فلپس بروکس کہتا ہے " آنے والے سالوں میں کسی دن آپ اپنی زندگی کے بڑے غم تلے کراہ رہے ہوں گے یا کسی بڑی خواہش سے نبرد آزما ہورہے ہوں گے لیکن اصل جدوجہد کا وقت اب ہے۔" اب " یہ طے ہونے کا وقت ہے کہ اس غم کی گھڑی میں یا خواہش کے پورے ہونے کے وقت آپ مکمل طور پر فیل ہو جائیں گے یا کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ کردار ایک مستقل اور لمبے عمل کے بغیر تشکیل نہیں پا سکتا۔"
دنیا کے عظیم ادیب میکسم گورکی پہلے ناول " ماں " میں ایک کردارکہتا ہے " یہ کون سی بڑی بات ہے کہ آج انسان نے کام کیا، کھانا کھا لیا اورکل بھی کام کیا اورکھانا کھا لیا۔ ساری زندگی یہ ہی کام کرتا رہا، " کام کرنا اورکھانا " ان دونوں سے وقت ملا تو بچے پیدا کر لیے۔ جن سے پہلے تو دل بہلاتے رہے لیکن جب بڑے ہوکر ان کے کھانے کا مطالبہ زیادہ بڑھا تو ان پر غصہ اتارا گالیاں دیں جلدی سے بڑے ہوجائے، سورو جلدی سے نوکری کرو، ایسے لوگ اپنے بچوں کی خانگی جانور بنا دینا چاہتے ہیں لیکن بچے خود اپنے پیٹ کے لیے کام کرنے لگتے ہیں بس اپنی زندگیوں کوگھسیٹتے رہتے ہیں۔
انسان کہلانے کے قابل تو صرف وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی انسانی ذہن کو زنجیروں سے آزاد کرانے کے لے وقف کر دیتے ہیں اور تم نے بھی اپنی صلاحیت کے مطابق یہ کام اپنے سر لیا ہے۔" اس وقت دنیا کے سامنے اہم ترین فکر یہ نہیں ہے کہ انسان گناہوں سے کسی طرح باز رہے بلکہ یہ ہے کہ تہذیبی، تمدنی اور سماجی نظام میں کون کون سی ایسی تبدیلی پیدا کی جائے کہ انسان بھوکا نہ مرے، اس کی آزادی کو کوئی غصب نہ کرسکے۔ ہر طرف سچ کی حکمرانی ہو۔ ہر شخص دوسرے کا بوجھ ہلکا کرنے کی فکر میں ہو عقل و دانش کا بول بالا ہو، مکمل سماجی، سیاسی، اقتصادی انصاف ہو۔
ہیگل کے مطابق " جانوروں کی طرح انسان کی فطری ضرورت اور خواہش بھی اپنی ذات سے الگ اشیاء سے وابستہ ہوتی ہے، اسے غذا، پانی اور چھپانے کے لیے چھت چاہیے ہوتی ہے اور اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی چاہت ہوتی ہے۔ انسان بنیادی طور پر جانوروں سے الگ اس طرح ہے کہ اسے دوسرے انسان کی خواہش یا خیال کی بھی ضرورت در پیش رہتی ہے وہ اپنی شناخت چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اسے پہچانا جائے۔ خاص طور پر اسے بحیثیت انسان تسلیم کیا جائے یعنی یہ مانا جائے کہ اس کی کوئی قدرو قیمت ہے۔
اس کے اندر عزت و نفس اور انا ہے وہ اپنی عزت کے لیے اپنی جان بھی دے سکتا ہے اور یہ کام صرف انسان ہی کر سکتا ہے۔ شناخت کی اس خواہش نے ابتداء ہی میں دو انسانوں کو لڑنے پر مجبورکر دیا، فطری طور پر موت کے خوف نے ایک کو ہار ماننے پر آمادہ کیا اور اس طرح آقا اور غلام کے رشتے کا آغاز ہوا۔ تاریخ کی ابتداء کی خونی لڑائی روٹی، مکان اور تحفظ کے بجائے عزت کے لیے شروع ہوئی تھی۔ تاریخ کے آغاز میں باوقار منوانے کی جس خواہش نے جنگ کی بنیاد ڈالی تھی۔
اس کے نتیجے میں انسانی سماج دو طبقوں میں تقسیم ہوگیا ایک طبقہ آقاؤں کا اور دوسرا غلاموں کا۔ جن لوگوں نے اپنی جان کو جوکھوں میں ڈالا وہ آقا ہوگئے اور جنھوں نے موت کے خوف سے ہتھیار ڈال دیے، وہ غلام بن گئے اور غلام کا یہ تعلق مختلف انداز سے گذرتا رہا۔
سماجی ناہمواری نے اشرافیہ کے سماجوں کو جنم دیا جو انسانی تاریخ کے بڑے حصے پر اثرانداز رہا لیکن آخرکار یہ سماج بھی آقا اور غلام دونوں کے احساس شناخت کے لیے تسلی بخش نہیں رہا۔ غلام تو بہر حال انسان کے زمرے میں ہی شمار نہیں ہوتے تھے مگرآقاؤں کے یہاں بھی احساس شناخت میں کمی واقع ہوئی ایک آقا دوسرے آقا کے وقارکو ٹھیس پہنچانے لگا لہٰذا امیروں یا اشرافیہ کے سماج میں بھی ایک تضاد نے جنم لیا جو تاریخ کے آگے بڑھتے ہوئے اسٹیج کا سبب بنا۔
آخر کار فرانس اور امریکا کے انقلاب نے اس تضاد پر قابو پالیا، ان انقلابات نے آقا اور غلام کا فرق مٹا دیا اور خود مختاری، قانون کی حکمرانی کے اصول کے تحت غلاموں کو آقا خود بنا دیا۔ ہر شہری دوسری شہری کی عزت و وقار اور انسانیت کو تسلیم کرنے لگا اور انسانیت سب سے بڑا مذہب قرار پایا۔ پروٹے گورس کا مشہور قول ہے کہ " انسانوں کی ذات ہی دنیا کی تمام چیزوں کا پیمانہ ہے" انقلاب فرانس اور امریکا کا سب سے بڑا کارنامہ دنیا کو سماجی انصاف کا اصول دینا ہے جس کی بنیاد سماجی اور انسانی اخلاق ہے۔
سماجی انصاف کے اصول کا تصور سب سے پہلے قبل از مسیح میں پروٹے گورس نے دیا تھا اس کیمطابق دیوتا زیوس نے ہر میزکو نیچے زمین پر انسانوں میں بھیجا تاکہ وہ انھیں تحمل، رواداری اور انصاف کے اصول سکھائے اور انھیں احترام انسانیت اور آداب معاشرت سکھائے اور آخرکار اس طرح ایک مہذب سیاسی ریاست وجود میں آئی اس طرح ریاست ایک روحانی یعنی دیوتاؤں کا عطا کیا ہوا ادارہ ہے جس کی منظوری قدرت نے خود دی ہے اور اس کو قائم رکھنے کے بنیادی اصول رواداری اور انصاف ہیں " نوبیل انعام یافتہ ناول نگار ناڈین گورڈیمر کہتا ہے " انسان نے ہمیشہ "کیوں " جیسے سوالات پر زور دیا ہے۔" جب کچھ لوگ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں وہ اور ان کے بچے بھوکے سوتے ہیں اور ان کے ہمسائے محلوں میں رہتے ہیں تو دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ان میں غصے کا موجب بنتی ہے۔
جب لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات خوراک، رہائشی، تعلیم، صحت اور ملازمت سے محروم رہیں تو امید، عزت نفس اور وقار کھونا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے ذہنی انتشار میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو ان کو مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں لے جاتا ہے پھر وہ ایسے غیر منصفانہ نظام کو تباہ کرنے پر تل جاتے ہیں جس نے ان کی ضرورتوں کو پورا نہیں کیا، وہ ایسا نظام چاہتے ہیں جو ان کو سماجی اقتصادی اور سیاسی انصاف و امن دے سکے۔
ماہرین اقتصادیات و عمرانیات کا خیال ہے کہ امن کا اقتصادی حالات سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ذلت و نفرت آمیز۔ بوسیدہ، لوٹ کھسوٹ اور دیمک زدہ نظام خود بخود گرتے ہیں یا انھیں گرانے کے لیے ہم میں ہی سے کچھ لوگ آگے بڑھتے ہیں اور گرا دیتے ہیں اور اس گرا دینے میں وہ اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی جان تک بھی کیا، فرانس، امریکا، روس، یورپ میں خود بخود ذلت آمیز نظام کر گئے کیا پھر گرائے گئے۔
اب ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنے ہی پڑیں گے کہ آخر ہم اپنے آپ سے کیا چاہتے ہیں۔ آیا ہم اسی طرح سے بقیہ عمر بھی امیروں، طاقتوروں اور با اختیاروں کی ذلالت، گالیاں، توہین برداشت کرتے رہیں گے اور مزید بچے پیدا کرتے رہیں گے تاکہ وہ بھی ہماری ہی طرح اپنی زندگی بسر کریں۔ آیا ہم اس بات پر اور یقین رکھیں گے کہ ہمارے کھڑنے ہونے سے بھی اس نظام اور امیروں کا کچھ بھی بگڑنے والا نہیں ہے۔
آیا ہم روز اسی طرح اپنے آپ کو تھوڑا تھوڑا قتل کرتے رہیں گے یا غاصبوں، استحصالیوں اور امیروں کے محلوں کا گھیراؤں کردیں گے۔ آیا ہم زیادہ بہادر نڈر، بے خوف اور ذہین تھے جنھوں نے لوگوں کے سکھ کی خاطر اپنی جانیں قربان کردیں، جو سالوں بعد بھی مرکر زندہ ہیں۔ کیا ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا میں رہنے آئے ہیں، جو اس طرح موت سے ڈر رہے ہیں اور بے شناخت اور بے عزتی والی زندگی پر فخرکررہے ہیں۔ آخر اب ہمیں سوچنا پڑے گا۔