Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ghurbat Aur Khud Kushi

Ghurbat Aur Khud Kushi

سچائی کی خاطر سقراط نے زہر کا پیالہ پیا اور موت کو گلے لگا لیا، مگر آج کے زمانے میں انسان غربت، افلاس اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر مرنے پر مجبور ہیں، وہ اس دور کی سچائی تھی یہ آج کی حقیقت ہے جس سے ہمارے ارباب اختیار صرف نظرکرتے آئے ہیں، بے فکر ہیں سب ٹھیک ہے کا دعویٰ ہے اپنے محلوں میں چین کی نیند سوتے ہیں بھلا پیٹ بھرے کو کس بات کا غم ہوگا۔

چند روز قبل نیوز پیپر میں اخبار مالک کے بیٹے کی شادی کی خبر بڑے طمطراق سے چھپی تمام شہر کے معززین اور وزرا اور فوجی عہدیداران شریک ہوئے تقریب کسی شادی سے کم نہ تھی دولت و امارت کا ایک سیلاب تھا لیکن دو روز بعد اسی اخبار کے فرنٹ پیج پر ایک بے روزگار میر حسن کی خودسوزی کی خبر شایع ہوئی جو کئی مہینوں سے بے روزگار تھا، پانچ بچوں کا باپ تھا سخت سردی میں بچوں کو گرم کپڑے مہیا نہیں کرسکتا تھا غربت کے ہاتھوں تنگ آکر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

کسی بھی ملک کا ذرایع ابلاغ اس معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے یہ وہ آئینہ ہے جس میں تمام زندگی کی کڑوی سچائی کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ افلاس و آسودگی کے درمیان جو زمین آسمان جتنا خلا ہے اسے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ غربت تنگدستی اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر موت کو گلے لگانے کے واقعات ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

کہیں رکشہ ڈرائیور فاقوں اور قرضوں سے تنگ آکر چھ بچوں سمیت زہر کھا لیتا ہے یوں ایک باپ نے اپنے بچوں کو دنیا کے تمام غموں سے آزاد کردیا انھیں سسک سسک کر زندگی گزارنے سے بچا لیا وجہ صرف بھوک! کہیں کوئی خاتون پانچ بچوں سمیت زہر کھا کر خودکشی کرتی ہے کوئی محمد اسماعیل بچوں کو دودھ کے لیے بلکتا نہ دیکھ سکتا تھا دو سال سے بے روزگاری کی سزا بھگتنے کے بعد بالآخر گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی سے زندگی کی تمام اذیتوں سے راہ فرار حاصل کرلیتا ہے۔

ایک اور واقعے میں نوجوان نے غربت اور قرض خواہوں سے تنگ آکر بجلی کے تار سے لٹک کر خودکشی کرلی۔ خودکشی کے یہ واقعات اس بات کو ظاہرکرتے ہیں کہ معاشرے میں غربت، بے روزگاری اور بے حسی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے اور اس میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے زندگی سے دل برداشتہ ہوکر زہریلی گولیوں یا دیگر طریقوں سے اپنی اور اہل خانہ کی زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کرنا کیا ارباب اختیار اس بات کی اذیت کو محسوس کرسکتے ہیں جو دکھ اور تکلیف انھوں نے مرنے سے پہلے محسوس کی ہوگی۔ یہ فیصلہ ان لوگوں نے ایک دن میں تو نہ کیا ہوگا، کئی اذیت ناک دن گزارے ہوں گے تب اس فیصلے پر پہنچ پائے ہوں گے۔

ہم سب کا ایمان ہے کہ موت برحق ہے جو اس دنیا میں آیا ہے اسے واپس بھی جانا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا ہم سب پر بہت بڑا احسان ہے کہ ہم سب اپنی موت کے صحیح وقت کو نہیں جانتے اگر ہم اس سے واقف ہو جائیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کتنی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہوں لیکن! اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں موت کے منہ میں دھکیلنا کس قدر اذیت ناک ہے اس کرب کا اندازہ ایک صاحب اولاد اچھی طرح لگا سکتا ہے۔

الفریڈ ایڈلر انفرادی نفسیات کے موجد مانے جاتے ہیں، ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ مشکلات سے بچنے کی کوشش کی آخری اور انتہائی صورت خودکشی ہے۔ اس نوبت پر انسان زندگی کے مسائل کا مقابلہ کرنا بالکل ترک کردیتا ہے اور خیال کرلیتا ہے کہ وہ اب اس دنیا میں رہنے کے لائق نہیں رہا اس لیے خودکشی کرلیتا ہے خودکشی میں جو احساس برتری ہے وہ صاف ظاہر ہے کہ ایک قسم کا انتقام ہے (یعنی جب انسان مشکل زندگی سے مقابلہ نہیں کرسکتا تو وہ خودکشی کرکے اپنے آپ کو مشکلات سے برتر سمجھ کر گویا انتقام لیتا ہے ) یہ صحیح فکر نہیں خودکشی کرنے والا دوسروں کو اپنی موت کا ذمے دار سمجھتا ہے کہ دنیا نے مجھ سے بہت بے رحمانہ سلوک کیا۔ خودسوزی کے واقعات اس بات کی علامت ہیں کہ ہمارا معاشرہ نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔

مہنگائی و بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے اس کی ایک وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم بھی ہے۔ توانائی کے بحران گیس و بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے صنعتی و تجارتی پیداوارکو بہت متاثرکیا ہے کسی بھی ملک کی ترقی اور روزگار کے لیے گیس و بجلی کی اہمیت ریڑھ کی ہڈی کے مترادف ہے مگر جس انداز میں لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے اس نے ہزاروں کارخانوں ملوں اور دیگر کاروبار کو ختم کر دیا ہے جس سے لاکھوں گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے ہیں ہماری درآمدات کم اور برآمدات زیادہ ہوگئی ہیں پیداوار بڑھے گی تو صنعتی ترقی اور روزگار ہوگا۔

ہمارے ارباب اختیارکو اس جانب توجہ دینی ہوگی کہ ایک مسلمان حاکم کی ریاست میں اگرکوئی کتا بھی بھوکا مر جائے تو اس کی باز پرس قیامت کے دن حکمران سے ہوگی۔ ادھر تو انسانوں کے حال سے لاتعلق ہیں آج اگر سیاسی پارٹی کے قائدین اپنے سیاسی منشور پر عمل کرتے تو کسی شخص کے خودکشی کرنے کی نوبت نہ آتی ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے مایوسی اور غربت کے سوا کچھ نہیں دیا ہم سب کو اس ملک کو بچانے کے لیے خود بھی انفرادی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے آس پاس رہنے والوں کی خبرگیری کیجیے کہ اسلام بھی ہمیں درس دیتا ہے کہ اپنے پڑوسی کے بچوں کو بھوکا نہ سونے دو ان کی ضرورتوں کا خیال رکھو۔

اس ملک کے مخیر حضرات کو وطن عزیز نے بہت نوازا ہے اگر انھیں اس ملک کا احسان اتارنا ہے تو آگے آنا ہوگا عوام کے لیے جگہ جگہ خیراتی ادارے قائم کرنے کی بجائے ان کو اس لائق بنانا ہوگا کہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر ملک کی ترقی و تعمیر میں حصہ لے سکیں یہ جب ہی ممکن ہے کہ ہم بے نظیر انکم سپورٹ کی خیرات کے بجائے بے روزگاروں کو کوئی چھوٹا کاروبار کراسکیں۔ کوئی ٹھیلہ، دکان، گھریلو صنعت یا کوئی ہنر جس سے وہ اپنی محنت سے باعزت روزگار کما سکیں۔

ہمارے عوام کو ایسی رقم کی ضرورت نہیں جو ان کے پیاروں کے موت کی صورت میں حکومت وقت ادا کرے اگر حکومت کے پاس اتنی رقم موجود ہے تو وہ یہ رقم عوام پر پہلے ہی خرچ کیوں نہیں کرتی؟ کیوں کسی غریب کے سائبان چھیننے کا انتظار کرتی ہے؟ حکومت بے روزگار عوام کو زہر کا پیالہ پینے سے پہلے ہی ان کے مسائل حل کر دے تو یہ عوام اور حکومت دونوں کے حق میں بہتر ہوسکتا ہے۔