نطشے نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ " کچھ انسان مرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں " 20 ویں صدی کے فلسفے، الہیات اور نفسیات کا نطشے کے بغیر تصور کرنا بھی محال ہے۔ جرمن فلسفی میکس شیلر، کارل جیسپر اور مارٹن ہیڈگر کا کام اسی کے اثرات کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح فرانسیسی مفکر ین البیر کامیو، ژاکس، Derrida اورفوکو بھی اس کے اثرات سے فیضیاب ہوئے۔
مارٹن بیوبر نے تسلیم کیا کہ اس پر نطشے نے سب سے زیادہ اثر ڈالا۔ ماہرین نفسیات الفر ڈایڈلر اورکارل ینگ کے علاوہ فرائیڈ نے بھی اسے سراہا۔ نطشے اپنی کتاب " زرشت نے کہا " میں لکھتا ہے " اگرکسی دن یا رات کو بالکل تنہائی میں ایک شیطان آپ کے پاس آئے اورکہے تم جس انداز میں زندگی گذار رہے ہو، تمہیں یہ ہی زندگی ایک مرتبہ پھر اور متعدد مرتبہ اسی طرح گذارنا پڑے گی اور اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہوگا بلکہ سب کچھ اسی طرح بار بار پیش آئے گا توکیا تم زمین پر لیٹ کر دانت پیسنے اور اس شیطان کوکوسنے نہیں لگو گے" خدا ہم سے اگر پوچھے کہ کیا تم دوبارہ پاکستان میں یا ورجینا میں پیدا ہونا پسند کروگے تو ہم سب کا ایک ہی جواب ہوگا " نہیں " خدا ہم دوبارہ جہنم میں رہنا نہیں چاہیں گے۔ جس طرح سے ہماری پاکستان میں بے توقیری ہورہی ہے اس کا تو ہم نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، جس طرح سے ہم بھوکے سوتے ہیں۔ ایک ایک روٹی کے لیے ترستے ہیں۔ اس سے تو ہمارے بزرگوں کی روحیں تڑپ تڑپ جاتی ہونگی۔ ہماری بے اختیاری اور بے حقوقی دیکھ کر اختیار اور حقوق چھپ چھپ کر روتے ہونگے۔
کنفیوشس سے اس کے شاگرد نے سوال کیا کہ کسی ملک کے لیے سب سے اہم کیا چیز ہے؟ (1) زمین (2)فوج (3) عوام۔ جواب میں اس نے کہا کسی بھی ملک کے لیے سب سے اہم چیز اس کے عوام ہوتے ہیں اگر زمین چھن جائے تو عوام اسے دوبارہ حاصل کرلیں گے، اگر فوج کمزور ہوجائے تو عوام اس کو دوبارہ مضبوط کردیں گے لیکن اگر عوام کمزور ہو جائیں تو پھر نہ زمین باقی بچے گی اور نہ ہی فوج۔ اس لیے کسی بھی ملک کو قائم اورمضبوط اس کے عوام کرتے ہیں۔
کنفیوشس کی کہی گئی سیدھی سی بات آخر ہمارے زمینی خدا سمجھنے کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں وہ آخرکیوں پاکستان کی اصل طاقت کوکمزور سے کمزور ترکرتے چلے جارہے ہیں، آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟ ان کے ذہنوں میں آخر ہے کیا؟ جس طرح سے ملک کے عوام کو ریاست کے تمام معاملات سے لاتعلق کیا گیا ہے، اس کا مقصدکیا ہے اور انھیں ایک بند گلی جس میں صرف بھوک، افلاس، بیماریاں، ذلتیں، رسوائیاں، آہیں و بکائیں ہیں کیوں قید کردیا گیا ہے۔
بو ٹولٹ بر تخت " تاریخ کے سوالات " میں لکھتا ہے کہ" وہ کون تھا جس نے تھیبز کے سات دروازے، تعمیر کیے، کتابوں میں تو صرف بادشاہوں کے نا م لکھے ہیں۔ کیا یہ بادشاہ تھے کہ جنہوں نے کھردری چٹانوں کو گھسیٹا تھا؟ بابل کا شہرکہ جسے کئی مرتبہ تباہ وبربادکیا گیا، ہر بار اسے کسی نے تعمیرکیا وہ کون سے سنہری روشنی والے مکانات تھے کہ جن میں مزدور رہا کرتے تھے، اس شام وہ کہاں چلے گئے کہ جب دیوار چین مکمل ہوئی اور عظیم روم جوکہ فتح کے شادیانوں سے گونج رہا تھا یہ سیزر کن فتوحات کی خوشی منارہے تھے۔ خو شی کے نغمے گانے والے بازنطینی کیا ان سب کے رہنے کے لیے صرف محلات تھے، اس طرح جیسے کہ رات میں سمندر ٹکراتا ہے۔
شراب میں مدہوش وہ اپنے غلاموں پر دھاڑتے ہیں۔ نوجوان سکندر نے ہندوستان فتح کیا۔ کیا اس نے اکیلے ہی فتح کیا؟ سیزر نے گال قوم کو شکست دی، کیا اسی کے پاس کم از کم کوئی باورچی بھی نہیں تھا جب سمندری بیڑا، ڈوبا تو اسپین کا فلپ رویا۔ کیا اس کے علاوہ رونے والا اور کوئی نہیں تھا؟ فریڈک دوم ہفت سالہ میں جیت گیا۔ اس کے علاوہ اورکون جیت سکتا تھا ہر جانب فتح ہے ہر دس سال میں ایک عظیم ہستی لیکن کن لوگوں کی قیمت پر۔ ڈھیر ساری تفصیلات اور ڈھیر سارے سوالات۔"
جو ناتھن سوفٹ نے اپنے ایک پمفلٹ میں امیروں کو مشورہ دیا تھا کہ ملک کو خوشحال بنانے اور بھوک کا روگ مٹانے کے لیے غریبوں کے بچوں کا گوشت نمک لگا کر محفوظ کرلینا چاہیے جو ناتھن سوفٹ اس انسانی نفسیات سے بخوبی واقف تھا کہ جب انسان پرکسی بات کا اثر نہ ہو تو اس وقت ایسی بات کرنی چاہیے کہ وہ چونک پڑے۔ جہاں بھوک اور افلاس ہو جہاں لوگ بے اختیار اور بے حقوق ہوں، غلام ہوں، ایسے ملک میں وطن کے وقارکی بات کرنا باعث شرم ہوتا ہے۔
جہاں لوگوں کو کھانا نہ ملے، انصاف نہ ملے، وہاں کام کے لیے کہنا کہاں کی شرافت ہے؟ یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ایسے سماجوں میں بھوکوں کی پیٹوکہا جاتا ہے جن میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ دفاع کرسکیں انھیں بزدل کہا جاتا ہے جو اپنی محنت کا معاوضہ چاہتے ہیں، انھیں کاہل وسست کہا جاتا ہے۔ ایسے ملکوں میں فکر پستی کی آخری حدیں چھولیتی ہیں فکرکی پستی کے ساتھ سماج کی ہر قدر اور خوبی پست ہوجاتی ہے۔
بر ٹولٹ بر بخت کی طرح ہماری تاریخ کے بھی روتے ہوئے سوالات ہیں کہ جب پاکستان بن گیا تو اس شام وہ کہاں چلے گئے جنہوں نے پاکستان بنانے کے لیے لازوال قربانیاں دی تھیں۔ اس کے بعد ان کے لیے کبھی نہیں سوچا گیا۔ کبھی نہیں معلوم کیا گیا کہ وہ کس حال میں ہیں؟ ان پرکیا بیت رہی ہے۔
سب نئے ملک کو مال غنیمت سمجھتے ہوئے اپنا اپنا حصہ بٹورنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ حصے بخرے کرنے میں لگ گئے اپنا اپنا آج اورکل محفوظ اور خوشحال کرنے میں جت گئے پھرکبھی ان کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا گیا جو ملک کی اصل طاقت ہوتے ہیں۔ کیا لاکھوں انسانوں نے صرف چند سو افراد کے محلات، بینک بیلنس، خوشحالی، لوٹ مار، کرپشن کے لیے قربانیاں دی تھیں۔ کیا ان لاکھوں انسانوں نے اپنی بے اختیاری، لاوارثی، بے حقوقی، بھوک، افلاس جو انھیں پاکستان میں حاصل ہوئیں، اس کے لیے قربانیاں دی تھیں۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ملک کے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کا مقصد یہ رہ گیا ہے کہ وہ بھوکے پیاسے محنت و مشقت سے ان چند ہزار امیر وکبیر انسانوں کی عیش وعشرت کے سامان مہیا کرتے رہیں اور ان ریا کاروں، منافقوں، بدکاروں اور خوشامدیوں کو اپنا خون پلاتے رہیں۔ یاد رکھو میرے ملک کے رہزنوں، ناجائز قابضین اور لٹیرو تم ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہے ہو تمہاری وجہ سے لاتعداد، ان گنت بے بسوں کے سینوں کا خون توہین انسانی کو غسل دے رہا ہے۔
خود غرضی، درد انسانی پر ہنس رہی ہے وہ بے زبان جو سر نگوں کھڑا ہے جس کے اترئے ہوئے چہرے پر صدیوں کے مظالم کی داستان کندہ ہے جو جیتے جی ہر قسم کے بار کو اٹھائے چل رہا ہے اور پشت در پشت اس بار مصائب کو ورثے میں چھوڑ جاتاہے۔ اب وہ صبح قریب ہے جب و ہ جاگنے والا ہے تم خود ہی سو چ لو، وہ تمہارا کیا حشر کرنے والا ہے۔ یزد کہتا ہے آدم کے بیٹوں اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذلیل و خوار نہ کرو، کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ پاگل کتے اپنا گوشت خود نہیں چباتے۔