Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Baran Rehmat, Zehmat Kyun?

Baran Rehmat, Zehmat Kyun?

ساون بھادوں جس کے لیے شاعروں نے خوبصورت گیت لکھے، جو زمین کو سیراب کرتی ہے، جس کے برسنے پر ہر چیز نکھر کر دھل کر صاف ہو جاتی ہے۔ سبزہ، ہریالی، آنکھوںکو شادابی بخشنے لگتا ہے کیونکہ بارش خالق کا عمل ہے، زمین سے اگنے والے اناج کو بارش سے جو تعلق ہے وہ محتاج بیان نہیں، اگر آسمانوں سے ابر رحمت نہ برسے تو رزق کی داستاں ختم ہوکر رہ جائے۔

سائنس کی ترقی کے باوجود رزق کا نظام معیشت ومعاشیات اور تقسیم دولت کا سارا نظام بارش نہ ہونے سے ختم ہو جائے، پانی کی کمی سے قحط سالی اپنے ظالم جبڑوں میں انسان کو دبوچ لیتی ہے ہر شے کی زندگی پانی سے ہے، سوکھے کے دنوں میں ہم رو روکر باران رحمت کی دعائیں مانگتے ہیں۔

نماز استسقاء ادا کرتے ہیں لیکن جب قدرت اپنی فیاضی سے یہ نعمت عطا کرتی ہے تو ہمارے لیے زحمت بن جاتی ہے، ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی باران رحمت برسی اور ہماری لاپروائیوں کے باعث مسائل بن کر نازل ہوئی، کچرے سے اٹے ہوئے ندی نالے بھرگئے، جس سے سیلابی ریلے کی صورت میں پانی رہائشی علاقوں میں داخل ہوگیا، گھرکا سازوسامان تباہ ہوا، سڑکیں پانی میں ڈوب گئی، انسانی جانیں ضایع ہوئیں، مویشی اور بہت سے لوگ کرنٹ لگنے سے جان کی بازی ہارگئے، عید قرباں کی ساری خوشیاں گہما گہمی بارش کی نذر ہوگئیں۔

اس بار یہ تباہی یوں بھی زیادہ اس لیے محسوس ہوئی کہ عید قرباں کی آمد تھی، مویشی منڈی سے گھروں میں لائے جانے والے جانوروں تک سب ہی ارباب اختیارکی نااہلی کے زیر عتاب رہے، ہمیشہ جانورخریدکرگلی محلوں، فلیٹوں کے بیسمنٹ میں باندھے جاتے تھے، لیکن اس بار تو ہر جگہ ندی نالے بھرنے کے بعدگلیوں وگھروں میں پانی کھڑا ہے، سڑکیں تالاب کا منظر پیش کر رہی ہیں، بڑے جانور باندھنے کی توکہیں جگہ نہیں انسان جانور سب ہی پر یشان دکھائی دیتے تھے، مزید ستم ظریفی کہ بجلی کی فراہمی معطل ہے، زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی، اس بارش نے حکومتی اقدامات کی پول پٹی کھول دی ہے۔

پاکستان بننے کے بعدکئی سیاست داں آئے و چلے گئے ان تمام ادوار میں مون سون کی بارشیں برسیں تباہ کاریاں ہوئیں، گھروں، کھیتوں اور بے گناہ انسانی جانوں کے نذرانے بھی دیے گئے، حکومتی اراکان کے بذریعہ ہیلی کاپٹرز دورے ہوئے مگرکسی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان شہروں، دیہاتوں، بستیوں کو بچانے کے لیے سنجیدگی سے کوئی عملی اقدامات کرے، ہم ہر سال ان تکلیف دہ حالات کا سامنا کرتے ہیں اور پھر چند دنوں میں سب کچھ بھول کر اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں، وہ علاقے جو آج بارش کی تباہ کاریوں کا نمونہ پیش کررہے ہیں، کیا ان کے منتخب نمایندوں کو اپنے علاقوں کی بابت کچھ خبر نہیں کہ ہر سال بارشوں کے دوران آبادی کوکس قدر نقصان اٹھانا پڑتا ہے، پھرکیوں اسمبلیوں میں بیٹھ کر ایسے اقدامات نہیں کرتے جن سے ان علاقوں میں جانی نقصان کا ہمیشہ کے لیے تدارک کیا جاسکے، وہ سب آج ان جانوں کے قاتل ہیں، جو بارش کی نذر ہوگئے، ناقص انتظامات کے ہاتھوں پریشان حال متاثرین انتظامیہ اور حکمرانوں کو بد دعائیں دے رہے ہیں۔

ہم قیام پاکستان کے بعد سے اب تک وہیں کھڑے ہیں، جہاں سے چلے تھے اچانک پیش آنے والے حادثات کے بچاؤ کے لیے کوئی انتظامات نہیں مگر اس بار تو مون سون کی بارشوں کی پیشن گوئی کردی گئی تھی، محکموں کو وارننگ بھی دی گئی، اس کے باوجود انتظامیہ نے اپنی نا اہلی ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کے الیکڑک کی عام دنوں میں لمبی لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام کو مزید تنگ کیا گیا، گھنٹوں لائٹ غائب رہی، شہر تاریکی میں ڈوبا رہا، عوام اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتے دکھائی دیے۔

میئر اپنے اختیارات سے محروم، وفاق سے مدد مانگ رہے ہیں، صوبائی حکومتیں اپنی عیاشیوں کے لیے دل کھول کرخرچ کرتی ہے، ہیلی کاپٹرز میں بیٹھ کر ڈوبتے ہوئے لوگوں کا تماشہ دیکھتی ہے مگر خلق خدا کی زندگی بچانے کے لیے رقم دستیاب نہیں، وطن عزیزکے ہر مشکل مرحلے میں ہمیشہ پاکستانی افواج نے اپنا مثبت کردار نبھایا ہے، فوج کے جوان اس مشکل گھڑی میں مصروف عمل ہیں۔

بزرگوں سے سنا ہے کہ آندھیاں، زلزلے اور طوفان اللہ کے لشکر ہیں، ہم اپنے اعمال کی طرف دیکھتے ہیں، اپنے وزراء اور حکمرانوں پر نظر ڈالتے ہیں، تو اسی کے مستحق نظر آتے ہیں آخرکرپشن جھوٹ بد دیانتی بد اعمالی دنیا کے سب سے بڑے جرائم میں ہم پہلے نمبر پر ہیں ہم پر برا وقت آچکا ہے مگر اللہ تعالی نے توبہ کے دروازے ہمیشہ سب کے لیے کھلے رکھے ہیں۔ ہمیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے جوآیندہ ان قدرتی آفات سے بچا سکیں، اس کے لیے حکمراں طبقے کو فضول خرچیوں کو خیر باد کہہ کر خلوص نیت سے مسائل حل کرنا ہوں گے۔

دنیا کے نقشے میں ہالینڈ ایک ایسا ملک ہے، جوسطح سمندر سے نیچے آباد ہے وہاں کبھی سیلاب نہیں آتا، انھوں نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے آپ کو محفوظ بنایا ہے، ہمارے ارباب اختیارکو اس بارے میں غورکرنے ضرورت ہے کہ یہ باران رحمت جو ہمارے کھیتوںکو سیراب کررہی ہے، جو زندگی کی نوید ہے، اس کی آمد سے ہمارے دل چورکیوں ہوجاتے ہیں، یہ ہمارے لیے کیوں زحمت بن جاتی ہے، ہم بارش برسنے کے چندگھنٹوں بعد ہی چمکتے سورج نکلنے کی دعا کیوںکرتے ہیں، بارش کسی ملک کے لیے شاعرکا خوبصورت گیت تو ہمارے لیے کیچڑکیوں ہے۔