آئیں! دو مختلف سماجوں کی منظر کشی کرتے ہیں، پہلے ایک ایسے سماج میں چلتے ہیں جہاں زندگی کی اقدار زندہ ہیں اخلاقی قدریں موجود ہیں جہاں کے لوگوں کو زندگی کے اصل معنوں، اس کا مطلب و مقصد سے اچھی طرح آگاہی حاصل ہے اس سماج میں زندگی کی تمام خو شیاں اور لذتوں سے ہر شخص لطف اندوز ہورہاہے۔
اس سماج میں سکون ہے، اس سماج میں بھوک نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی ہے، ہر شخص اپنے مستقبل سے بے فکر ہے جہاں روزگار کی فروانی ہے۔ جہاں لوگ آزادی اور بے فکری سے رہتے ہیں جرائم پر کنٹرول ہے جہاں خوف اور کوئی ڈر نہیں۔ قانون اور آئین کی حکمرانی ہے جہاں تعلیم لوگوں کوزندگی کی سچائیوں سے آگا ہ کررہی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی آزادی اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔
اس سماج میں روپوں پیسوں کی نہیں بلکہ انسان کی پوجا کی جاتی ہے۔ اب ہم ایک ایسے سماج میں چلتے ہیں جہاں ہر طرف افراتفری ہے جہاں زندگی کی خوشیاں اور لذتیں خاص لوگوں پر حلال ہیں اور عام لوگوں پر حرام۔ جہاں لوگ اپنے فائدے کے لیے ہر قسم کے جھوٹ بے شرمی سے بولے جارہے ہیں۔
اخلاقی اقدار مر چکی ہیں، اس سما ج پر ہر قسم کی بھوک کا راج قائم ہے۔ اس سماج میں ہر طرف لوگ روپے پیسے کی ہوس میں دیوانے ہورہے ہیں۔ ایک دوسرے کو کچلتے پھر رہے ہیں روندتے پھررہے ہیں۔ اس سما ج میں تقریباً تمام ادارے تباہ حال ہیں پورے سماج پر ڈر اور خوف کا راج ہے۔ لوگ یر غمال بنے ہوئے ہیں۔ چاروں اطراف جہالت و حشیانہ انداز میں گھومتی پھرتی ہے۔ سماج سالوں میں بنتے یا بگڑتے ہیں۔
اٹلی کے نامور ادیب Italo Calvino اپنے ایک افسانہ " کالی بھیڑ"(Lapecora nera) میں لکھتا ہے " ایک ملک ایسا تھا جس کا ہر باسی چور تھا اس کا ہر باسی رات میں تالا شکن اوزار اور اندھے شیشے والی لالٹین لیے گھر سے نکلتا اور اپنے کسی ہمسائے کے گھر میں نقب لگاتا۔ وہ جب پو پھٹتے سمے لوٹا ہوا مال لیے اپنے گھر لوٹتا تو اسے پتہ چلا کہ اس کااپنا گھر لٹ چکا ہے یوں سب ایک دوسرے سے جھگڑے بغیر سکون سے رہ رہے تھے کسی کو بھی برا نہ لگتا کہ اس نے ایک بار دوسرے کو لوٹ لیا ہے، ایک سے دوسرا لٹتا، دوسرے سے تیسرا، تیسرے سے چوتھا۔ لوٹ کایہ سلسلہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ آخری بندہ پھر سے پہلے بند ے کو لوٹنا شروع کر دیتا۔
اس ملک کاسارا کاروبار فریب پر مبنی تھا چاہے بند ہ خریدنے والا تھا یا پھر بیچنے والا۔ اس ملک میں سب کی زندگی کسی مشکل کاسامنا کیے بغیر گذر رہی تھی اور اس کے باسی نہ امیرتھے اور نہ ہی غریب پھر ایک دن نجانے کیسے کیوں اورکہاں سے ایک ایماندار شخص اس دیس میں آیا وہ بجائے اس کے کہ بوری اور لالٹین لیے نقب زنی کے لیے نکلتا گھر میں ہی رہتا سگریٹ پھو نکتا اور قصے کہانیاں پڑھتا رہتا۔ جب چور آتے اس کے گھر میں روشنی دیکھتے تو لوٹ جاتے۔
یہ معاملہ دیر تک نہ چل سکا ایماندار آدمی کو یہ بتا دیا گیا " یہ تو ٹھیک ہے تم بیشک تن آسانی سے رہو لیکن تمہیں دوسروں کے کام میں حائل ہونے کاکوئی حق نہیں۔ تمہاری گھر میں گذاری ہر رات کا مطلب ہے کہ ایک گھر میں فاقہ رہے۔ " ایماندار شخص اپنے دفاع میں کچھ نہ کہہ سکا اور اس نے بھی صبح تک اپنی راتیں گھر سے باہر گزارنی شروع کردیں، لیکن وہ خود کو چو ری کرنے پر راضی نہ کرسکا۔
بات صرف اتنی تھی کہ وہ ایک ایماندار شخص تھا وہ پل پرجاکر کھڑاہوتا اور نیچے بہتے پانی کو تکتا رہتا۔ دن چڑھنے پر جب وہ گھر لوٹتا تو اسے پتہ چلتا کہ اس کا گھر لٹ چکا ہے۔ ہفتہ بھی نہ گذرا تھا کہ ایماندار شخص کنگال ہوگیا اس کے گھر سے سارا سامان جاتا رہا اور اس کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ بچا وہ کسی دوسرے کو دوشی بھی نہ ٹہرا سکا کیونکہ دوش تو خود اس کااپنا تھا اس کی ایمانداری ہی اصل وجہ تھی جس نے اس ملک کے سارے نظام کی ترتیب توڑ اور توازن بگاڑ دیا تھا وہ لٹتا رہا لیکن اس نے خود کسی کو نہ لوٹا، یہ کارن تھا کہ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا کہ جب وہ اپنے گھر لوٹتا تو اس کا مال و متاع محفوظ ہو تا جب کہ اس کے گھر ایماندار بندے نے رات میں صفائی کرنی ہوتی تھی۔
جلد ہی ان لوگوں نے خود کو دوسروں کے مقابلے میں امیر پایاجن کے گھر لٹنے سے بچ گئے تھے اس لیے ان کے من نے نہ کیا کہ وہ چوری کریں اور وہ جو ایماندار شخص کے گھر چوری کرنے جاتے وہ خالی ہاتھ لوٹتے اور غریب ہوتے گئے کہ اس کے گھر کچھ بھی نہ بچا تھا ا س دوران یہ ہوا کہ جو امیر ہوگئے تھے انھوں نے بھی ایماندار شخص کی طرح پل پر جانا اور نیچے بہتے پانی کو تکنا شروع کردیا اور اسے اپنی عادت بنا لیا ان کی اس حرکت نے صورتحال میں مزید الجھائو پیدا کردیا کیونکہ مزید لوگ امیر ہورہے تھے اوربہت سے دوسرے غریب سے غریب تر۔
امیروں کو لگا کہ اگروہ یوں ہی پل پر کھڑے راتیں بتاتے رہے تو انھوں نے بھی غریب ہوجانا ہے انھوں نے سوچا " کیوں نہ ہم کچھ غریبوں کو پیسے دیں کہ وہ ہمارے لیے چوری کرنے جائیں؟" مک مکا کیے گئے۔ معاوضے اورحصے طے کیے گئے اس میں بھی ایک دوسرے کو دائو لگائے گئے کیونکہ لوگ تو ابھی بھی چور تھے۔ امیروں میں سے کئی اتنے امیر ہوگئے کہ نہ تو انھیں چوری کرنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی چوری کروانے کے لیے دوسروں کو معاوضہ دینے کی ضرورت تھی، لیکن یہ خطرہ موجود تھا کہ اگر وہ چوری سے تائب ہوجائیں تو غربت ان کا مقدر ہوتی۔
غریبوں کو بھی اسی بات کا پتہ تھا انھوں نے چنانچہ غریب ترین لوگوں کو دیگر غریبوں سے اپنے مال و متاع کی حفاظت کے واسطے رکھوالی کے لیے رکھ لیا۔ پولیس کے جتھے کھڑے ہوئے اور بندی خانے بننے لگے اور پھرایماندار شخص کی آمد کے چند سال بعد بھی کوئی بھی چوری کرنے یا لٹ جانے پر بات نہ کرتا۔ بات ہوتی تو بس اتنی کہ وہ کتنے امیر یاغریب تھے یہ الگ بات ہے کہ وہ اب بھی چور ہی تھے وہاں بس ایک ہی ایماندار آدمی تھا جو جلد ہی فاقہ کشی سے مر گیا تھا۔ "
سمجھ میں یہ نہیں آتا آیا یہ ایک افسانہ ہے یا پاکستانی سماج کی منظر کشی ہے۔ آئیں! اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا سماج اتنا بدترین سماج کیسے بنا۔ اصل میں ہمارے سماج کا ڈھانچہ پہلے روز ہی نیکی کے بجائے بد ی کی اینٹوں پر رکھا گیا، کلیموں کی آڑ میں وحشیانہ کھیل کھیلا گیا، انگریزوں کی چمچہ گیری اور خو شامد اور مخبری کرکے جو بڑی بڑی جائیدادیں حاصل کی گئی تھیں وہ با آسانی نئے دیس میں منتقل کرلی گئیں اوپر سے نیچے تک مال غنیمت کو جتنا لوٹا جاسکتا تھا لوٹاجاتارہا۔
ملک کے اصل وارثوں کو جتنا ذلیل و خوار کیا جاسکتا تھا کیا جاتا رہا، نتیجے میں ایک پاکستان سے دو پاکستان وجود میں آگئے ایک مزے اور عیش کرنے والوں کا پاکستان اور دوسرا محنت مشقت کرکے ان کے عیش و آرام کے لیے ایندھن بننے والوں کاپاکستان۔ روپے پیسے سب سے بڑی حقیقت اور سچائی قرار پائے گئے زندگی کے اصل معنوں، سچائیوں اور حقیقتوں کو کوڑا گھروں میں دفن کردیاگیا۔ اخلاقی اقدار گندی نالیوں میں بہادی گئیں۔ ہر شخص نے دوسروں کو لوٹنا شروع کردیا۔ جنھوں نے لوٹنے سے انکار کیا وہ غریب سے غریب ترہوتے چلے گئے اور لٹیرے امیر سے امیر تر۔
اس لیے آئیں، سب سے پہلے اپنے سماج کو آگ لگا دیں اور ایک ایسے سماج کی بنیاد رکھیں جو پیارو محبت، اخوت، رواداری، برداشت، ایمانداری، ایک دوسرے کے لیے احترام اور ایک دوسرے کے حقوق اور اختیار کی حفاظت پر ہو۔ جہاں سب لوگ زندگی کی اصل معنوں، حقیقت اور سچائی سے آگاہ اور واقف ہوں اور اس پرعمل پیرا ہو رہے ہو ں۔