اکتوبر کا مہینہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے، جیسے 16 اکتوبر 1951کو پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں قتل ہوئے اور 17اکتوبر کو ملک غلام محمد نے گورنر جنرل اور خواجہ ناظم الدین نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔ پھر پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لاء سکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958 کو لگایا۔
27اکتوبر کو جنرل ایوب خاں نے انھیں چلتا کیا اور 26اکتوبر1959 کو ایوب خاں نے بنیادی جمہوریت کا تصور دیا اور اگلے دن فیلڈ مارشل بن گئے۔ پھر 16اکتوبر 1979 کو جنرل ضیا الحق نے غیر معینہ مدت کے لیے پولنگ ملتوی کر دی، سیاسی جماعتوں کو تحلیل کر دیا اور پریس سینسرشپ نافذ کر دی۔ 6 اکتوبر 1988 کو آٹھ سیاسی جماعتوں نے مل کر اسلامی جمہوری اتحاد قائم کیا۔
24 اکتوبر 1990 کو عام انتخابات ہوئے، جس کے نتیجے میں اسلامی جمہوری اتحاد نے 106 سیٹیں حاصل کیں اور پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل تھی، نے 45 قومی اسمبلی کی سیٹیں حاصل کیں۔
6 اکتوبر 1993 کو ایک بار پھر ملک میں الیکشن ہوئے اور پیپلز پارٹی نے 86 جب کہ پاکستان مسلم لیگ نون نے 72 سیٹیں حاصل کیں۔ 19اکتوبر 1993 کو بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم بنیں۔ پھر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر کی 12 تاریخ کو ہی نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا، 2010 میں اکتوبر کے مہینے میں ہی پرویز مشرف نے لندن کے ایک کلب میں اپنی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ بنانے کا اعلان کیاتھا۔ پھر 8اکتوبر 2005 کو ملک میں بدترین زلزلہ آیا18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر سانحہ کارساز پیش آیا۔ اور پھر عمران خان صاحب کی سیاسی زندگی کا سونامی بھی اکتوبر میں آیا جب 30 اکتوبر 2011کو لاہور میں جلسہ کیا۔
اب جب کہ 12اکتوبر گزرا ہے تو سوچا اس پرکچھ بات ہو جائے کہ12اکتوبر جیسے مارشل قسم کے سانحات ہمیں کیا نقصان پہنچاتے ہیں اور اس کے دوررس نتائج کیا ہوتے ہیں، اگر ہم 12اکتوبر 1999ء کے دن کو یادکریں تو آج سے ٹھیک22 برس قبل جنرل پرویز مشرف اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر خود ملک کے چیف ایگزیکٹو بن گئے تھے۔
خیر اب ان سانحات کو دہرانے کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم اُن غلطیوں اور سیاسی اثرات کی نشاندہی کریں جس کے اثرات مجموعی طور پر پاکستان پر پڑے ہیں۔ جیسے پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں بار بارمارشل لاء لگے اور ہر بار مارشل لاء نے ایک نئے سیاسی بحران کو جنم دیا۔
مطلب آمریتوں نے ہمیشہ "جمہوری آمر" ہی پیدا کیے، یعنی آمریت کی کوکھ سے جب بھی کسی جمہوریت نے جنم لیا، وہ نیم آمریت ہی تھی۔ بھٹو ہمارے سب سے بڑے سیاسی لیڈر رہے، مگر جب اُنہیں اقتدار ملا تو وہ بھی سب سے بڑے سیاسی آمر بن گئے پھر یہی حال نواز شریف کا تھا، وہ بھی اقتدار میں زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کے چکر میں جمہوری آمر بن گئے۔ اور اب موجودہ وزیر اعظم بھی آہستہ آہستہ جمہوری آمر بن رہے ہیں، جن کے فیصلے عوام کو فائدہ پہنچانے کے بجائے کسی اور کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ ان تمام جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کو آپ سادہ الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان آمریتوں نے نہ صرف خود نقصان پہنچایا، بلکہ "بچے "بھی دیے اور پھر اُن بچوں نے جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔
الغرض 12اکتوبر، 5جولائی یا 7اکتوبر جیسے سانحات نے پاکستان کو ہمیشہ نقصان پہنچایا، کرپٹ سیاستدان مہیا کیے، پرانے حقیقی سیاستدانوں کی کھیپ کو ختم کر کے رکھ دیا، بلکہ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ 1985 کے بعد کے سیاستدان تو پرائز بانڈ والے سیاستدان رہ گئے ہیں یا مک مکا والے یا ترقیاتی فنڈز میں سے کمیشن کھانے والے ان سیاستدانوں میں کوئی بھی کرپشن کیے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔
عام سرکاری افسر بھی کرپشن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، بلکہ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے 90فیصد اداروں اور 85فیصد افراد میں کرپشن رچ بس گئی ہے، ہر کرپشن کھانے والا شخص اسے اپنا حق سمجھتا ہے، میرے خیال میں جب تک اس ریاست کے شہریوں میں اوپر سے نیچے تک احساس نہیں ہوگا کہ وہ جھوٹ بول کر کس قدر اخلاقی قدروں کو چھو رہے ہیں تب تک یونہی مارشل لاء بھی لگتے رہیں گے اور نیم جمہوری لوگ بھی ہم پر مسلط ہوتے رہیں گے۔ قتیل شفائی سو مرتبہ کہتا رہے کہ
کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں
مگر جب تک ہم اس بات کی نشاندہی نہیں کریں گے کہ آخر سسٹم کیسے ٹھیک ہوگا تب تک ہم یونہی دنیا میں رسواء ہوتے رہیں گے لہٰذااس پر سب سے زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس خراب، بوسیدہ اور کرپٹ سسٹم سے کیسے نکلا جائے۔
کیسے اس سسٹم سے نکلا جائے کہ ہم کرپٹ لوگوں کی عزت کرنا چھوڑ دیں، کیوں کہ ہم لوگ بھی اُسی کی عزت کرتے ہیں، جو کرپشن سے امیر ہوا ہو، جو غیر قانونی طور پر طاقت رکھتا ہو، جو سب سے بڑا کریمنل ہو۔ یعنی ہم ذہنی طور پر بھی کرپٹ ہوگئے ہیں، کوئی شخص بھی اپنی تنخواہ میں زندہ رہنے کو ترجیح ہی نہیں دینا چاہ رہا، کوئی بھی شخص کرپشن کرکے اُس پر ندامت کا اظہار بھی نہیں کرنا چاہ رہا۔