روس ایک طلسماتی ملک جس کی کہانیاں جنوں و پریوں کے طلسم و جادو لیے ہمیشہ ہمیں مسحور کرتی ہیں اس کی دو سابقہ ریاستیں آذربائیجان اور آرمینیا اپنی تاریخی شان وشوکت کے قدیم جدید کا ملاپ ہیں یہ دونوں ممالک آج کل پوری دنیا کی خبروں میں سر فہرست ہیں۔
ری پبلک آف آذربائیجان جس کے معنیٰ فارسی اور ترک زبان میں آگ سے حفاظت کرنے والوں کا ملک ہے آذربائیجان جہاں کے چمکتے دمکتے شہر اور صاف ستھری گلیاں سیاحوں کے لیے کشش رکھتی ہیں صاف ستھرا قرینے سے بسا شہر آذربائیجان جو روس کا سب سے بڑا ملک ہے اس کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے جو ترکی النسل ہیں آذربائیجان کا پچانوے فی صد رقبہ ایشیا میں اور پانچ فی صد یورپ میں واقع ہے شمال میں روس، شمال مغرب میں جارجیا اور ترکی، جنوب میں ایران، مشرق میں بحیرہ قزویک اور مغرب میں آرمینیا پڑوسی ہے۔
اس کا دارالحکومت باکو اپنی صفائی اور جدید طرز تعمیر اور خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کے پسندیدہ مقامات میں شامل ہے یہی وجہ ہے کہ موسم بہار اور خزاں میں اس کے ہوٹلز سیاحوں کے لیے بک ہوتے ہیں ویزا فیس بھی کم ہے یعنی چوبیس ڈالر ہے اس چھوٹے سے ملک میں تیس ایئرپورٹ ہیں جولائی 1918 کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی ایک کروڑ سینتالیس ہزار ہے آبادی کے لحاظ سے دنیا کے 90 ویں نمبر پر ہے 1847 میں پہلی مرتبہ آذربائیجان میں خام تیل نکالا گیا اس ملک کی معیشت کا انحصار تیل گیس اور زراعت پر ہے اسے تربوز کا گھر کہا جاتا ہے اور یہاں کا پسندیدہ مشروب قہوہ ہے گیس کی پیداوار میں دنیا کے صف اول کے ممالک میں اس کا شمار ہے یہاں نیم صدارتی نظام رائج ہے۔
شیعہ مسلم آبادی کی اکثریت کے باوجود سیکولر نظام رائج ہے، تمام عبادت گاہیں مساجد، ٹیمپل، گرجا گھر وغیرہ موجود ہیں مغربی کلچر حاوی ہے قبل مسیح اور اکیسویں صدی کا سنگم۔ ایک طرف ٹیمپل گرجا گھر ہیں تو دوسری جانب شراب خانے کیسینو رقص وسرور سب ہی موجود ہے خواتین مغربی لباس پہنتی ہیں بازاروں میں کاروبار بھی زیادہ تر خواتین کرتی ہیں معاشی حالات بہتر ہیں کرنسی پاکستانی روپے کے مقابلے میں بہت مضبوط ہے یہاں فارسی آذری اور انگریزی زبانیں بولی سمجھی جاتی ہیں۔
1918 میں روس نے اس پر قبضہ کر لیا تھا چنانچہ ستر سال تک روسی اس پر قابض رہے اور بالآخر افغانستان میں روس کو جب شکست ہوئی تو آذربائیجان کو بھی آزادی نصیب ہوئی۔ 30 اگست کو جشن آزادی کے طور پر مناتے ہیں ترکی اور پاکستان نے سب سے پہلے اسے تسلیم کیا۔ ان کی چند دلچسپ روایات اور حیران کن حقائق بھی ہیں مثلاً یہاں ایک ایسا پھول ہے جو روزانہ پانچ وقت اذانوں کے وقت کھلتا ہے، خام تیل سے غسل کا رواج ہے جسے تفتالن کہا جاتا ہے۔
روایات کیمطابق ایک صدی قبل کسی قافلے کا اونٹ دوران سفر بہت بیمار ہو گیا قافلے والوں نے اسے بے کار سمجھ کر بے وآب گیاہ وہیں چھوڑ دیا واپسی کے سفر میں قافلے والوں کا دوبارہ اسی جگہ سے گزر ہوا تو اونٹ کو بالکل صحت مند پایا، معلوم ہوا اونٹ خام تیل کے گڑھے میں گر گیا تھا جس سے اس کی بیماری دور ہو گئی، صحت مند ہو گیا، جب سے یہاں کے لوگ مانتے ہیں کہ یہ غسل ستر سے زائد بیماریوں کا علاج ہے۔ غیر ملکی بطور خاص اس غسل کے لیے یہاں پہنچتے ہیں۔
آذری لوگ رات کے وقت قرض کا لین دین نہیں کرتے، قینچی اور بلیڈ ایک ساتھ رکھ دیا تو یہ آپ کی موت کی نشانی ہے، خالی بالٹی کے ساتھ کسی شخص کو دیکھ لینا گویا نحوست کی نشانی ہے، سال کا سب سے بڑا جشن نوروز ہے شیشے کو خوشیوں کی علا مت اور آگ کو خوشیوں کی حفاظت کر نیوالی مانا جاتا ہے۔ ہمارے مشہور صوفی بزرگ حضرت لال شہباز قلندرؒ مروند بھی آذربائیجان کے ایک گاؤں مروند میں پیدا ہوئے آذری قوم کا ماننا ہے کہ حضرت نوحؑ کی کشتی یہیں ڈوبی تھی یہاں کے ایک قبیلے کا نام نوح ہے۔
آرمینیا بھی یہی دعویٰ کرتا ہے کہ ان کے موجودہ علاقوں کی پہاڑیوں میں حضرت نوحؑ کی کشتی ڈوبنے کے شواہد موجود ہیں اسی لیے انھوں نے اپنے ایک گائوں کا نام نوح رکھا ہے۔ آرمینیا بھی آذربائیجان کی طرح قدیم ترین ثقافت اور ماضی رکھتا ہے یہ دنیا کے ان چھ ممالک میں شامل ہے جو اب تک مسلسل آباد ملک ہیں دنیا کا پہلا چرچ اور عیسائی ملک آرمینیا ہے اس کے علاوہ یہ سب سے پرانا شراب بنانے والا ملک ہے جو سو فی صد لٹریسی ریٹ رکھتا ہے، یہ ملک دس صوبوں پر مشتمل ہے آرمینیا میں کوئی سمندر نہیں ہے اس کی کرنسی بہت کمزور ہے قومی کھیل شطرنج ہے جو کہ اسکول میں بچوں کے نصاب میں بھی شامل ہے پورا ملک پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے یہی وجہ ہے کہ معیشت کا انحصار کان کنی پر ہے۔
آرمینیا کے پڑوسی ممالک سے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے آذربائیجان کے سات اضلاع پر آرمینیا نے 1994 میں قبضہ کرلیا تھا نوگورنو قرہباخ کے پہاڑی علاقوں کو لے کر برسوں سے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جھگڑا رہا ہے اقوام متحدہ کے مطابق یہ آذربائیجان کا حصہ ہے مگر آرمینیا کا قبضہ ہے اسی کو لے کر دونوں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں اس جنگ میں ترکی اور پاکستان آذربائیجان کے ساتھ کھڑے ہیں جب کہ روس فوجی مدد اور اسلحے سمیت آرمینیا کا ساتھ دے رہا ہے اس وقت آذربائیجان کو آرمینیوں پر سبقت حاصل ہے آذربائیجان اسرائیل کے ہھتیاروں کی مدد سے لڑ رہا ہے دونوں جانب ٹینکوں بموں اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال ہو رہا ہے۔
آذربائیجان کے وزیر اعظم کا کہنا ہے وہ جلد ہی اپنے علا قے کو آزاد کروا لیں گے آرمینیا بھی ایسے ہی دعوے کرتا نظر آتا ہے اس نے اپنے ملک میں انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی ہے اپنا نقصان چھپانا حریف کا نقصان بڑھا چڑھا کر پیش کرنا جنگ میں ایسا ہی ہوتا ہے جنگ کی ہولناک بمباری و تباہی نے دونوں ملکوں کا نقشہ تبدیل کر دیا ہے دونوں جانب پناہ کی تلاش میں ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
اقوام عالم اور یو این او نے دونوں ممالک سے جنگ بندی کی اپیل کی ہے اس سلسلے میں سفارتی سطح پر مصالحت بھی شروع ہوئی مگر یہ معاہدہ چند منٹ بعد ہی ناکام ہو گیا جب دونوں جانب میزائل سے شہری آبادی کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا اس وقت آذربائیجان کو آرمینیا پر سبقت حاصل ہے جنگ کے بعد کیا ہوتا ہے جاپان کے شہروں ہیروشیما ناگاساکی سے عبرت لی جا سکتی ہے عراق، یمن، شام، لیبیا سے سبق سیکھنا چاہیے کہ اس کے شہری تارک وطن ہو کر کس کرب و ابتلاء سے گزر رہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا میں نیا محاذ کھلنے جا رہا ہے جہاں ایک بار پھر آگ وخون کا کھیل شروع ہوگا امن چاہنے والے اقوام عالم کے لیے یہ سب سے بڑا لمحہ فکریہ ہے۔
ہماری آنے والی نئی نسلوں کو جنگ کی نہیں اسی پریوں اور جنوں کے طسلماتی جہان کی ضرورت ہے۔