکام کررہا ہو تو آپ چیزوں کو ایک بار پھر جوڑ سکتے ہیں۔ مجھے سانس لینے کے لیے مشینوں پر لگا دیا تھا اور ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ میں کبھی بھی اپنے آپ سے سانس نہیں لے سکوں گا، کیونکہ میرا ڈایا فرم تباہ ہوچکا تھا لیکن ایک کمزور سی آواز مجھے یہ ہی کہے جاتی تھی کہ گہرا سانس لو، گہرا سانس لو اور آخرکار میں سانس لینے لگا تمام ڈاکٹر حیران اور ہکا بکا رہ گئے۔
میں اس بات کا متحمل نہیں تھا کہ کسی ایسی چیزکو اپنے دماغ میں آنے کی اجازت دوں جو مجھے میرے ہدف یا میرے ویژن سے ہٹا دے۔ میں نے یہ ہدف بنا رکھا تھا کہ کرسمس تک اپنے پیروں پر چل کر اسپتال سے جائوں گا اور میں کامیاب رہا۔ میں اپنے دونوں پیروں سے چل کر اسپتال سے باہرگیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ یہ ناقابل یقین ہے میں اس دن کو کبھی بھی بھو ل نہیں سکوں گا۔
اس وقت جو لو گ یہاں موجود ہیں اور جو لوگ زخمی ہیں یا بیمار ہیں۔ میں ان کے سامنے اپنی زندگی کا مختصر خلاصہ پیش کرنا چاہوں گا۔ میں مختصر الفاظ میں لوگوں کو یہ بتانا چاہوں گا کہ وہ زندگی میں کیا کرسکتے ہیں میں اس کو آٹھ الفاظ میں بیان کروں گا " آدمی وہ ہی بنتا ہے جو وہ سوچتا ہے۔ "
یہ عظیم مصنف اور مقرر مورس گڈ مین کی کہانی ہے جسے کرشماتی آدمی کہا جاتا ہے جو اپنے اندر موجود طاقت کے بارے میں جانتا تھا جس کی وجہ سے اس نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے چیلنج کو سب سے بڑے تحفے میں تبدیل کر دیا۔ ہنری وان ڈائینک اپنی نظم میں لکھتا ہے " میرا یقین ہے کہ خیالات جیتی جاگتی چیزیں ہیں، ان کا جسم ہے وہ سانس لیتی ہیں اور اڑتی ہیں اور جنھیں ہم آگے بھیجتے ہیں جن کے اچھے یا برے نتائج دنیا دیکھتی ہے۔ " آپ اپنے خیالات کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں ہیں، آپ صرف وہ ہی ہیں جو آپ سوچتے ہیں۔
آپ اپنی سوچ کے غلام ہیں، غلام وہی کچھ کرتا ہے جو اس کا آقا اسے کہتا ہے۔ زندگی کا اصول یہ ہے کہ آپ نے وقت کے ساتھ سفرکرنا ہے، اگر آپ وقت کے ساتھ سفر نہیں کریں گے تو وقت آگے چلا جائے گا اور آپ پیچھے رہ جائیں گے اور پھر آپ کبھی بھی وقت کو پکڑ نہیں سکیں گے۔ ایک شخص نے گھوڑا خریدا اور اس نے اصطبل پر لکھوا دیا " دنیا کا سب سے تیز رفتارگھوڑا " جب اس نے گھوڑے کو گھڑ دوڑ میں دوڑایا تو وہ سب سے آخری نمبر پر آیا۔ اب اس شخص نے عبارت یوں لکھوائی " دنیا گھوڑے سے تیز رفتار ہے" بے عملی سے یا کرنے والے کام نہ کرنے کی وجہ سے لوگ ناکام ہو تے ہیں اور الزام قسمت پر دھر دیتے ہیں۔
آج ہم سب ایک آسیب زدہ ملک کے شہری ہیں جسے عدم برداشت، جہالت، عدم رواداری، بد اخلاقی، بد تہذیبی، عدم مساوات، لوٹ مار، غربت و افلاس، بیماریوں کے آسیبوں نے اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔
آپ کو ہر شخص ایک دوسرے سے الجھتا ہوا ملے گا، چاہے وہ آفس ہو یا بازار یا سڑکیں یا پھرگلیاں اور محلوں ہوں ہر شخص خواہ مخواہ دوسرے کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ ہم سب ایک دوسرے سے ناخوش ہیں ہمیں اپنے علاوہ دوسرے میں کوئی بھی اچھائی نظر نہیں آتی ہے۔ غلطی سے یا نادانی سے کوئی شخص اگرکسی دوسرے کی تعریف یا اچھائی کر بیٹھے تو سننے والوں کے منہ سے اسی وقت جھاگ نکلنا شروع ہوجاتے ہیں ہاتھوں اور پائوں میں لرزش اتنے زور سے ہونا شروع ہو جاتی ہے کہ تعریف یا اچھائی کر نے والا ڈرکر اپنی چپلیں چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہو جاتا ہے۔ ہرکوئی کسی نہ کسی کا برا چاہ رہا ہے، ہنسنا چھوڑ ے ہمیں سالوں بیت چکے ہیں۔
خوشگوار موڈ ہمارے لیے گالی بن کے رہ گیا ہے، ہر وقت چہرے پر تیوری ڈالے رکھنا، ہمارا قومی نشان بن گیا ہے۔ ہم سب ایک دوسرے سے کترانے لگے ہیں، اگر ہم باریکی کے ساتھ اس بات پر غوروحوض کریں کہ آخر آسیبوں نے ہمارے ملک میں کیوں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کیوں آخر اتنی آسانی سے انھوں نے ہمیں دبوچ رکھا ہے تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ دراصل ہم نے سالوں پہلے بہت سے الفاظ کو جن میں برداشت، روا داری، تہذیب، عقل و فکر، سوچ، تشکر، دیانت، خلوص، اخلاق شامل ہیں اپنی زندگیوں سے خارج اور جبری بے دخل کر دیا تھا اور اس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ کیا تھا پھر اس کے بعد ان الفاظ کو دوبارہ ہماری زندگیوں میں داخل ہونے کی جرأت ہی نہیں ہوسکی۔
یاد رہے انسان کو روٹی سے زیادہ الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے ہم روٹی کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں لیکن الفاظ کے بغیر نہیں۔ یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو آپ کی زندگی کو مسرت، معنی، خوشیاں اور مقصد دیتے ہیں جو ہمیں زندہ رکھتے ہیں۔ الفاظ ہر وقت آپ کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ الفاظ آپ سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور یہ ہی تعلقات اور رشتوں کو استوار کرتے ہیں اورآپ کوکامیاب اور خوشحال اور مسائل سے پاک آدمی بناتے ہیں۔
عظیم سائنس دان نیوٹن کہتا ہے کہ "ہر عمل کا ایک مخالف اور اسی کے برابر رد عمل ہوتا ہے۔ " یعنی آپ جو کچھ وصول کرتے ہیں وہ اس مقدارکے برابر ہی ہوتا ہے جو آپ سے دیا ہوا ہوتا ہے۔ اس لیے آج جوکچھ ہم بھگت رہے ہیں، اس کے خالق ہم خود ہی ہیں۔ آپ اگر اپنے حالات سے بیزارآچکے ہیں اور آسیبوں سے آپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر آئیں ! سب سے پہلے ان الفاظ کو جنھیں ہم ملک بدرکرچکے ہیں اور جو آج بھی ہماری ملکی سرحدوں پر بیٹھے ہمارے اجازت ناموں کے منتظر ہیں۔ انھیں انتہائی عزت و احترام اور پیارو محبت کے ساتھ اپنے ملک اور اپنی زندگیوں میں واپس آنے کی اجازت دے دیں اور ان سے کیے گئے برے اور بدترین سلوک کی معافی ضرور مانگ لیں تاکہ پھر وہ دوبارہ آپ کی زندگیوں سے نہ جاسکیں۔
یاد رکھیے گا، آپ روٹی کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں لیکن الفاظ کے بغیر نہیں زندہ رہ سکتے، کیونکہ الفاظ ہی آپ کے خیالات کو جنم دیتے ہیں اور خیالات ہی آپ کو زندہ اور مردہ بنا تے ہیں اورکامیاب اورخوشحال انسان بناتے ہیں۔