پہلی جنگ عظیم کے بعد، ادب پر فرائیڈ کے نفسیاتی نظریات کی گہری چھاپ لگی ہوئی ہے۔ امر یکی ادب میں اس کی پہلی مثال ہمیں شیر وڈ اینڈرسن کے ہاں ملتی ہے، اس کے ناول " وائنز برگ او ہائیو " میں جس کے تقریبا سب ہی کردار ذہنی طور پر بیمار ہیں۔ یو جین اونیل کے ناول " عجیب و غریب محبت " کا سارا ڈھانچہ ان ہی نظریات پر استوارکیا گیا ہے۔
ولیم فاکز کے اکثرکردار جنسیاتی ناہمواریوں کا شکار نظر آتے ہیں حقیقتاًیہ دور انسانی بے بسی کا دور تھا جس میں شاعروں نے سب سے بڑھ کر انسانی مایوسی اور ناکامی کا رونا رویا ہے۔ کسی اورکا تو ذکر کیا خود ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے بھی زندگی کو کافی کے چمچوں سے ناپا ہے۔ نوبیل انعام یافتہ ادیب ارنسٹ ہیمنگو ے کے افسانوں کے پہلے مجموعے کے پہلے افسانے کا نام "Indian Camp"ہے۔
اس میں ایڈمز نامی ایک ڈاکٹر اور اس کے بیٹے نک کا قصہ ہے جو شمالی مشی گین میں واقع انڈین لوگوں کے پڑاؤ میں جاتے ہیں جہاں ایک چاقو کی مدد سے بغیر کسی مخدر دوا کے عورت کا پیٹ چاک کرکے بچہ پیدا کراتا ہے، چیختی دھاڑتی عورت کے سر پر دیوار سے لگے تختے پر اس کا اپاہج شوہر لیٹا ہوا ہے نک جو ابھی کم عمر لڑکا ہے باپ کی مدد کے لیے چلمچی تھامے ہوئے ہے۔
ایک مرد اور تین عورتیں ماں کو پکڑے رہتے ہیں یہاں تک کہ بچہ پیدا ہو جاتا ہے جب کام ختم ہوجاتا ہے تو ڈاکٹر اوپر تختے پر نظر ڈالتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ شو ہر جو دو دن سے اپنی بیوی کی آہ و بکا سن رہا تھا اپنا سر استرے سے قریب قریب قلم کر چکا تھا۔ اس افسانے کو غور سے پڑھا جائے تو پتہ چلے گا ہیمنگوے کو اصل میں یہاں دل دہلا دینے والے واقعات سے دل چسپی نہیں، اسے تو اس بات سے زیادہ دلچسپی ہے کہ چھوٹے لڑکے پر جس نے سب کچھ دیکھا ان واقعات کا کیا اثر پڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ لڑکے پر اس وقت ان واقعات کا کوئی قابل ذکر اثر مرتب ہوتا نظر نہیں آتا، لیکن بعد ازاں یہ ہی نک ایڈمز بہت بری طرح زخم خوردہ اور بدحواس نوجوان ثابت ہوتا ہے۔
بقول ہرمرکے انسان لکڑی یا پتھر کا نہیں بلکہ گوشت پوست کا بنا ہوا ہے، جس پر اپنے اوپر ہونے والے یااردگرد ہونے والے حالات وواقعات کا گہرا بلکہ انتہائی گہرا اثر ہوتا ہے۔ احساس اور محسوس کرنے کی حس اس کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ خوف، گھٹن، تکلیفیں، اذیتیں، اندھیرے، زیادتیاں، ناانصافیاں، ظلم، پابندی اس کو کسی بھی صورت میں ایک نارمل انسان یا صحت مند انسان رہنے نہیں دیتی ہیں۔ اس میں برداشت کرنے کی ایک حد مقرر ہے وہ حد جب پار ہوجاتی ہے تو پھر وہ مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اگر اس کا ماحول یا اس کے حالات جوں کے توں رہیں یا اس میں مزید ابتری آرہی ہو تو پھر وہ مکمل نفسیاتی مریض بن جاتاہے۔
آج پاکستان کی 90 فیصد آبادی مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہوچکی ہے۔ ہم یا ہمارے اردگرد کے انسان اب ایک نارمل یا صحت مند انسان نہیں رہے بلکہ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں، ظاہر ہے لوگ کب تک بھوک، غربت، ناانصافیاں، زیادتیاں، خوف، گھٹن، تکلیفیں، اذیتیں برداشت کرتے رہتے، وہ پتھر یا لکڑی کے بنے ہوئے انسان تو ہیں نہیں، جتنا انسان آج پاکستان میں بے بس اور مایوس ہے اتنا تو انسان پہلی جنگ عظیم کے بعد بھی نہیں ہوا تھا۔ آج پاکستان مکمل طور پر دماغی امراض کا ایک بہت بڑا اسپتال بن چکا ہے وہ سالوں وعدوں پر اعتبارکرتے رہے۔
نئی صبح، نئے سورج اور نئی روشنی کے انتظار میں ایک دوسروں کو دلاسہ دیتے رہے ایک دوسرے کو ڈھارس دیتے رہے۔ امید بانٹتے رہے، پھر آخر انھوں نئی صبح، نئے سورج اور نئی روشنی و نئی امید کے سارے چراغ اوندھے کر دیے۔ ظاہر ہے کہ ان کی ہمتیں، حوصلے، جذبے امیدیں آخر کب تک ان کا ساتھ دیتیں۔
مہاتما گاندھی نے کہا تھا " دنیا میں اس قدر بھوکے لوگ موجود ہیں کہ خدا ان پر سوائے روٹی کے اورکسی بھی شکل میں ظاہر نہیں ہوسکتا " ہمارے لوگوں کی یہ بھی بدقسمتی رہی ہے اور ہے کہ خدا ان پر رو ٹی کی شکل میں بھی ظاہر نہیں ہورہا۔ Michel Houellebecq نے کہا تھا " یہ مستقبل نہیں بلکہ ماضی ہے جو آپ کو مارتا ہے اور اذیت دیتا ہے اورکمزورکرتا ہے اور موثر طریقے سے آپ کو مارکر ختم کردیتا ہے۔" یاد رکھنا دوستوں ہم سب آج کے نہیں بلکہ 73سال پرانے ماضی کے قیدی ہیں۔
یہ ماضی ہی ہے جو ہمیں آہستہ آہستہ مار رہا ہے، یہ ہمارا منظر آج نے نہیں بنا، بلکہ یہ منظر73سال پہلے ہی بنایا جاچکا تھا، ہاں عمل آہستہ آہستہ کیا گیا ہے۔ آپ کو اگر اس بات کی سچائی میں ذرا برابر بھی شک ہے تو پھر اپنے ملک کی انسانی تاریخ پر نظر ڈال لو، تو آپ کو احساس ہوجائے گا کہ کتنی خوبصورتی سے ہمیں بے بس، مایوس، ناامید کیا گیا ہے۔ کتنی خوبصورتی سے ہمیں نفسیاتی امراض میں مبتلا کیا گیا ہے۔ ناول " بڈھا گوریو " میں ایک کردار دوسرے سے کہتا ہے " اس بات کا فیصلہ کون کرسکتا ہے کہ سوکھی ہوئی کھوپڑیوں کا منظر زیادہ دہشت ناک ہے یا مرجھائے ہوئے دلوں کا۔" یاد رکھو مستقبل کبھی مایوسی، ناامیدی، لاشوں، ناانصافیوں، بھوک و افلاس پر تعمیر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اسے مردوں سے بدترین مختلف امراض میں مبتلا، فاقے زدہ انسان تعمیر کرسکتے ہیں۔
مستقبل کے جھوٹے اور مصنوعی خواب دیکھنے والوں کبھی تم نے پاکستان میں بسنے والوں کے چہرے دیکھے ہیں، ان کی دھنسی ہوئی پیلی آنکھیں دیکھی ہیں کبھی ان کے مٹی سے لدے پیر دیکھے ہیں، کبھی ان کے گھروں میں ننگی ناچتی وحشتوں کو دیکھا ہے، کبھی ان کے اندر خون کے بجائے بہتے تیزاب کو محسوس کیا ہے، کبھی چیتھڑوں میں لپٹے، بیمار، بھوکے، بدحواس، مایوس، ناامید انسانوں کو قریب سے انتہائی قریب سے دیکھا ہے، کبھی تم نے ان کی آہ و بکا، گریہ، نوحے اپنے کانوں سے سننے ہیں، اگر تم یہ سب دیکھ اور سن چکے ہوتے تو تم 22کروڑ انسانوں کو جھوٹے اور مصنوعی خواب نہیں دکھا رہے ہوتے۔
کان کھول کر سن لو ہمارا کوئی نہ آج ہے اور نہ ہی مستقبل ہوگا۔ قبروں پر عالیشان بلڈنگیں نہیں بنا کرتیں، کفن سے کبھی اچھے شاندار لباس نہیں بنتے۔ Maya Angelou نے کہا ہے " اپنے اندر ان کہی داستان کو برداشت کرنے سے بڑھ کر تکلیف دہ کچھ بھی نہیں " پاکستان میں آج انسانوں سمیت ہر چیز برباد ہوچکی ہے، خاک ہوچکی ہے۔ ایسی جگہوں پر کامیابی، خوشحالی، ترقی، سکون، امید، امن، مسرتیں کبھی نہیں آتے۔