کل24 اکتوبر کو جب ساری دنیا نے پولیو سے نجات کا عالمی دن منایا تھا تو ہم اپنے آپ کو قدر ے بے بس محسوس کر رہے تھے کہ پولیو ڈے کو پاکستانی اس انداز سے جشن نہیں منا سکتے جیسے دیگر اقوام منا رہی ہیں نجانے ہمارا پولیو سے آزادی کا خواب کب پورا ہو گا۔
دنیا کے 125 ممالک میں افغانستان اور پاکستان پولیو ذدہ ممالک ہیں جو اس موذی مرض سے نجات نہیں حاصل کر سکے ملک سے باہر جانے کی صورت میں ہر شہری کو پولیو کے قطرے پینے پڑتے ہیں اب یہ ہماری نا اہلی ہے شدت پسندوں کے غلط مفروضات ہیں یا پھر ہم توہمات کے شکار اذہان ہیں جو ہمارے راہ کی رکا وٹ بنے ہوئے ہیں۔
اس بارے میں ہم سب کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ پولیو ویکسین دراصل پولیو پھیلانے والے مردہ اور نیم مردہ جراثیم کے سیلز سے بنائی جاتی ہیں اس وائرس کا علاج کوئی نہیں زندگی بھر اپاہج بنانے والے اس مرض کو ما را نہیں جا سکتا اس لیے ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو پولیو سے بچانے کے لیے از حد ضروری ہے کہ اس مشن میں حکومت کا ساتھ دیں پولیو ٹیموں سے تعاون کریں آگاہی کے اس دور میں اپنے خاندان کو اپنے وطن کو پولیو سے محفوظ بنائیں۔
افریقہ جیسے پسماندہ ملک نے اپنی تیس سالہ جدو جہد سے مرض پر قابو پا لیا اپنے اٹھا رہ لاکھ بچوں کا مستقبل پولیو سے محفوظ کرلیا امریکا نے پولیو سے1979 میں نجات حاصل کر لی تھی ہما رے پڑوسی ملک انڈیا میں 1997 سے ویکسینیشن کا آغاز ہو ا اور 2014 میں وہ بھی اس مرض سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہو چکا ہے جہاں 35 ہزار بچے ہر سال پولیو کا شکار ہوتے تھے نائجیریا جیسے ترقی پذیر ملک میں 2016 سے پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا نائجیریا کو بھی اس سال پولیو سے پاک ممالک کی صف میں شامل کر لیا گیا ہے۔
ایک پاکستان اور افغانستان ہیں جہاں اس مرض میں مبتلا بچے موجود ہیں اور اس سال بھی 102بچے پولیو کا شکار ہوئے یہ کتنی بڑی بد قسمتی ہے کہ دنیا ترقی کی دوڑ میں مصروف ہے اور ہم اب تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ اپنے بچوں کو معذور بننے سے کیسے روک سکتے ہیں کس طرح ان عوامل کا سد باب کریں جو ہمارے ذہنوں میں پھیلے جالوں کو صاف کر دے۔
بد قسمتی سے اب تک پولیو کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے اسے محض حفاظتی ٹیکوں اور ڈراپس کے ذریعے ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے یہ ایک متعدی مرض ہے جو آپس کے میل جول کے دوران منہ اور ناک سے پھیلنے والی رطوبتوں کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو تا ہے آلودہ پا نی و فضلات سے بھی انسانی جسم میں سرایت کر جاتا ہے یہ شدید متعدی مرض ہے نظام ہضم میں پہنچنے کے بعد اس کے جراثیم تیزی سے دگنے ہونا شروع ہو جاتے ہیں چونکہ یہ وائرس دوائوں نے ختم نہیں کیا جا سکتا اب ویکسین ہی اس سے بچائو کا واحد ذریعہ ہے یہ سائنس کا انعام ہے اس کرہ ارض پر رہنے والوں کے لیے جن کی شب وروز کی تحقیقات ہمیں لا علاج امراض سے بچاتی ہے۔
ویکسین کا لفظ انگریز ی زبان کے vacca سے نکلا ہے جس کے معنی cowکے ہیں پہلی ویکسین کائو پر کی گئی تھی اس لیے وہیں سے یہ نام دیا گیا1976میں ایڈورڈ جنرل نے پہلی مرتبہ چیچک کی ویکسین بنائی انھیں بابائے ویکسین کہا جاتا ہے لیکن اس لفظ کو اخذ لوئی پاسچر نے کیا تھا وہ ویکسین سے علاج کا تجربات اور ریسرچ ایڈورڈ جنرل سے بھی پہلے کر رہے تھے انھوں نے ریبیز کی ویکسین بنائی تھی تمام متعدی امراض کی ویکسین دراصل انھی امراض کے نیم مردہ جرثوموں سے بنائی جاتی ہیں پھر انھیں جسم میں انجیکٹ کیے جاتے ہیں۔
ہمارے جسم میں قدرتی طور پر ایسا میکنیزم موجود ہے جس کے مطابق پہلی بار کسی بیماری کے حملہ آور ہونے پر ہمارا مدافعتی نظام بھر پور انداز میں دفاع نہیں کر سکتا جب کہ وہی بیماری اگر دوبارہ حملہ آور ہو تو وہ سسٹم مضبوط ہو چکا ہوتا ہے اور امینو سسٹم بھرپور انداز سے مقابلہ کرتا ہے اسی فارمولے کے تحت یہ ویکسین ہمارے جسم میں کام کرتی ہے بابائے ویکسین ایڈورڈ جنرل کے زمانے میں جب چیچک اپنے عروج پر تھی تو انھوں نے لگاتار تجربے سے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ ویکسین کا مقابلہ ہمارے وائٹ بلڈ سیلز امینو سسٹم بنا کر کرتے ہیں یہ امینو ہمارے جسم کو مضبوط بنا کر ہماری حفاظت کرتے ہیں تجربے کے طور پر ایڈورڈ نے ایک دس سالہ بچے کو جو چیچک کی بیماری سے صحت یاب ہوا تھا اسے دوبارہ اسی چیچک کا انجیکشن انجیکٹ کیا لیکن وہ بچہ اس مرض میں مبتلا نہیں ہوا محفوظ رہا۔
قدرت کی جانب سے انسانی جسم میں یہ سسٹم موجود ہے کہ ہمارا دفاعی نظام جس وائرس سے ایک بار مقابلہ کر لے اس کے خلاف معدافعتی نظام کو لائف ٹائم نہیں بھولتا یہی وجہ ہے کہ ویکسین ایک بار لگوانے کے بعد ہمارا جسم قوت مدافعت کے لیے اس کے خلاف سیل بنا لیتا ہے اور پھر زندگی بھر اس مرض سے ہمیں محفوظ رکھتا ہے گویا ایک حفاظتی دیوار بن جاتی ہے یہ ایک کامیاب تجربہ تھا جس نے آنیوالے سالوں میں طبی سائنس میں ایک باب رقم کیا یہ تمام تفصیلات بتانے کا میرا مقصد پولیو کی ویکسین کو سمجھنے کے لیے ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق 1988 سے دنیا میں پولیو کیسزمیں نمایاں کمی آئی ہے جدید تحقیق نے دنیا میں بہت سی بیماریوں کا خاتمہ کر دیا ہے اقوام عالم نے مل کر پولیو کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اسے اپنے ملکوں سے مٹا دیا وطن عزیز میں بھی آزاد کشمیر سے گذشتہ بیس سالوں میں اب تک کوئی پولیو کیس رجسٹرڈ نہیں ہو یہ ایک اچھی خبر ہے اس وقت پاکستان میں بھی پولیو سے آگاہی پروگرام اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا سے نشر کیے جا رہے ہیں۔
پاکستانی حکام نے پولیو ورکرز کو بہترین سیکیورٹی فراہم کی ہے ان خطرناک علاقوں کو جہاں حملوں کے زیادہ خدشات ہیں پولیس اہلکار ساتھ ہوتے ہیں امید کی جا سکتی ہے کہ آنیوالے سالوں میں کوئی پولیو کیس رجسٹرڈ نہ ہو اور ہماری قوم بھی فری پولیو ممالک میں شامل ہو نے کا خواب پورا کر سکیں۔